پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کی
تیاریوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ جمہوریت کا حسن ہے کہ حکومت کی طاقت عوام کے
درمیان ہر سطح تک یکساں پہنچے۔موجودہ حکومت نے سابقہ بلدیاتی نظام کو رد
کرتے ہوئے نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا ہے جو کہ عالمی قوانین کے مطابق
ایک اچھا نظام ہے جس میں عام آدمی کو فیصلہ آور اور طاقتور بنایا جائے گا۔
لیکن اس سے پہلے کچھ انتظامی کام ہونے ضروری ہیں ۔ یہ بنیادی مسائل ہیں جن
کے حل سے وسائل میں بہتری اور بلدیاتی نظام میں بہت سے مثبت نتائج حاصل ہوں
گے۔پاکستان بھر کے کئی اضلاع ایسے ہیں جن کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے وہ ان
کی میونسپل کمیٹیاں مسائل کا گڑھ بن چکی ہیں۔ ایسے اضلاع پاکستان کے ہر
صوبے میں ہیں جن کے مسائل بے پناہ اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجٹ میں
خساروں کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے اور دوسری وجہ پسماندہ ہونے کی وجہ سے
حکومتی افسران و ملازمین کو کوئیباگیں آزاد چھوڑنا ہے ۔اسی لئے خرد برد کی
شرح ان اضلاع میں ترقیاتی اضلاع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ریاست کو ایک مثالی
کردار ادا کرنا چاہئے ، اور نظام حکومت بھی مثالی ہونا چاہئے ۔ ایک چیز تو
واضح ہے کہ اس بلدیاتی نظام کے بعد پی ٹی آئی کی جڑیں مضبوط ہونے والی ہیں
اور صدارتی نظام کا نفاذ بھی بہت جلد ممکن ہے ۔ان اضلاع کے خسارے کو ختم
کرنے کیلئے انتظامی تقسیم کے ساتھ ساتھ گنجان آباد میونسپل کمیٹیوں کو
کارپوریشنز میں تبدیل کیا جانا چاہئے۔راقم کا تعلق جس ضلع سے ہے وہ ضلع بھی
انتہائی پسماندہ ہے ۔ یہ ضلع تاریخی و ثقافتی اعتبار سے حمیت رکھتا ہے لیکن
وائے نصیب کہ ملک کو سب سے زیادہ آئی ایس آفیسرز دینے والے ضلع جھنگ کے لوگ
آج تک کسی ڈی گریڈ معاشرے والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ سیاہ
سی اور جاگیر دار تو ہیں ہی ساتھ وہ بھی برابر کے شریک ہیں جنہوں نے دور
جہالت میں شعور حاصل کیا ، نو دولتیے بنے اور پھر ضلع چھوڑ کر چلے گئے۔ کاش
کہ ان کے دم سے بہار آتی لیکن شاید خزاں ان باسیوں کے مقدر میں تحریر
ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ تقدیر والی میری بات وسوسے سے زیادہ نہ ہو۔ ہاں
مگر کہ پی ٹی آئی کی نئی آہنگ پر جہاں سارے ملک نے لبیک کہا ہے وہیں اس شہر
کے لوگوں نے بھی کہا، اور سارے ہی منتخب عوامی نمائندے اس وقت حکومتی جماعت
میں شامل ہیں۔عام انتخابات میں سارے ملک کی طرح اس ضلع میں بھی پی ٹی آئی
کے نوجوان کارکنوں نے عمران خان کے ساتھ والہانہ جوش و جذبے کا عملی ثبوت
دیا تھا کہ جب عمران خان مصلحت کا شکار ہو کر انہیں پرانے چہروں کو امید
وار کے طور پر سامنے لائے تھے مگر ان نوجوانوں نے کوئی سوال اٹھائے بغیر
عمران خان کا ساتھ دیا اور ان امیدواروں کو کامیاب کروایا تھا۔ مگر منتخب
ہوتے ہی امیدواروں نے رخ بدل لئے ہیں اور پی ٹی آئی کے کارکن سوائے ان کی
خوشامد کے اور سوشل میڈیا پر لوگو ں پر لفظوں کے نشتر چلانے کچھ نہیں کر پا
رہے ہیں۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز جو
الیکٹیبلز عمران خان نے پارٹی میں شامل کئے تھے اس کے خلاف عمران خان کے
سامنے ڈٹ جاتے کہ چاہے کچھ بھی ہوایسا نہیں چلے گا، اور اگر مفاہمت کے پیش
نظر کچھ نہیں کیا تو کم از کم ان منتخب نمایندوں پر نظر رکھ کر ان سے عوامی
مطالبات تو پورے کرواتے تاکہ ان کے لیڈر پر بات نہ اچھالی جاتی! حیف صد حیف
کہ لوگوں کی امید وں کے طاقوں پر رکھے یہ قمقمے اب بجھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جھنگ
کے شہری حلقے کے ایم پی اے اور سبھی ایم این ایز نے اپنا انتخابی منشور دیا
تھا کہ وہ جھنگ کی ترقی و فلاح کو مقدم جانتے ہوئے اسے نہ صرف ڈویژن کا
درجہ دلوائیں گے بلکہ میونسپل کمیٹی کو کارپوریشن کا درجہ دلوا کر ڈویژن
بھی بنوائیں گے۔ لیکن جب سے بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوا ہے تب سے ابھی
تک شہری حلقے کے ایم پی اے کی طرف سے کارپوریشن بنانے کا اعلان سامنے آیاہے۔
کارپوریشن بننے سے شہری حلقے کی حدود بڑھ جائیں گی اس طرح پورے شہر کا ایک
ایم این اور دو ایم پی ایز ہو جائیں گے جس کی وجہ سے سیاست بغیر کچھ کئے
آسان نہ رہے،یہاں گمان غالب ہے کہ کہیں کارپوریشن کا اعلان بھی جھنگ ڈویژن
بنانے والی سمری جیسا نہ ہوجائے۔ اس وقت تحصیل جھنگ کی پسماندگی اور ترقی
میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ اس کا مسلسل سالانہ مالیاتی خسارہ ہے۔یوں تو ٹی
ایم اے جھنگ کی آفیشل ویب سائٹ بتاتی ہے کہ میونسپل کمیٹی سالانہ فائدے میں
ہے لیکن مسائل کے حل کیلئے وسائل کا موجود نہ ہونا خسارے کے غماز ہیں۔ڈی سی
جھنگ اور ایم پی اے جھنگ کو تحصیل میونسپل کمیٹی کا آڈٹ کروانا چاہئے۔
سیوریج ، پانی، صفائی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بہت سی تجاویز پر عمل کیا
گیا ہے لیکن سبھی بے سود رہی ہیں کیونکہ جب تک شہر کے علاقے کو پھیلا کر اس
میں یونین کونسلوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ٹیکس وصولیوں کی شرح میں اضافہ
نہیں کیا جائے گا ، اور شہر کو معاشی طور پر مضبوط نہیں کیا جائے گا تب تلک
ترقی و فلاح کے وعدے خواب کے سوا کچھ نہیں۔شہر بھر میں دیگر سماجی تحریکیں
بھی چل رہی ہیں جن میں جھنگ ڈویژن بناؤ تحریک سر فہرست ہے۔ جھنگ کے ڈویژن
بننے کیلئے میونسپل کمیٹی کو کارپوریشن میں تبدیل کرنا پہلا قدم ہوتا ہے ،
اور یہ ابھی موقع ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے حلقہ بندیوں میں تحصیل
میونسپل کمیٹی کو کارپوریشن کا درجہ دلوایا جا سکتا ہے ، بصورت دیگر ہاتھ
ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔جھنگ کی ساری عوام کے سامنے یہ تجویز رکھ
دی گئی ہے اب آپ کا حق ہے کہ آپ اپنی ذات اور آئندہ نسلوں کے ساتھ کس قدر
مخلص ہیں۔
|