جو جنگ دنیا کے نصف حصے بالخصوص امت مسلمہ کی قتل و غارت،
تباہی و بربادی کا سب سے بھیانک دور ارضی تمثیل کررہی ہے اس کے میدانوں سے
بظاہر باہر درحقیقت اندرون خانہ طاقتوں اور قوتوں کے تصادم و کشاکش کا
معرکہ بپا کیے ہوے ہے یہ حقیقت و تصنع یا فریب کا ابتک کی دستیاب تاریخ کا
سب سے بڑا مقابلہ ہے جو حق کی جگہ باطل کو دینے کی سب سے بڑی جنگ واقع ہوئی
ہے، اگرچہ مختلف جنگیں مختلف جنگی ہتھیاروں کی ہیبت اور نتائج و اطراف کی
دہشت میں دنیا کے عظیم حادثات رہی ہیں تو یہ جنگ انسانی دماغوں سے کھیلنے،
وسوسوں و فتنوں میں ڈالنے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ دکھانے، مظلوم کو
ظالم اور ظالم کو مظلوم ثابت کرنے، نئی نئی نمائشوں و پروپیگنڈوں کا تاریخ
عالم میں سب سے بڑا واقعہ ہوگی، طاغوتی طاقتوں کے اس کھیل سے جہاں پوری
دنیا قطع نظر ذات، رنگ، نسل، مذہب کے اس سے متاثر ہوئی ہے تو وہیں پاکستان
گذشتہ دو دہائیوں سے بالعموم ایک دہائی سے بالخصوص ظاہری طور پر اس کی زد
پہ ہے جس سے پاک فوج، حکومت و عوام شد و مد کے ساتھ لڑ رہے ہیں، یہ ایک
ایسی جنگ ہے جس میں بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی آلہ کار عملی طور پہ
سامنے ہوتے ہیں جبکہ پس پردہ کوئی اور طاقتیں ہوتی ہیں، ستمبر کے آخری عشرے
میں مودی و عمران خان دورہ امریکہ پر پہنچے، جس دن مودی کی ہیوسٹن آمد تھی
اس دن وہاں ہزاروں کشمیری و دیگر متاثرین مظالم بھارت نے وہاں احتجاجی
مظاہرے کیے اور یہ حقیقت ہے کہ ہائیر دو چار افراد کو تو کیا جاسکتا ہے مگر
ہزاروں افراد کو نہیں، دنیا نے دیکھا کہ درجنوں ہزار افراد دور دراز سے
ہیوسٹن پہنچے صرف ظلم کیخلاف اپنا فیصلہ سنانے، بھارتی بریگیڈ نے بھی اس کا
ردعمل دینے کی کوشش کی اور عمران خان جب اقوام متحدہ میں خطاب کررہے تھے تو
دو درجن بھر زبردستی کے مظلوم مہاجر، بلوچ و پختون وہاں سج دھج کے تھری پیس
کوٹ ٹائی و دیگر اعلیٰ لباس میں جمع ہوے پاکستان مخالف نعرے لگائے زبردستی
کے مظلوم بننے کی کوشش کی مگر کسی نے کان نہ دھرے، عمران خان نے خطاب میں
بھارت، RSS, ہندوتوا کے ناجائز عزائم و مظالم کو بے نقاب کرکے رکھدیا، صرف
اتنا ہی نہیں بلکہ کرپشن و منی لانڈرنگ کے سرپرستوں تک کو نہ چھوڑا، اسلام
و امت مسلمہ کا مقدمہ ڈنکے کی چوٹ پہ پیش کیا الغرض دنیا ہل کے رہ گئی ایسے
میں بھارت و دیگر دشمن قوتیں سروں میں مٹی ڈال کر مایوس ہوکر رہ گئیں ان کی
شکلیں ڈوبی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں، بھارتی بریگیڈ کو کچھ اور نہ ملا تو
زبردستی کے چار مظلوم مہاجر جمع کیے جو دنیا کے سب سے مہنگے لباس میں ملبوس
سج دھج کر سامنے آئے ان کے ہاتھوں کی نرمی اور چہروں کی لالی بتارہی ہے کہ
وہ کس قدر مظلوم ہیں اور پاکستان مخالف زہر اگلنا شروع کردیا جنہیں ہندوتوا
میڈیا کوریج دینے بروقت موجود تھا مگر حاصل زیرو ہی نکلا کیونکہ دنیا ان کی
اصلیت سے بخوبی واقف ہے، ان کا تعلق MQM سے تھا، MQM ہے کیا؟ اس کو سمجھنے
کے لیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا، ہر ذیشعور واقف ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان
میں دشمن نے لسانیت و قوم پرستی کا ہتھیار استعمال کیا تھا، سانحہ مشرقی
پاکستان کے فوراً بعد اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ بہت جلد ایک اور خوشخبری
دینگے، اسی کے ساتھ سندھ میں مہاجر مخالف قوتیں ابھر کر سامنے آئیں مہاجروں
کے ساتھ ہر سطح پر بلا جواز ناانصافیاں و نفرتیں شروع ہوگئیں ایسے میں ایک
جماعت MQM مہاجر حقوق کی علمبردار بن کر سامنے آئی اور یوں سندھ میں دو
متضاد قوتیں پیدا ہوگئیں نتیجتاً پرتشدد کاروائیاں و فسادات رونما ہوے بڑے
پیمانے پہ جانی و مالی نقصانات ہوے، جیساکہ سب جانتے ہیں کہ کراچی پاکستان
کا معاشی حب ہے اس کھیل کا اصل مرکز کراچی بنا یوں پاکستان کی ترقی کا تیزی
سے چلتا پہیہ رک گیا اور ترقی کا عمل جمود کا شکار ہوگیا، جیتا کوئی نہیں
نقصان سندھی مہاجر دونوں کا مشترکہ ہوا اور پاکستان ترقی کرتا تنزلی کی طرف
چل پڑا، MQM پر پرتشدد و دیگر مشکوک و مجرمانہ سرگرمیوں کے الزام کے تحت
آپریشن شروع ہوگیا جس پر MQM کو آج تک اعتراض ہے کہ غلط ہوا، بالکل غلط ہی
ہوا ہوگا مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ قائد MQM آپریشن سے چھ ماہ پہلے ہی
پاکستان چھوڑ کر چلے گئے مگر کیوں؟ کیا وہ پہلے سے واقف تھے کہ آپریشن
ہوگا؟ اور اگر وہ واقف تھے تو کارکنان کو محفوظ بنانے کی کوشش کیوں نہ کی
گئی؟ بظاہر قائد MQM اچانک لندن گئے تھے تو پھر ایسے میں پہلے سے ہی ہر قسم
کی سیٹلمنٹ کا بندوبست کرنے والے کون تھے؟ آفاق احمد اور اس کی ٹیم اس وقت
MQM سے علیحدہ ہوئی تھی تو ان کا جواز یہی تھا جس پہ MQM کے ندیم نصرت جیسے
لوگ آج کھلم کھلا ملک مخالف سرگرمیوں میں نظر آتے ہیں، آگے چل کر ایک اور
آپریشن MQM کے خلاف ہوا جسے پیپلزپارٹی نے لانچ کیا جس کے نتیجے میں بہت سے
بیگناہ افراد صرف اردو اسپیکنگ ہونے کے جرم میں قتل کیے گئے، اوورسیز میں
مقیم MQM کے رہنماوں و کارکنان کو آج ان سب مقتولوں کا بڑا احساس اور
ہمدردی ہے مگر جب مشرف دور میں MQM حکومت میں آئی تو ان مقتولوں کے ورثاء
کو کیوں بھلادیا گیا؟ اگر آج MQM لندن کو فوج غلط نظر آتی ہے تو مشرف کے
ساتھ اقتدار کا حصہ بنتے وقت اس نے سارے شکوے شکایات کن شرائط پہ طے کیے
تھے؟ اس وقت ایک خبر گردش کرتی نظر آئی جسے دبا دیا گیا تھا وہ یہ کہ MQM
نے مقتولوں و متاثرین کے نام پہ مشرف حکومت سے Reparation یا دیت کے نام پہ
بھاری رقوم حاصل کیں تھیں، اس کے علاوہ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ 1996 میں
شامل پولیس افسران کیوں قتل ہوے بہتر تھا انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکر
حقیقت کو عوام کے سامنے لایا جاتا کہ اس آپریشن کی کیا حقیقت تھی مگر ایسا
نہ ہوا حالانکہ MQM اس وقت حکومت کا کلیدی حصہ تھی، اس کے علاوہ MQM کی
مشکوکیت اس بات سے بھی پیدا ہوتی ہے کہ متحدہ بن کر MQM نے اتحاد جوڑا بھی
تو جئے سندھ کیساتھ جسکا منشور ہی علیحدگی پسند ہونے پہ مبنی ہے جبکہ اس
وقت دیگر سندھ کی جماعتیں اپنی جگہ موجود تھیں، مشرف دور گزر گیا، پیپلز
پارٹی برسر اقتدار آئی تو متحدہ ان کیساتھ بغل گیر نظر آئی جبکہ یہی وہ
جماعت تھی جنکی مرضی سے 1996 کا آپریشن ہوا جسمیں زیادہ تر متحدہ کارکنان
قتل ہوے، آخر اس وقت متحدہ نے اپنے مقتولوں کا خون کیوں فراموش کردیا اور
پھر مشرف دور سے لیکر پیپلزپارٹی دور تک متحدہ کی جانب سے مہاجر مفادات میں
کوئی ایک بھی سنجیدہ قدم نظر کیوں نہیں آیا، لے دے کر صرف مصطفیٰ کمال کی
کوششوں سے ہونے والی شہری ڈویلپمنٹ کے سوا متحدہ کے پاس پیش کرنے کے لیے
کچھ نہیں، جو الزامات ذوالفقار مرزا نے قرآن سر پہ رکھ کر لگائے وہی
الزامات آگے چل کر مصطفیٰ کمال و دیگر متحدہ رہنماوں کی زبانی سنے گئے،
رینجرز و حکومت وقت نے کراچی میں آپریشن کرتے ہوے جواز کے طور پر بدامنی کے
ساتھ ساتھ مبہم انداز میں ایسا ہی کچھ موقف دیا جسے وقتی طور پر محض
الزامات ہی کہا جاتا رہا مگر متحدہ لندن کی 22 اگست 2016 کے بعد کی
سرگرمیوں نے ان تمام الزامات بشمول 1992 آپریشن اور آفاق احمد کے موقف کی
تصدیق خود کردی ہے، متحدہ لندن علیحدگی پسند BLA کی اتحادی بن کر کھل کر
سامنے آئی، ہر سطح پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا حصہ بنتی نظر آرہی ہے، جب
ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسا کیوں کرتے ہو تو جواب دیا جاتا ہے کہ ہم پر
پابندی لگائی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جون 2017 میں اس وقت کے وزیر داخلہ
چودھری نثار نے بذات خود پریس کانفرنس کرکے متحدہ قیادت کو آفر کی کہ ''وہ
اعلان کریں کہ وہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں تو وہ سیاست کرسکتے
ہیں'' لیکن جواباً خیرمقدم کرنے کی بجائے کنوینر ندیم نصرت نے چودھری نثار
کو ماں بہن کی گالیوں سے جواب دیا، جس کا مطلب صاف تھا کہ وہ کسی طور بھی
سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتے کیونکہ ایسی صورت میں وہ پاکستان مخالف
پروپیگنڈے و سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوسکتے تھے، یہ وہ باتیں ہیں جو ہر
اردو اسپیکنگ کے زہن میں کچوکے مارتی ہیں جن کے جوابات کوئی بھی اپنی زبان
سے دینا نہیں چاہتا، اس کے علاوہ اگر MQM کے اسٹریکچر یعنی تنظیم سازی کا
جائزہ لیا جائے تو انتہائی حیران کن بات سامنے آتی ہے کہ RSS اور MQM کا
تنظیمی ڈھانچہ ایک ہی طرح کا ہے، یونٹ کی سطح سے لیکر رابطہ کمیٹی تک،
لیبرڈویژن سے لیکر اوورسیز چیپٹر تک ایک ایک شاخ RSS سے مشابہت رکھتی ہے،
بھارتی دانشور A.G Noorani اپنی کتاب RSS: A Menace To India میں RSS کے
تنظیمی اسٹرکچر کو تفصیل سے لکھ چکے ہیں، راشٹریہ سویم سیوک س?نگھ کا وجود
1925 میں ہوا جبکہ MQM کی بنیاد 1984 میں رکھی گئی، RSS بوائے اسکاوٹ طلبہ
کے گروہ سے بنی جو 1927 میں اعلانیہ سامنے آئی جبکہ MQM بھی طلبہ ونگ سے
شروع ہوئی اور MQM بنی، اس کے علاوہ حلف سے لیکر نظم و ضبط اور تربیتی
نشستیں بالکل وہی طریقہ ہے جو RSS کا شروع سے آج تک چلا آرہا ہے، RSS میں
بھی One Way Entry ہے جبکہ MQM میں بھی One Way Entry ہے جو بھی قیادت یا
تحریک سے اختلاف کرتا ہے تو غدار قرار پاتا ہے وہاں بھی غدار کی سزا موت ہے
یہاں بھی ایسے ہی نعرے پائے جاتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں یہ سب
ہندوتوا کے نام پر ہے اور یہاں مہاجر نام پر، MQM کی طاقت کا محور و مرکز
ساوتھ افریقہ یونٹ ہی رہا ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ساوتھ افریقہ
اسرائیل و بھارت و RSS کا گڑھ ہے اور تعجب اس بات پر ہے کہ MQM نے دنیا کے
192 ممالک میں سے اسی ملک کو اپنی قوت و طاقت کو جمع کرنے کے لیے منتخب
کیا، ایسے اتفاقات صرف اسی صورت میں ہوتے ہیں جب کسی سے متاثر ہوکر یا وہ
جسم خود ذیلی جسم کو جنم دے، یہ باتیں کسی کے نزدیک قابل قبول ہوں یا تلخ
مگر اپنی جگہ حقیقت بھی ہیں، ایک عرصے سے کراچی مختلف مسائل کا شکار ہے جس
کی ایک بڑی وجہ لیڈرشپ کا فقدان بھی ہے اگر تمام مقامی لیڈران پہ گہری نگاہ
ڈالی جائے تو آفاق احمد ایک ایسی شخصیت ہیں جو ان خوبیوں کا مالک ہے کہ وہ
تنظیم بھی چلانا جانتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،
برسوں سے جاری مخالف پروپیگنڈے کے باعث گرچہ انہیں عوامی حلقوں میں وہ جگہ
نہیں مل پائی جوکہ ان کا حق ہے مگر اب آکر وقت نے آفاق احمد کے موقف کو سچ
ثابت کردیا ہے اور مخالف پروپیگنڈے کی نفی بھی کردی ہے، عوام نے یہ بھی
دیکھ لیا کہ جیل میں جاکر بھی ان کے حوصلے پست نہ ہوے، باہر جانے کی آفرز
بھی ہوئیں، موقف سے ہٹنے کی آفرز بھی ہوئیں مگر نہ پیسے کی گرمی انہیں
پگھلا سکی تو نہ جیل کی صعوبتیں، وقت گزر گیا اور وہ ایک بار پھر عوام میں
آگئے، آفاق احمد قومی سوچ کے مالک ہیں لہٰذا ان کو اپنے موقف سے زیادہ اپنی
سوچ کے مطابق چلنا چاہئے اور مہاجر سیاست کی بجائے قومی سیاست کی طرف آنا
چاہئے، مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار اگر عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں تو انہیں
آفاق احمد جیسی لیڈرشپ کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوے اس ضمن میں سنجیدہ اور
فوری فیصلہ کرنا چاہئے اگر یہ تینوں گروہ ایک ہوے تو وہ وقت دور نہیں جب
کراچی سے خیبر تک آفاق احمد جیسے محبان وطن نظر آئیں گے۔
|