ستائیس ستمبر اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عمران
خان نے انتہائی دھیمے مگر مضبوط لہجے میں جن چار نکات پر بات کی وہ عکاس ہے
ان کے اچھے اور حساس حکمران ہونے کا۔زندگی کے ہر سانس کو جی کر، اسے اپنے
دل و دماغ میں اتار کر اور زندہ دلی سے تمام معالات پر فیصلہ کن قدم اٹھانے
والا ہی ایک مضبوط اور اچھا حکمران ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی
موجودہ حکومت اقتدار کی قدروں سے نابلد ہے لیکن کم از کم اپنی ذات سے نکل
کر ملکی مفادات کیلئے جذبات رکھتی ہے۔مخالفین کا پراپیگنڈا اور بیوروکریسی
کی ہٹ دھرمی بھی ان کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے جس کا حل آئندہ
بلدیاتی انتخابات میں نکال دیا گیا ہے لیکن پراپیگنڈوں کا شاید کوئی حل
نہیں کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے پر ضرب ہوگی اور بلا واسطہ یا بالواسطہ
عوام الناس بھی اس کے زد میں آ ئے گی۔عمران خان نے جہاں دنیائے عالم میں
مسلمانوں کا مؤقف کھل کر بیان کیا ہے وہیں ہمیں داخلی سطح پر ملک دشمنوں کے
سہولت کاروں کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے۔ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنی
فسطائیت اور قنوطیت کیوں پھیلائی جا رہی ہے؟ عمران خان کی تقریر کے بعد جس
طرح سے اچانک کچھ حلقے تیز ہوئے ہیں وہ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ
دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری کالی ہے۔سب کا مقصد اور کچھ نہیں بس
پاکستان کو کمزور کرنا اور اس میں خانہ جنگی شروع کرواناہے۔ ن لیگیوں نے اس
تقریر پر یہ سوال اٹھائے کہ تقریر کرنے سے اگر کچھ ہو جاتا تو اس سے پہلے
بھی کئی تقریریں ہو چکی ہیں ،کیا ہوا؟ بلاول بھٹو کا بیان آ یا کہ یہ تقریر
بے معنی اور بے بنیاد تھی ، عمران خان امت مسلمہ کا اور پاکستان کا واضح
مؤقف نہیں پیش کر پائے۔ کیا عمران خان وہاں اے کے 47 یا کوئی جی تھری
بندوقیں لے کر جاتا اور کسی پرانی فلم کے ناکام عاشق کی طرح سب کی کن پٹی
پر تان کر کہتا مجھے کشمیر دے دو نہیں تو نعشیں بچھا دوں گا نعشیں! کشمیرتو
نہ ہوا دیوداس کی پارو ہوئی!۔فضل الرحمٰن نے اپنا مؤقف نہیں بدلا ، حالانکہ
وہ شاید اس سے انجان ہیں کہ ان کے پروگراموں کی وجہ سے ان کی رہی سہی سیاسی
ساکھ بھی جاتی جا رہی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عمران خان کے منتخب ہوتے ہی فضل
الرحمٰن نے دو الزامات لگائے تھے، ان میں سے ایک یہودی ایجنٹ قرار دینا اور
دوسرا دھاندلی کا تھا۔انتخابات میں بری طرح ناکامی کے ردعمل کے طور پر
مولانا حکومت کو بلیک میل کر رہے تھے کہ وہ دھرنا دینے لگے ہیں ،عمران خان
کو ہٹا کر ہی دم لیں گے، پھر میڈیا پر ایک افواہ اڑا دی کہ حکومت نے فضل
الرحمٰن کا دھرنا رکوانے کیلئے سعودی عرب سے مدد مانگ لی ہے۔ اسی پس منظر
میں سلیم صافی نے جب سوال کیا کہ آپ دھرنا کیوں دے رہے ہیں ؟تو فضل الرحمٰن
نے جواباََ کہا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کیلئے ، سلیم صافی نے سوال کو
بڑھاوا دیتے ہوئے پوچھا کہ اگر فرض کریں کہ عمران خان کی حکومت چلی جاتی ہے
اور دوبارہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں جس میں عمران خان دو تہائی اکثریت سے
کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر؟ تو فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں دوبارہ دھرنا دوں
گا کیونکہ یہ پھر سے دھاندلی ہوئی ہو گی،یہاں یہ سوال ہے کہ اگر اتنی ہی
دھاندلی ہوئی ہے تو پہلے اپنے بیٹے سے استعفیٰ کیوں نہیں دلواتے؟ اور عمران
خان نے جو تقریر کی ہے اس کیلئے پہلے اسرائیل کو منایا ہے اس کے بعد کی ہے،
فضل الرحمٰن کا منشور ہمیشہ سے رہا ہے کہ ہم پاکستان میں شریعت محمدی کا
نفاذ چاہتے ہیں ، حالانکہ فضل الرحمٰن مشرف دور میں سرحد کے وزیر اعلیٰ رہ
چکے ہیں اور کوئی ایک بھی قانونی مثال نہیں ملتی جو شریعت محمدی سے ماخذ کی
گئی ہو یا شرعی ہو۔اسی دور میں جب فضل الرحمٰن نے امریکہ کا دورہ کیا تھا
تو وہاں امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ مجھے
پاکستان کی حکومت کا موقع دیں میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا،خود تو یہودی
ایجنٹ بننے کیلئے تیار تھا مگر جب رد عمل نہیں ملا تو اسلام یاد آ گیا،
یعنی اس کا اسلام اسلام آباد ہے؟۔ مولانا سے یہاں چند سوالات ہیں کہ آپ دس
سال کشمیر کمیٹی کے چئیر مین رہے ، آپ نے کشمیریوں کیلئے کیا کیا؟ آپ کہتے
ہیں تقریروں سے کیا ہوتا ہے!سچ کہتے ہیں کیونکہ آپ عورت کی حکمرانی کو حرام
کہتے ہیں لیکن اس کے اقتدار سے فائدہ اٹھایا،مشرف کو وردی کی دھمکی دے کر
ڈیرہ غازی خاں میں زمین الاٹ کروا لی،نواز شریف بھی یہودی ایجنٹ اور کراچی
سے خیبر تک کرپشن کی داستانیں رقم کرنے والے تھے لیکن وہ بالکل اسلامی
ہوگئے جب آپ کشمیر کمیٹی کے چئیرمین بن گئے اور بہت سی مراعات بھی حاصل
کیں،آپ نے اپنے عمل سے لفظ مدرسے کو گالی پڑوائی،آپ تو یوں کہہ رہے ہیں کہ
تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا جیسے اس سے پہلے کے حکمران اقوام متحدہ میں
تھپڑوں ، مکوں اور ٹینکوں، میزائلوں سے بات کرتے تھے۔پوری حکمت عملی سے
سازشیں رچائی جا رہی ہیں، سیاہ سی تو اپنی جگہ اس میدان میں صافی صحافیوں
نے بھی میدان خالی نہیں چھوڑا، بلکہ ذوالفقار علی بھٹو، معمر قذافی، یاسر
عرفات وغیرہ کے حوالے دیئے کہ انہوں نے بھی اقوام متحدہ میں ایسی پرجوش
تقریر کی تھی جس کے بعد انہیں مار دیا گیا، یعنی عمران خان کو بلا واسطہ
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ آپ نے دنیائے عالم کی بات کر کے اپنی جان جوکھم
میں ڈال لی ہے۔کوئی کشمیر کے مسئلے کو چوتھے نمبر پر بیان کرنے کی وجہ سے
بڑھکیں مار رہا تھا۔عاصمہ شیرازی نے تقریرپر جو تبصرے کئے وہ بھی سازشی
بیانات سے کم نہیں ۔ حامد میر جو نواز شریف کو کرپٹ کہتا رہا ہے وہی آج
نواز شریف کو اچھا بنا کر پیش کر رہا تھا ۔ جس دن عمران خان کی تقریر تھی
اسی دن کئی میڈیا گروپ دوسرے ایشوز پر بات کر رہے تھے۔یہاں کچھ باتیں تو
عیاں ہوچکی ہیں کہ حزب اختلاف اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ، فضل الرحمٰن صر
ف اقتدار کیلئے اور لفافہ صحافی صیہونی سازش کو بڑھاوا دینے کیلئے دن رات
مگن ہیں۔ اس پراپیگنڈے میں ایم کیو ایم لندن ، بلوچ لبریشن آرمی اور پی ٹی
ایم بھی پیچھے نہیں رہی، ایم کیو ایم نے اپنے مقتولین کی تصویریں لگا کر
نیویارک میں ٹرک چلوا دیئے حالانکہ یہ وہ دہشتگرد، ڈکیت اور ٹارگٹ کلر تھے
جنہوں نے کراچی میں اودھم مچا رکھا تھی، ایسے حیوانوں کے ساتھ او ر کیا
سلوک کیا جاتا جن کی جارحیت رکنے کا نام تک نہیں لے رہی تھی، لندن میں بی
بی سی نے بی ایل اے کے خیر بیار مری کا انٹرویو کیا جس میں اس نے خوب
پراپیگنڈا رچایا، حالانکہ اسی امریکہ نے بی ایل اے اور اس کی ذیلی تنظیموں
کو بین الاقوامی دہشتگرد قرار دیا ہوا ہے، پی ٹی ایم خانہ جنگی پھیلانے میں
مصروف رہی۔ یہ جتنا مرضی کر لیں ، اﷲ تعالیٰ نے عمران خان کو جتنی عزت دے
دی ہے وہ یہ چاہ کر بھی کم نہیں کر سکتے اور ان کی ذلت اب ان کیلئے رقم ہو
چکی ہے۔ اگر آج ہنوز کے سارے دھوکے باز اور فراڈیے حیوان عمران خان کے اور
پاک آرمی کے خلاف ہیں تو یہ ان کے حق پر ہونے کی گواہی ہے۔یہ تقریر ہر صورت
پاکستان اور اسلام کے حق میں تھی، اس سے حزب اختلاف میں ہیجانی کیوں؟
|