میں کیسے جماعت اسلامی کے خلاف لکھوں ؟

مجھے اکثر کہا جاتا کہ تم ہر کسی کے خلاف لکھتے ہو ! جماعت اسلامی کے خلاف کیوں نہیں لکھتے ۔۔۔۔ وہ کونسا دودھ کے دھلے ہیں ۔۔۔ اور پھر کالمز پر جماعت اسلامی کے خلاف تبصروں کی صورت میں بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

لیکن جب بھی کچھ اس بارے میں سوچتا ہوں تو قلم میرا ساتھ نہیں دیتی ۔۔۔ میرے ہاتھ مجھے کچھ لکھنے سے روکتے ہیں ۔۔ مجھے الفاظ ڈھونڈنے میں مشکل نظر آتی ہے ۔۔ میری سوچ مجھے تنہا چھوڑ جاتی ہے ۔ کیسے آخر کیسے جماعت اسلامی کے خلاف لکھوں ؟۔۔۔

لیکن لکھوں تو لکھوں کیا ؟

کیا یہ لکھوں کہ 1941 میں بننے والی اس تحریک نے روح انسانیت پر جو نقش وضع کئے ہیں اور تین نسلوں کو متاثر کیا ہے وہ غلط ہے ؟

کیا یہ لکھوں کہ بانی تحریک ابو اعلیٰ کی نظریاتی سوچ ، اسلام سے والہانہ محبت اک دھوکہ یا فراڈ تھا ؟

یا یہ لکھوں کہ قائدین جماعت نے اپنا وقت ، اپنا سرمایہ ، اپنا مستقبل جو وطن عزیز کے لئے قربان کر دیا وہ صحیح نہیں تھا ۔

کیا یہ لکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ سالمیت پاکستان کے لئے اٹھنے والی ہر تحریک کا ہراول دستہ جماعت اسلامی کیوں رہی ہے ؟

ہاں مجھے بتاؤ کیسے لکھوں میں جماعت اسلامی کے خلاف ؟؟

کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں تو مجھے البدر کے 10 ہزار کارکنان یاد آجاتے ہیں جنہوں نے اپنی سروں کی فصلیں اپنے وطن کی سالمیت کے لئے کٹوا دیں ؟

میری سوچ مجھے اس پھانسی گھاٹ تک لے جاتی ہے جہاں رہبر ملت مولانا مودودی کو اسلام سے محبت اور قادیانیوں کی اصلیت لکھنے پر پھانسی پر لٹکایا جانا تھا ۔

مجھے بھٹو کیخلاف چلنے والی تحریک میں جماعت اسلامی کے کارکن بھی یاد ہیں جن کو اذیت دی گئی ، جیلوں میں بند رکھا گیا ، جن کو ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔

مجھے وہ دیوانے بھی یاد ہیں جنہوں نے ایک کرپٹ حکومت کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر اپنے قا ئد کے ہاتھوں میں جان دے دی ۔

میں کیسے ان کے خلاف لکھوں جنھوں اپنا تن ، من ، دھن وطن عزیز کے نام کر دیا ، جس کی صبح وطن کی سالمیت کی دعائیں کرتے ہوئے اور شام نئی امید کے نام کرتے ہیں ۔

خدارا مجھے بتاؤ ۔۔۔
میں کیسے ان کے خلاف لکھوں ۔۔۔ لکھوں گا تو ڈاکٹر نذیر شہید کی روح مجھ سے سوال کرے گی کہ بتاؤ میرا ذاتی طور پر کس سے لینا دینا تھا ؟ مجھے قتل کیا گیا تو صرف اس لئے کہ میں بھٹو اور کھر کی اصلیت کے خلاف ایک آواز تھا ۔

لکھوں گا تو افغانستان کے کہساروں کی اپنے لہوں سے پیاس بجھانے والے ہزاروں شہدا آخرت میں میرا گریبان پکڑے ہوں گے ۔

میرا قلم جنبش کرے گا تو کشمیر کی وادیوں میں گرنے والا پاکیزہ خون ، اور معصوم چہرے مجھ سے پوچھیں گے کہ ہمیں تو کوئی لالچ نہ تھی ، ہم نے تو سنت رسولﷺ عمل کیا تھا ۔

میں کچھ سوچوں گا بھی تو دھوپ اور سردی میں باطل نظام کے خلاف لڑنے والے کارکن مجھے سے سوال کریں گے کہ بتاؤ ہمیں کونسی وزارتیں چاہئیں ؟ ہمیں کونسا عہدہ چاہئے ، ہمیں کونسا روپیہ پیسہ چاہئے ؟ ہم تو نکلے ہیں بس اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے ۔

میں کیسے غداری کروں کراچی تا خیبر ان لا تعداد کارکنوں سے جو اپنی جیب سے پیسہ لگا کر ، اپنا کاروبار چھوڑ کر ، اپنی نوکریوں سے چھٹی لیکر گلیوں اور محلوں میں ، دیہاتوں اور قصبوں میں ، در بدر لوگوں کو ایک اللہ کی غلامی کا درس دے رہے ہیں ۔

میں کیسے لب کشائی کروں ان لیڈرز اور کارکنوں پر جو پڑھے لکھے ہیں ، جو چاہتے تو کاروبار کر سکتے ہیں جو چاہتے تو ہسپتال اور کارخانے بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنا آپ مار کر لوگوں کی بھلائی کا ٹھیکہ اٹھایا ۔

میں کیسے بھول جاؤں ان پروانوں کو جن کو واجپائی کی محبت میں گرفتار غیرت سے عاری حکمرانوں نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا اور 90 سالہ بزرگوں کو اٹھا اٹھا کر سڑک پر پٹکتے رہے ۔

مجھے یاد کرنے دو ان نوجوانوں کو جن کی پاکیزہ نوجوانیاں ، اس ملک کے تعلیمی اداروں میں الحاد ، کرپشن، غنڈہ گردی اور فحاشی کو روکنے میں قربان ہو گئیں ۔

ہاں ہاں کیسے تبصرہ کروں ان جفا کش ماؤں اور بہنوں پر جنہوں نے عورت ہو کر ، گھر داری سنبھال کر بھی حکومت الیہہ کے قیام کے لئے گرم و سرد موسموں میں جدو جہد کی ۔

اور وہ دو بوڑھے تو کبھی نہیں بھول پاؤں گا جو کراچی کے میئر اور ناظم بنے تو کھنڈر کراچی کو روشنیوں کا شہر بنا ڈالا ، جن کے دور میں کراچی کا نام ٹاپ ورلڈ سیٹیز کی لسٹ میں شمار ہونے لگا اور تاریخ ان کو عبد الستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے نام سے یاد کرتی ہے ۔

اور اگر ان ایم این اے اور ایم پی ایز کا نام نہ لوں تو زیادتی ہو گی جو غریب کارکنوں کی پائی پائی سے اپنی مہم چلاتے ہیں اور مخلتف اوقات میں پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن رہے لیکن آفرین ہے اللہ کے شیروں اور محمد کے غلاموں پر جن کے دامن کرپشن اور لوٹ مار سے پاک رہے ۔

میں ان کے خلاف کھوج لگانے لگتا ہوں تو اس کھوج میں پلاٹ ، زمینیں ، کوٹھیاں ، کاروبار ، بینک بیلنس تلاش کرتا ہوں تو مجھے سخت مایوسی ہوتی ہے ۔

ہاں کچھ تو بتاؤ مجھے میں جماعت اسلامی کے خلاف کیا لکھوں ، اور کیسے لکھوں جبکہ جماعت اسلامی ہی اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہے ، جبکہ جماعت اسلامی ہی کی وجہ سے آج یہ ملک اپنے نظریے پر کھڑا ہے ، جبکہ اسی کی وجہ سے حکمران اس ملک میں اللہ کے نظاموں سے بغاوت نہیں کر سکتے ، اسی کی وجہ سے آج سامراجی قوتیں اپنے محلات میں لرزہ بر اندام ہیں ۔

میں شاہد الفاظ سے ان کی قربانیوں کو خراج پیش نہ کر سکوں ، میرا لہجہ ان مخلص اور پاکیزہ لوگوں کے سامنے گنگھ جو جاتا ہے ۔۔ میری انگلیاں ان کی شاندار تاریخ کر رقم کرنے سے عاری نظر آتی ہیں ۔

لیکن مجھے تم لوگ مجھے سمجھانے چلے ہو ۔۔۔ لیکن شاہد سمجھانے کے لئے تمہارے پاس گھٹیا الزامات ، چربہ انداز ، اور دلیل سے عاری باتوں کے سوا کچھ نہ ہو!!!
Awais Aslam Mirza
About the Author: Awais Aslam Mirza Read More Articles by Awais Aslam Mirza: 23 Articles with 61516 views ایک عام انسان جو معاشرے کو عام سے انداز سے دیکھتا ہے ۔ .. View More