این آر سی بل میں ترمیم کے حوالے سے مسلمانوں کو یکسر نظر
انداز کیے جانے پر کلکتہ میں دیے گئےامت شاہ کے بیان کے بعد سے مسلمانوں
میں کسی قدرخوف وہراس کا ماحول ہے۔ کئی سیاسی و ملی قائدین اور فلمی ستاروں
نے اس دکھ کا ظہار کیا ہے، اوریہی ہمارے ملک کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ جب
کبھی ہمارے بدخواہ سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اس طرح کے گندے بیانات جاری
کیے جاتے ہیں، تو جو لوگ معتدل فکر کے حامل ہیں، اور ملک و ملت کے بہی خواہ
ہیں، وہ ان کے خلاف اپنی شکایات درج کرانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ لیکن
کیا یہ وقت اس مرض کی دوا، یا اس کا تریاق کی جستجو کے سوا، صرف اس پر
افسوس جتانا ہی رہ گیا ہے؟ جب کہ بی جے پی اور اس کی جماعتوں کا مقصد ان کے
روزِ اول ہی سے بھارت کو مسلم مکت بنانا اوریہاں ہندو راشٹر کا قیام رہا
ہے، اور جب وہ حکومت میں ہیں، تو پھر وہ اپنے اُس ارداے کو عملی جامہ
پہنانے میں کیوں نہ جلدی کریں؟ رہی بات یہ کہ اس کا مسلم اور دیگر اقلیتی
برادریوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ نیز اُس وقت ملک کی معیشت اور معاشرت
کی کیا درگت ہوگی، تو وہ بھی معروف ہے، کیوں کہ یہ جب حکومت میں نہیں تھے،
تب بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کو تعلیمی، معاشی ومعاشرتی اور
سیاسی طور پرکمزور کرنے کی سازشیں رچتے چلے آئے ہیں. ظاہر ہے اب وہ حکومت
میں ہیں، اس لیے مزید مستحکم انداز میں کوششں کریں گے، اور آج اس کے اثرات
ِ بد ملک کی معیشت، و معاشرت دونوں پر یکساں طورپر صاف نظر آرہے ہیں۔ ان
ناگفتہ بہ حالات میں پہلے ایک بھارتی، پھر بحیثیتِ مسلمان ہمارا کیا رول
ہو، اور ہم کیسے اپنی قوم کو ان حالات سے باہر نکال سکیں؟ دراصل اس سمت
ہمیں اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہزاروں لوگ آج بھی رنگ و
نسل، ذات پات اور مذہب وفکر کی گروہ بندیوں سے پاک ہوکرملک وملت کی فلاح و
بہبود میں کوشاں ہیں اور بڑے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کے
ساتھ ساتھ ہم جن مسائل سے دوچار ہیں، وہ حکومت کی گندی پالیسیاں ہیں، جو نہ
صرف ان کو کسی ایک سمت میں کام کرنے دے رہی ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے ہم خود
اپنی سوچ و فکر کے گیسو ئے برہم کوسنوارنے میں ناکام رہے ہیں ٠
اس ملک میں ہماری بے بسی کا سب سے بڑا المیہ، ہمارا اپنی ذمہ داریوں کا
بوجھ دوسرے کے سر پر ڈال کر اس کی کمی و کوتاہیوں کو شمارکرانا، اس کی
کاوشوں کو نہ سراہنا، اور اس کی اجتماعی زندگی سے ہٹ کر اس کی ذاتی زندگی
کو نشانہ بنانا رہ گیا ہے، اور اس مہلک بیماری میں ہم سب یکساں طور پر
مبتلا ہیں۔ کیا بڑا اور کیا چھوٹا، یہاں تک کہ بسا اوقات ہمیں خود اپنے قول
عمل میں سیکڑوں تضاد نظر آتا ہے، لیکن ہم کبھی اپنے اُس عمل کا احتساب
نہیں کرتے، مگر جب و ہی حرکت کسی دوسرے سے سرزد ہو جاتی ہے، تو ہم اس کی
ذاتیات تک میں گھس کر اس کی ایسی کی تیسی کر جاتے ہیں۔ یہ ہر ایک کے سوچنے
کا اپنا اندازہوسکتا ہے، لیکن ایسا کرنے سے قبل کم از کم ہمیں اپنے اس عمل
کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ نیز آج کے اس ناخوش گوار حالات سے نبٹنے کے
لیے ہرروز نئے نئے مشورے بھی سننے کو ملتے ہیں، اور خاص کر سوشل میڈیا کے
اس طوفانی دور میں جب ہر کوئی اپنے آپ میں ایک مکتبہ فکر کا بانی اور
سرخیل ہے، تو پھر یہ بعید از امکان بھی نہیں۔ مشورے تو بہت آچکے، ان میں
بہیترے واقعی قابل عمل بھی ہیں، اور یقیناً وہ اپنے مشوروں میں بالکل مخلص
بھی ہوں گے، مگر سوال یہ ہے کہ’ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘،یعنی
میدان عمل میں آکر کون رول پلے کرے گا، تو سچ پوچھیے اُس وقت ہمارے سارے
مفکرین کی نظریں فکرِفردااور ذاتِ خویش کی حفاظت پر مرکوز ہوتی ہیں۔ ہماری
بھی خود یہی حالت ہے۔ اس لیے ان تمام باتوں سے پرے جو ہم سب کی انفرادی اور
اجتماعی ذمہ داریاں ہیں اس کے بارے میں اب ذرا محتاط انداز میں نہ صرف
سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اپنے اپنے ارادے اورافکار کے مطابق
گھر سے باہر نکل کر زمینی سطح پر کام کرنا ہماری بنیادی ضرورت بن گئ ہے۔
کام کی نوعیت کیا ہو؟ ہم کیسے اپنے افراد کی تربیت کریں، اور وہ کس قسم کی
تربیت ہو؟ وہ ہم سب اپنے اپنے علاقے کے حالات کے مطابق اور قانون کے دائرے
میں رہ کر ہر اس میدان میں پوری کوشش کریں، جس میں ہم کمزور ہیں۔ اس میں
اپنے گاؤں میں تعلیمی مراکز اور لائبریری کا قیام، فوجی تربیت گاہ، اور
دیگراس طرح کی روحانی اور جسمانی تربیت گاہوں کا قیام ہو، جہاں ہم اپنے
نونہالوں کو اچھی تربیت دے کر انھیں پولیس اور فوج میں بھرتی کے لیے راہ
ہموار کرا سکتے ہیں۔ الحمدللہ ہم نے شروعات کردی ہے،اور اب آپ کی باری ہے۔
جہاں تک کام شروع کرنے کی بات ہے، تو اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کی قطعی
ضرورت نہیں. ہر گاؤں اور ہر قصبہ میں اتنی خالی زمین اور جگہ تو ضرور ہوتی
ہے کہ وہ اس میں اس طرح کے فکری امور انجام دے سکیں، اور یہ جو ہمارا ذہن
بن گیا ہے کہ کسی کام کو شروع کرنے کے لیے پہلے اس کا اپنا منظم اور مستحکم
نظام ہو اور اس کے لائق دیدہ زیب عمارت ہو، تب ہی ہم کام شروع کریں گے، تو
یہ محض عذرِلنگ اور درحقیقت اس کا کوئی حل نہیں ہے، کیوں کہ اب جو ہمارے
کام کی نوعیت ہے، اس کے لیے نہ تو کسی عمارت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی
زمین کے ٹکڑے کی، بلکہ خدا کے بنائے ہوئے دل کی سرزمین پر ہمیں خلافت ِ
الٰہیہ کی وہ پُر شکوہ اور غیر متزلزل عمارت تعمیر کرنی ہے، جو خدا کے
پیغام کی طرح ابدی اور لازوال ہو۔
حکمراں جماعت، بلکہ تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتوں کو ہم دیکھ چکے ہیں. ان
کی پالیسیوں اور حکمت ِ عملی کو بارہا آزما چکے ہیں، اس لیے جو حکومت میں
ہیں، ان سے ہرگز نہ کبھی خوف کھائیں، اور نہ جو بظاہر اپوزیشن میں ہیں ان
کی حمایت کی امید ہو، کیوں کہ برسراقتدار جماعت مسلمانوں کا حقہ پانی بند
کردینے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہے، اور حزب مخالف کی بے بسیاں بھی ہم سب
پر بالکل عیاں ہیں۔ گویا یہ سمجھ لیں کہ ہم ہرطرف سے دشمن کے نرغے میں ہیں
اور ہم پر ایک جنگی محاصرہ مسلط کردیا گیا ہے۔ اب ہم اس محاصرے سے کیسے
نکلیں، اور اس کے لیے کیا تدابير اختیار کی جائے، اس کے بارے میں نہ صرف
غوروفکر کرنا ہے، بلکہ اس سے نکلنے کی ہر ممکن اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک قائدین اور ارباب ِحل وعقد کی بات ہے، تو صاف لفظوں میں یہ واضح
کردوں کہ ان کے افکار میں اب وہ تنوع نہیں رہا، اور نہ انہوں نے اس کی کوئی
گنجائش باقی رکھی ہے، بلکہ وہ کبھی اپنا قدم اس دائرے سے باہر نہیں رکھ
سکتے، یہ شاید ان کی مجبوری ہو، لیکن اگر ہم انہی کی طرح’’پدرمن سلطان
بود‘‘ والی روش پر چلتے رہے، تو اس سے نہ صرف شب تاریک ہمارے وجود کو گم کر
دے گی، بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہم انتہائی تاریک اورخاردار
راستہ چھوڑیں گے! اس لیے اب یہ ہماری متحدہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اکابر پر
کسی طعن و تشنیع کے بغیر اپنے مستقبل کی نئی شمع جلائیں، البتہ یہ فکر بھی
گمراہ کن ہوسکتی ہے کہ ہم ان کے کارناموں پر یکسر پانی پھیر دیں، کیوں کہ
ہر دور میں ان کی کاوشوں نے ایک دنیا کو فائدہ بہم پہنچایا ہے، اس لیے ان
کے تجربات سے ضرور فائدہ اٹھائیں، لیکن ان کی روش پر چلنے کی چنداں ضرورت
نہیں. ماضی میں ہم اس سے بھی بد سے بد تر حالات سے دو چار ہوئے ہیں اور
ہماری پوری تاریخ ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گھری ہوئی ہے، اس لیے ان سے
بالکل بھی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگنے
کی ضرورت ہے، کیوں کہ ہم وہ قوم ہیں، جو کبھی حالات کے سامنے سرنگو نہیں
ہوئی اور نہ کبھی ہم نے صبروہمت کا کا دامن اپنے ہاتھ سے جانے دیا۔ ہمارے
سامنے غزوۂ خندق کی مثال اب بھی تازہ ہے۔ ہمیں صدیق اکبر کاجذبۂ ایمانی
اور عمر فاروق کا عدل ہمیشہ زندہ ٔ و تابندہ رکھیں گے۔ ہم نے غزوۂ موتہ
میں حضرت خالد بن ولید کی جنگی فراست کو نہیں بھولا۔ ہمیں اسپین میں طارق
بن زیاد کا سبق اچھی طرح یاد ہے، اورہم یوسف بن تاشفین اور محمد بن قاسم کی
جواں مردی بھی نہیں بھولے، توپھر ہم خلافت عثمانیہ کے بانی غازی أرطغرل کی
کاوشوں، محمود غزنوی کی قربانیوں، اورعظیم مجاہد آزادی حیدرعلی کے جانشین
ٹیپو سلطان کی بہادری، قاسم نانوتی اور محمود الحسن دیوبندی کی زنگی فراست
کوکیسے فراموش کرسکتے ہیں؟
|