کراچی مفاہمتی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے؟

 23 روز میں 185 افراد قتل،قومی سلامتی کے اداروں کی پراسرار خاموشی

کراچی گزشتہ 23روز سے بدامنی، لاقانونیت اور قتل و غارت گری کی لپیٹ میں ہے۔ اس عرصے میں 185 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔ حکومتی رٹ کے ”موثر“ ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں درجن بھر لاشیں گرنا روز کا معمول بن گیا ہے مگر کسی کی جان و مال کی سلامتی کی ذمہ داری کی فکر کسی بھی سطح پر نظر نہیں آرہی۔ شہر بھر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ حکمران اتحادی جماعتوں کی جانب سے حسب روایت ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا بازار بھی گرم ہے۔ کراچی کے عوام ”مفاہمتی سیاست“ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ حکومت اپنی ”مفاہمتی پالیسی“ کے باعث قانون شکن عناصر کے سامنے بے بس ہے۔ اقتدار کی بقا اور مخصوص مفادات نے پیپلزپارٹی کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اسے سینکڑوں شہریوں کی جانوں کی بجائے اپنا جماعتی مفاد اور اقتدار زیادہ عزیز ہے۔ کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں بڑھتی بدامنی اور لاقانونیت کے راج کے باعث 200سے زائد صنعت کاروں اور تاجروں نے 6 ماہ کے دوران 70 ارب کا سرمایہ بنگلہ دیش منتقل کردیا ہے۔

کراچی کے شہریوں کے لیے ٹارگٹ کلنگ کوئی نئی بات نہیں، اس قسم کے واقعات یہاں کے باسیوں کا مقدر بن چکے ہیں۔ لیکن مسلسل 23 روز سے جاری آگ و خون کے کھیل کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اس بار حکومت منظر سے مکمل طور پر آﺅٹ ہے۔ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ سمیت اہم حکومتی ذمہ داران ایسے لاتعلق بنے ہوئے ہیں جیسے یہ سب کچھ ان کی عملداری کی بجائے کسی اور صوبے یا ملک میں ہورہا ہے۔ حکومت اور قومی سلامتی کے اد اروں نے اس حوالے سے پر اسرار طور پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

چند ماہ قبل شہر کے حساس ترین علاقے اورنگی ٹاﺅن میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کرفیو لگانے کا اعلان کر رہے تھے لیکن اس بار اسی علاقے میں درجنوں لاشیں گرنے کے باوجود عبدالرحمن ملک نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔

سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا خود کہہ چکے ہیں اگر مفاہمت کی پالیسی آڑے نہ آئے تو وہ بدمعاشوں کو چوراہے پر لٹکا دیں۔ موصوف ایک سے زائد مرتبہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ شہر میں جاری قتل و غارت گری کے ذمہ دار عناصر سے بخوبی واقف ہیں لیکن بعض مصلحتوں اور مجبوریوں کی بنا پر وہ کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پولیس، سیاسی و مذہبی رہنما، صحافی اور سول سوسائٹی بھی خوف کا شکار ہے، وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی منہ پر تالے ڈالے ہوئے ہیں۔ خوف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی جی سندھ کا ایک پریس کانفرنس کے دوران مقامی صحافی ولی خان بابر کے قتل کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں قاتلوں کا پتا چل گیا ہے لیکن اس کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔

متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی، سنی تحریک، پیپلز امن کمیٹی سمیت شہر میں سر گرم تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کرتی اور ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہیں۔ حکومت کا بھی کہنا ہے کہ وارداتوں میں تیسرا ہاتھ ملوث ہے۔ آخر یہ تیسرا ہاتھ حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے بھی طاقتور کیسے ہوگیا؟ جس کے خلاف زبان کھولنا بھی خودکشی کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل بھی ذوالفقار مرزا کئی ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کا دعویٰ کرچکے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا۔ بعض حلقے وزیر داخلہ کے ایسے بیانات کو سیاسی داﺅ پیچ قرار دیتے ہیں۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پر حکومتی اور سیاسی جماعتوں کے رویے کے خلاف عوام میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ آئے روز کی قتل و غارتگری سے تنگ عوام نے بعض علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔ مظاہرین نے کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے واقعات کو کراچی کے وسائل پر قبضے کی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں نہ صرف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں ملوث ہیں بلکہ دیگر بالادست طبقات بھی ان عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ عوامی حلقوں نے کراچی کے واقعات کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے غیر سنجیدہ رویے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی میں قتل و غارت گری کے واقعات کے بعد سندھ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں قیام امن کے لیے مل بیٹھتی ہیں، مذاکرات کے سیشنز میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے عہدو پیماں کیے جاتے ہیں، پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں ، چند روز کے لیے بدامنی کی شدت میں کمی آجاتی ہے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف اندھا دھند لفظی بمباری اور گولا باری کرتے نظر آتے ہیں جس کے بعد کراچی میں بدامنی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔

اگر حکومت نے سانحہ 12مئی، سانحہ 9 اپریل، سانحہ بولٹن مارکیٹ اور کراچی میں گزشتہ 3 برسوں سے جاری دہشت گردی کے مکروہ کھیل میں ملوث ذمہ داروں کو گرفتار کیا ہوتا تو یقین جانیے آج ہمیں اس قسم کی دگرگوں صورتحال کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ ہر بڑے واقعے کے بعد حکمران صرف بلند بانگ دعوے اور رسمی مذمتی بیانات ہی جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس سے ان معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اگر ہماری تمام سیاسی جماعتیں شہر قائد کو اسلحے سے پاک کرنے پر متفق ہوجائیں اور وہ خلوص دل سے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات بھی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بگڑتے ہوئے حالات پر قابو نہ پاسکیں۔ اگر حکمران اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کرسکتے، امن و امان کا قیام یقینی نہیں بناسکتے اور وہ شہریوں کے ان بنیادی حقوق کو بھی تسلیم نہیں کرتے تو بتایا جائے جمہوری دور حکومت کے ہوتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر شہریوں کی اموت کا ذمہ دار کون ہے؟ اور ان واقعات پر چپ کا روزہ رکھنے اور ”مفاہمتی سیاست“ جاری رکھنے کے ساتھ کیا ہم کبھی ان کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟؟
 
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86316 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.