بدلتے پاکستان کی بدلتی تصویر․․․!

عوامی خیال تھا کہ پاکستان تحریک انصافکی حکومت آتے ہی ’’پاکستان کی تصویر بدل جائے گی‘‘،لیکن یہ عوام کا خواب تھا اور خواب ہی رہ گیا۔عمران خان کو عوامی سطح پر ظلم کے خلاف پُر امن طریقہ سے آواز اٹھانے والا لیڈر سمجھا گیا تھا،لیکن انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی مخالفین سے انتقامی سیاست کے رواج کو عروجدیا،پھر عمران خان کے لئے ملک وعوام پیچھے اور انتقام ترجیح بن کر رہ گیا ۔جنہوں نے عوام کی زندگی آسان بنانا تھی،انہوں نے غریب کی زندگی میں بد ترین صورت حال پیدا کر کے رکھ دی۔اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ایشوز کی سیاست کی جا رہی ہے اور عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔لوگ سوچتے تھے کہ عمران خان ایسا طرزِ زندگی اور مسائل حیات سے نبردآزما ہونے کے لئے ایسا طریقہ کار تجویز کریں گے، جس کی افادیت دیکھ کر لوگ حیران رہ جائیں گے ۔ملک بھر میں عدم تشدد کی فضا ہو گی ،انصاف ہردہلیز پر ملے گا،کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی،لیکن تمام حالات و واقعات نے ثابت کیا کہ عوام کی سوچ غلط تھی۔یہی نوجوان تھے جو تحریک انصاف کے نظریہ کی تشکیل میں معاون ثابت ہوئے۔صرف اس لئے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا،مگر آج اگر تمام حالات کا جائزہ لیں تو جس حقیقت پر ہماری نظر ٹھہرتی ہے ،وہاں صورت حال گھمبیر ہے ۔لوگ نا امیدی کی طرف گامزن ہیں ۔جب کسی بھی قوم میں نا امیدی سرایت کر جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا زوال آن پہنچا ہے ۔عوام کو اس زوال جیسی صورت حال سے نکلنا ہے ۔یہ کیوں کر ہو سکے گا؟

ہم غلام ابن غلام کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ہمیں اس غلامی کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرنا ہو گی۔اس کے لئے قومی یکجہتی کا نظریہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ہمیں رنگ ،نسل یا مذہبی تفریق کو چھوڑ کر نہ صرف پاکستانی بلکہ سچا پاکستانی بننا ہو گا۔ہم آہنگی ،خیر سگالی ،آپسی بھائی چارگی،امن اور عدم تشدد کا رویہ اپنانا ہوگا۔اگر ان عوامل پر آج بھی عمل کیا جائے تو ملک میں منافرت ،عدم برداشت،تشدد اور انتہا پرستی کی صورت حال ختم کی جا سکتی ہے ۔یہ سب کرنے کے لئے حکمرانوں کو کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔جو وہ نہیں کر رہے ہیں ۔موجودہ حکومت کے ابتدائی تین ماہ میں وزراء نے کمال وطیرہ پکڑا کہ ہر خرابی کی ذمہ داری مسلم لیگ(ن)پر ڈالتے رہے ۔اگلے تین ماہ اداروں کی سربراہوں پر ڈال دی ،انہیں فارغ کر دیا گیا۔گویا ہر کام کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) یابیوروکریٹ ہیں اور پی ٹی آئی غیر ذمہ دار بن گئی ۔یعنی ملک خراب تھا جس کی ذمہ داری مسلم لیگ(ن) تھی ،ملک خراب ہے کیونکہ بیوروکریسی کام نہیں کر رہی۔حکومت پی ٹی آئی کی ہے،لیکن تمام تر معاملات کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کی ہے ۔جیسے 72سالوں سے یہی دو پارٹیاں حکومت کر رہی ہیں اور کسی نے ملک میں حکومت کی ہی نہیں ۔آج جس طرح سے تواتر سے سوال کیا جا رہا ہے کہ ملک میں حکومت کون کر رہا ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت میں بہت سارے پاٹنرز ہیں ۔جو حکومت چلانے کے دعوے دار ہیں ۔جہاں حکومت ایک کی نہ ہو تو نتیجہ بدحالی اور بحرانی حالات کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے میں حکومتی وزراء مسلم لیگ(ن)والوں اور عوام پی ٹی آئی والوں کو گالیاں دینے لگے ہے۔کوئی بعید نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی ناکامی کا تمام تر ملبہ عوام پر ڈال دے ۔حکومت اپنے تئیں مطمئن ہے کہ سعودی عرب ،چین اور متحدہ عرب امارات سے پیسے ملتے جا رہے ہیں ،مگر جوں جوں پیسے ملتے جا رہے ہیں ملک کے معاشی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں ۔حکومت کے انقلابی منصوبوں کی بے نقابی کا انتظار عوام کو شدد سے ہے ۔وہ دعوے اور منصوبے کہاں غائب ہیں، کسی کو خبر نہیں ہے ۔عمران خان کو جب ہوش آتا ہے ،وہ کابینہ کو الٹ پلٹ کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں ۔کابینہ کے انہیں وزراء میں کسی کو وزیر تعلیم سے ہٹا کر وزیر داخلہ اور کسی کو خزانہ سے پیٹرولیم کے وزیر کی سیٹ عنایت کر دی جاتی ہے ۔یہ ردو بدل سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے، سمجھ سے بالا تر ہے ۔وفاقی ،پنجاب اور خیبر پختونخوا کا بینہ میں شامل وزراء ،مشیران اور معاونین خصوصی میں بیشتر کی کارکردگی افسوس ناک حد تک مایوس کن رہی ہے ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے،لیکن انہیں وزارتوں سے فارغ نہیں بلکہ تبدیل کیا جاتا ہے ۔ایک جگہ نااہلی کا ثبوت دینے والا دوسری جگہ اہل کیسے ہو سکتا ہے اور وہ اس شعبے کا ماہر بھی نہ ہو۔یہ سب ٹاک شوز میں بھڑکوں کے سوا کوئی کام نہیں کر سکتے ،لیکن کیونکہ کسی نہ کسی طاقت کے منظور نظر ہیں،اس لئے وزارت دینا ضروری ٹھہرتا ہے ۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عمران خان جیسا شخص ایسی کارکردگی رکھنے والوں کو اپنی ٹیم کا حصہ کبھی بھی نہیں بنا سکتا ۔انہیں با امر مجبوری ایسا کرنا پڑتا ہے ۔حالانکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی کے ارکان میں سے بہت با صلاحیت اور با وقار ممبران موجود ہیں ۔اگر ان نا اہل وزراء سے جان چھڑا کر با صلاحیت افراد کو کابینہ کا حصہ بنایا جائے،اس فیصلے سے نہ صرف ملک وقوم بلکہ عمران خان کے مسائل کا حل آسانی سے نکل آئے گا۔

موجودہ حکومت نے وزراء کی کارکردگی کا معیار ٹاک شواور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بد تمیزی کرنے پررکھا ہے ۔حکومت کے چودہ ماہ کے دوران دوسری بار وفاقی کابینہ میں ردوبدل نے واضح کر دیا ہے کہ وزراء صلاحیت نہیں رکھتے ۔وزیر اعظم کا پنجاب کابینہ کی کارکردگی پر تشویش بھی درست ہے ۔عوام وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سے کسی طور خوش نہیں ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان کے میرٹ کے دعوے کہاں ہوا ہوگئے ہیں ۔ عمران خان میاں نواز شریف کو خوشامد پسند کہتے نہیں تھکتے تھے،مگر خود خوشامدیوں کو نوازنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔انہیں پسند نا پسند کے حصار سے نکل کر ملک اور عوام پر رحم کھانا ہو گا۔حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔یاد رہے کہ اقتدار سدا نہیں رہتا،لیکن آج کی غلطیاں ساری زندگی پیچھا کرتی رہیں گی ۔جیسے میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔آصف علی زرداری نے ملک کے صدر کا عہدہ پانچ سال تک سنبھالے رکھا ہے ۔کیا انہوں نے ملک و عوام کے لئے کچھ نہیں کیا،مگر ان کی ملک و قوم کے لئے تمام تر کاوشوں کو یاد نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کی چھوٹی سے بڑی غلطیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور بار بار یاد کیا بھی جاتا ہے اور انہیں اس کی سزا سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔کل عمران خان کو بھی اپنی اوران وزراء کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لئے قانون و عوام کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ وہ کپتان ہیں ۔یاد رہے ،تمام تر ذمہ داری انہیں پر عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ بدلتے پاکستان کی تصویر بھیانک ہوتی جا رہی ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.