مومن لعنت کرنے والا نہیں ہوتا

رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ دنیا میں رحمتیں عام کرنے کے لیے تشریف لائے تھے ۔ آپ کا مبارک مزاج لوگوں کو لعنت ملامت کرنے کا نہیں تھا۔ آپ نے فتحِ مکہ کے موقع پر جس مثالی عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا تھا، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔آپ ﷺنے صرف مومنوں پر لعنت کرنے سے ہی منع نہیں فرمایا، بلکہ جانوروں اور ہوا تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے ۔ کافرں اور مشرکوں کو بعض صورتوں میں گو کہ لعنت کی گئی ہے ، لیکن اسے مستقل نیکی قرار نہیں دیا گیا۔ اس لیے بد سے بد تر انسان پر لعنت کرنا زیادہ سے زیادہ جائز اور مباح ہو سکتا ہے ، لیکن شریعت کی رو سے فرض و واجب ہرگز نہیں۔ نیز کسی خاص شخص کا نام لے کر لعنت کرنا، جب کے اس کی آخری حالت کا یقینی علم بھی نہ ہو، ایسی جرات کا اظہار کرنا ہے جو وبالِ جان ہی نہیں، وبالِ ایمان ثابت ہو سکتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ جب تک کسی پر لعنت کرنا نص سے ثابت نہ ہو، تب تک اس پر لعنت کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ اگر وہ شخص لائقِ لعنت نہیں تو اس پر لعنت کرنا اپنی جان اور ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔ اگر وہ لائقِ لعنت و ملامت تھا اور آپ نے اس پر لعنت و ملامت نہیں کی، تو بھی آپ گنہ گار نہیں ہوں گے ۔ ان شاء اﷲ

رحمۃ للعالمینﷺکی رحمت
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم ﷺ گالی گلوچ کرنے والے ، بدگوئی کرنے والے اور لعنت کرنے والے نہیں تھے ۔ ہم میں سے کسی پر اگر کبھی ناراض ہوتے تو فرماتے : اس کی پیشانی خاک آلود ہو،اس کو کیا ہوگیا ہے ؟(بخاری)

مزاجِ نبوی ﷺ
خدائے وحدہ لا شریک لہٗ کے سوا پوری کائنات میں کون ہے جو رسول اﷲ ﷺ سے بزرگ و برتر ہو، لیکن آپ کی شان میں گستاخی پر بھی آپﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ یہودیوں کو لعنت ملامت کریں۔ پھر کسی اور کی شان میں گستاخی پر آپ کیسے اسے برداشت کر سکتے ہیں؟حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ یہود کی ایک جماعت حضرت نبی کریمﷺکے پاس آئی۔ ان لوگوں نے کہا: السَّامُ عَلَیْکُمْ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے اسے سمجھ لیااور کہا: وَعَلَیْکُمْ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ!تم ہی پر ہلاکت اور لعنت ہو! رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: عائشہ ان کو چھوڑو بھی، اﷲ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے ! میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! کیا آپ نے وہ نہیں سنا، جو ان لوگوں نے کہا؟ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: میں نے بھی تو وَعَلَیکُم کہہ دیا تھا (کہ تم ہی پر ہو)۔ (بخاری ، مسلم)

مومن کی صفات
اخلاقِ کریمانہ کا تقاضا یہی ہے کہ مومن لعنت و ملامت سے اپنے آپ کو بچائے رکھے ۔ حضرت عبداﷲ سے روایت ہے ،رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: طعنہ دینے والا،کسی پر لعنت بھیجنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور بدتمیزی کرنے والا مومن نہیں ہے ۔(ترمذی)

لعنت سے بچنے کی تاکید
رسول اﷲ ﷺ نے سخت تاکید فرمائی ہے کہ امت کے افراد لعنت و ملامت سے گریز کریں۔حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے پر اﷲ کی لعنت، غضب اور دوزخ کی پھٹکار نہ بھیجو!(ترمذی، ابوداؤد)

مومن پر لعنت کرنا
ایمان والے پر لعنت کرنا تو اور بھی قبیح امر ہے ۔حضرت ثابت بن ضحاک رضی اﷲ عنہ - جو اصحابِ شجرہ یعنی درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے تھے- نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسری ملت کی قسم کھائے وہ ویسا ہے جیسا اس نے کہا، اور جو چیز آدمی کے بس میں نہیں اس کے متعلق نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں، اور جس نے کسی چیز کے ساتھ دنیا میں خود کشی کی تو اس کے ذریعے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، اور جس نے مومن پر لعنت کی تو وہ اس کے قتل کرنے کی طرح ہے ، اور جس نے کسی مومن کو کفر سے متہم کیا، وہ اس کے قتل کی طرح ہے ۔(بخاری)

گنہ گار پر لعنت کرنا
احادیثِ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے گنہ گار- جس پر حد جاری ہو چکی ہو- پر بھی لعنت کی اجازت نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے ، رسول اﷲ ﷺکے زمانے میں ایک آدمی تھا، اس کا نام تو عبداﷲ تھا، لیکن اس کا لقب حمار یعنی گدھا پڑگیا تھا۔ وہ رسول اﷲ ﷺکو ہنسایا کرتا تھا۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس کو شراب نوشی پر سزا بھی دی تھی۔ اس جرم میں ایک مرتبہ جب اسے پیش کیا گیا، تو ایک شخص نے اس کو کہا: اے اﷲ اس پر لعنت فرما! یہ آدمی کس قدر اس جرم میں لایا جاتا ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس کو لعنت مت کرو۔ اﷲ کی قسم ! اس کو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت ہے ۔ (کنزالعمال)ظاہر ہے کہ اس کا عمل شریعت کے خلاف تھا، لیکن قلب کی کیفیت تو ہمیں معلوم نہیں ہو سکتی۔

لعنت کی نحوست
اس لیے بلا شرعی اجازت کسی پر لعنت کرنا سخت نحوست کا باعث ہے ۔ حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ہے کہ لعنت کرنے والے (قیامت میں) نہ گواہ ہو سکیں گے اور نہ سفارشی۔(ابوداؤد، مسلم)

لعنت لوٹ آتی ہے
لعنت معمولی چیز نہیں ہے ۔ ام درداء رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں، میں نے ابوالدرداء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کردیے جاتے ہیں۔ پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے ، اور جب کہیں کوئی گھسنے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے ، جب کہ وہ اس لعنت کا حق دار ہو۔ ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔(ابوداؤد)

غیر اہل پر لعنت کا وبال
انسان تو انسان خدا کی دیگر مخلوق کو بھی بلا شرعی وجہ کے لعنت کرنا جائز نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے ،ایک آدمی نے ہوا پر لعنت بھیجی-اور مسلم بن ابراہیم کی روایت میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ہوا کسی آدمی کی چادر اڑا کرلے گئی تو اس نے ہوا کو لعنت کی- حضور ﷺ نے فرمایا: ہوا کو لعنت مت کرو کیوں کہ وہ تو اپنے کام پر مامور ہے ۔بے شک اگر کسی نے کسی غیر اہل چیز پر لعنت کی، تو لعنت کرنے والے کی طرف لوٹتی ہے ۔ (ابوداؤد، ترمذی)

جانور وں پر لعنت کی ممانعت
رسول اﷲ ﷺ نے جانوروں تک پر لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ، رسول اﷲ ﷺ ایک سفر میں تھے۔ انصار کی ایک عورت اونٹنی پر سوار تھی۔ اچانک وہ اونٹنی بدکنے لگی تو اس عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت کی۔ رسول اﷲ ﷺ نے سن لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس اونٹنی پر جو سامان ہے اسے پکڑ لو اور اس اونٹنی کو چھوڑ دو، کیوں کہ اس پر لعنت کی گئی ہے ۔ حضرت عمران رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں؛ گویا میں اب بھی اسے دیکھ رہا ہوں کہ وہ اونٹنی لوگوں کے درمیان چل پھر رہی ہے اور کوئی آدمی اس سے تعرض نہیں کر رہا۔(مسلم)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن،انڈیا کے ڈیریکٹر ہیں)
٭٭٭٭
 

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347032 views (M.A., Journalist).. View More