وزیراعظم کا دورہ امریکہ

 وزیراعظم عمران خان کے امریکہ جانے سے پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں جاتے ہی کوئی جادو کی چھڑی ان کے ہاتھ لگ جائے گی اور جب وزیر اعظم چھڑی گھمائیں گے تو بھارت کشمیر سے کرفیو اٹھا لے گا اور دفعہ370 بھی واپس لے لیگا ۔ کیا ہوا پوری دنیا کے سامنے سبکی ہمارے حصہ میں آئی۔ نریندر مودی اور ٹرمپ کے مشترکہ جلسے نے تو حکومت کی صلح جوئی اور مصالحت پسندی کی دھجیاں ہی اڑا کر رکھ دیں ۔ فلاں ملک کے سربراہ ، فلاں ملک کے صدر و وزیراعظم سے ملاقاتوں کو بڑی سفارتی کامیابی قرار دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟۔ وزیراعظم عمران خان کا خطاب واقعی قا بل ستائش ہے 50 منٹ میں دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھا تے ہوئے کشمیریوں پرہو رہے ظلم وتشدد کی صحیح عکاسی کی ۔ مگر دنیا احساسات و جذبات کو نہیں معاشی مفاد مدنظر رکھتی ہے۔ اسرائیل ، امریکہ ، فرانس سمیت یورپی ملکوں اور عرب ریاستوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے معاشی و عسکری تعلقات کی وجہ سے اب اقوام عالم میں ہندوستان کا کردار طے کیا جا رہا ہے ۔ ٹرمپ کی بھارت نواز پالیسی نے یہ ہمیں بتا دیا ہے کہ ہماری نیحف آواز پر توجہ نہیں دی جائے گی اور دیکھ لے کیا وزیر اعظم کی تقریر کے بعد کشمیر سے کرفیو اٹھا لیا گیا، فوج واپس بلا لی گئی، بلکہ کسی بڑے خطرے کی آمد کاپیش خیمہ ثابت ہورہی ہے ۔ ہماری یہ روایت بن چکی ہے کوئی بھی حکمران ہواس کے قصیدے پڑھناشروع کر دیتے ہیں اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔وزیراعظم صاحب نے اپنے خطاب میں دنیا کو کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی کہ اب اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا تو کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔وزیر اعظم سے سوال ہے کہ اب اجلاس کے بعد کیا عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے اور کس نہج پر جا فیصلہ لیا جائے گا؟۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ و زیراعظم نے دنیا کے ضمیر کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ بھی بخوبی جانتے ہیں یہ بے ضمیروں کی دنیا ہے بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ہم کب تک کشکول پھیلائیں گے کب تک معذرت خواہانہ رویہ اپنائیں رکھیں گے۔ کشمیریوں کے قتل عام پر سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے ابھی تک بھارت پر تجارتی و معاشی دروازے بند نہیں کئے اور نہ ہی کسی قسم کی فضائی حدود پر پابندی عائد کی۔ مسئلہ کشمیر کو اس کے ساتھ نتھی نہیں کیا۔ عسکری محاذ کے حوالے سے ابھی تک ہماری پالیسی مبہم ہے َآخر اس مصالحانہ رویے سے اقوام عالم پر کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ خراب و کمزور معیشت کا رونا رو کر جہاد سے روگردانی کر رہے ہیں۔ دشمن کو کھلی چھٹی دیدی ہے کہ جس طرح ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھے ۔ ایک خوف کی پالیسی مسلط کر رکھی ہے۔ اب یو این او کی طرف یا دنیا کی طرف دیکھنے کا وقت نہیں ہے یہ وقت ہے کہ دو ٹوک فیصلہ کر لیا جائے کہ کشمیر ہمارے لئے کتنا اہم ہے کیا اس کے لئے ہم ہر حد تک جانے کو تیار ہیں؟جبکہ امریکہ میں وزیراعظم کی مصروفیات، دلچسپیاں اور غیر سنجیدہ بیانات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وزیراعظم صاحب کشمیر کا مقدمہ لڑنے نہیں پاکستان پر مقدمہ کروانے گئے تھے۔ القاعدہ کو تربیت دینے کی بات۔ دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش۔ ؟؟پہلی ملاقات زلمے خلیل زاد سے کیوں ہوئی ؟ ۔ ضرورت اس وقت کی ہے کہ علمائے کرام سے جہاد کے متعلق اجتہاد کروایا جائے ؟ کیا ان سنگین حالات میں جہاد لازم نہیں ہو جاتا۔ کشمیری بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں۔ کرفیو، ڈیڈ لاک سے ایک کروڑ سے زائد افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ خوراک کی شدید قلت ہے جان بچانے والی ادویات ناپید ہو چکی ہیں، لوگ گھروں میں قید ہیں، کیا ہمارا مقصد صرف کرفیو ہٹانا ہے، کیا اگر کرفیو میں نرمی ہو گئی تو لوگ خوش ہونگے۔ جب تک مسئلہ کی نہج پر نہیں پہنچ سکتا کامیابی تصور نہیں کی جائے گی۔ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ان حالات میں جنگ کرنا پڑے گی تو تیار رہے گی۔ افسوس جب ہمارے وزیراعظم صاحب یہ فرما رہے ہوں کہ کیا ہم ہندوستان پر حملہ کردوں تو اس سے ہمارے دشمن کو کیا پیغام گیا ہوگا۔ اب وقت ہے کہ تمام علمائے کرام ،سیاستدانوں سمیت تمام ریاستی مشینری کو ایک پیج پر اکٹھا کیا جائے اور کشمیر ایشو پر باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں ملوث ہونے پر عالمی عدالت میں گھسیٹا جائے ۔ٹویٹروں ، فیس بک اور سوشل میڈیا پر جنگیں نہیں جیتیں جاتیں ۔ اس کیلئے بڑے فیصلے کرنا پڑتے ہیں -
 

Muhammad Abdullah Gull
About the Author: Muhammad Abdullah Gull Read More Articles by Muhammad Abdullah Gull: 141 Articles with 113045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.