استاددامن کی ایک معرکہۃ الآرا نظم ہے
انھا مارے انھی نوں گھسن وجے تمھی نوں
جنی تیتو انھی پیندی اوہنی انھی پائی جا
وچوں وچوں کھائی جا اوتوں رولا پائی جا
یہ نظم مجھے تب یاد آئی جب ایسی جیسی کرپشن کی کئی کہانیاں یکے بعددیگرے
یادآتی چلی گئیں کہ اس ملک کو کس کس ٹیکنیکل اندازمیں لوٹا گیاہے سمجھ نہیں
آرہی کہ گوڈے گوڈے کرپٹ عناصر کی بے مثال کاریگری پر عش عش کروں یاپھر
روؤں دل کو کہ پیٹوں جگرکو میں
ایک خبرنے توہلاکررکھ دیا کیا نصیب ہے مجبور،مایوس اور بے بس لوگوں کے
پاکستان کا جس میں پیپلز پارٹی دور کا کرنسی نوٹوں کا بڑا سکینڈل سامنے
آگیا جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈتوڑکررکھ دئیے ہیں آپ بھی پڑھئے 43کھرب
75کروڑ کے 500روپے والے پرانے نوٹوں کا ریکارڈ غائب ہے، کھربوں روپے کے
سکینڈل کا آڈٹ کرنے والے حکام سرپکڑ کر بیٹھ گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق
2010میں پالیسی بنائی گئی تھی کہ 2010سے 2012کے درمیان 500روپے کے بڑے
پرانے نوٹ واپس لئے جائیں گے اور ان کی جگہ چھوٹے سائز کے نئے نوٹ جاری کئے
جائیں گے۔ 1985سے 2012تک 500روپے کے بڑے نوٹ ایک ارب 30کروڑ کی تعداد میں
چھاپے گئے تھے اور جب ان کو واپس لے کر ضائع کردیا جاتا تھا لیکن2010سے
2012کے درمیان ان نوٹوں کو واپس لیا گیا اور ان کا ریکارڈ تورکھا گیا مگر
کرنسی نوٹ تلف نہیں کئے گئے توآڈٹ حکام کو اس حوالہ سے شکایت ملی اور جب
شکایت پرآڈٹ کا آغاز کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے جب ریکارڈ مانگا تو
43کروڑ نوٹوں کا ریکارڈ فراہم کیا گیا جبکہ ان کی کل تعداد ایک ارب 30کروڑ
تھی اور اس بات کا انکشاف ہوا کہ 87کروڑ نوٹوں کا ریکارڈ ہی موجود نہیں اور
اس پرآڈٹ حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کھربوں روپے مالیت کے جو نوٹ ہیں
کہیں وہ جعلی کرنسی کے تبادلہ میں استعمال نہ ہو گئے ہوں۔ آڈیٹر جنرل آف
پاکستان کے آفس نے کھربوں روپے کے اسکینڈل کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی
سفارش کی ہے اور یہ نوٹ 43کھرب 75کروڑ روپے نوٹ بنتے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ
ہی نہیں ، ان کو ضائع کیا گیا یا یہ کدھر گئے ہیں، اس حوالہ سے اسٹیٹ بینک
آف پاکستان نے میڈیا کو کچھ بھی بتانے سے معذوری ظاہر کر دی ہے اور کہا گیا
ہے کہ ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔ اب ایک اور خبرملاحظہ کرلیں کہ اس عوام
کے ساتھ کیا کیا سلوک ہورہاہے ملک کی 10بڑی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے
صارفین کو پھرہاتھ دکھا دیا ایک سال کے دوران 157 ارب روپے کے لائن لاسز کا
بوجھ صارفین پر ڈال دیا۔ آڈٹ رپورٹ برائے2017-18 ء کے مطابق ایک سال کے
دوران ملک کی 10 بڑی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی 28 ارب یونٹس بجلی لائن
لاسز کی نذر ہوگئی، جس کی مجموعی مالیت 157 ارب روپے سے زائد تھی اور لائن
لاسز کی مد میں خسارے کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑا۔رپورٹ کے مطابق
لائن لاسز میں حیسکو(حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی)سر فہرست رہی جس کا اس
مد میں خسارہ 49ارب 51 کروڑ روپے رہا، سیپکو 37 ارب 73 کروڑ سے زائد کے
لائن لاسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی، پیسکو کی جانب سے 29ارب روپے سے زائد
کے لائن لاسز رہے، کیسکو کے 19ارب 22 کروڑ، لیسکو کی جانب سے 7 ارب 62 کروڑ
روپے ، میپکو کی جانب سے 7 ارب19کروڑ روپے جب کہ آئیسکو دس لاکھ 70ہزار
روپے پر کم لائن لاسز والی کمپنی نکلی۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے لائن
لاسز کی وجہ فیڈرز کے درمیان طویل فاصلہ، ناقص سب اسٹیشنز،غیر قانونی
کنکشنز،غیر حقیقی اہداف اور فیڈرز کی غلط کوڈنگ کو قرار دیا ہے۔ اس حوالے
سے ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی(ڈی اے سی)نے ذمہ داروں کے تعین اور معاملے کی
تحقیقات کی ہدایت کی ہے جبکہ آڈٹ حکام نے ڈی اے سی کی سفارشات پر عملدرآمد
کرنے کی سفارش کی ہے۔ ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ٹیکیکل
فراڈکا یہ سلسلہ جاری رہتاہے۔ اب ایک خبر میڈ ان پاکستان سیاستدانوں بارے
بھی سن ہی لیں جس میں کہاگیاہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے کراچی لاہور،
سکھر ملتان اور حویلیاں تھاکوٹ موٹروے کی تعمیر میں 19 ارب روپے کے گھپلوں
کا انکشاف کردیا کراچی لاہور موٹروے کے لاہور عبدالحکیم سیکشن، سکھر ملتان
موٹروے اور حویلیاں تھاکوٹ موٹروے کی تعمیر میں زائد ادائیگیاں کی گئی ہیں۔
آڈٹ دستاویز کے مطابق لاہور موٹروے کے عبدالحکیم سیکشن میں 7 ارب 31 کروڑ
سے زائد اضافی ادائیگیاں کی گئیں۔ سکھر ملتان سیکشن میں 4 ارب 95 کروڑ سے
زائد اور تھا کوٹ حویلیاں سیکشن میں 6 ارب 70کروڑ سے زائد کی اضافی
ادائیگیاں کی گئیں۔ لمبا مال ہتھیانے کے لئے خاص بات ہوئی کہ تعمیراتی کام
کے سکوپ میں کمی کی گئی لیکن منصوبوں کی لاگت میں کمی نہ لائی گئی،
کنٹریکٹر کی جانب سے پراجیکٹ کے سکوپ میں کمی پر رقم بچانے کے باوجود این
ایچ اے کو واپس نہیں کی گئی، یہ اضافی رقم ریکور کی جائے گی۔ رپورٹ کے
مطابق ستمبر 2018میں این ایچ اے کو اضافی ادائیگیوں کے سلسلے میں آگاہ کیا
گیا۔ دوسری جانب ترجمان این ایچ اے مشتاق احمد نے کہا کہ کسی منصوبے میں
زائد ادائیگی ہوئی ہے توریکور کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی، یہ
منصوبے ای پی سی موڈ کے تھے جس میں مکمل ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس سے پہلے
نوازشریف فیملی، احد چیمہ، خواجہ برادران،ڈاکٹرعاصم حسین، اومنی گروپ، آصف
زرداری ، شہبازشریف خاندان، اسحاق ڈار، راجہ پرویز اشرف،آغا سراج درانی کی
کرپشن کو پوری قوم رورہی تھی اب لیاقت قائم خوانی سمیت ایک لمبی چوڑی فہرست
ہے جنہوں نے سیاسی اثروسوخ سے اتنا کمالیا کہ سات پشتوں کو کوئی کام کرنے
کی فظعی ضرورت نہیں اس کا مطلب ہے کرپشن کاہرتربوز سوہا لال ہے اور ان کے
لئے جمہوریت کروڑوں میں کھیل کا کھیل ہے سچی بات تو یہ ہے کہ بھوک سے
بلکتی،مہنگائی کی ماری،بیروزگاری کی ستائی عوام کدھرجائے جن کو بیشتر
سیاستدان راہبرکے لبادے میں راہزن ہی ملے ہیں جو ہرکسی کو اپنا نجات دہندہ
جان کران کے خق میں نعرے لگاتی پھرتی ہے- |