صارفیت کے اس دور ِ پر فتن میں ہر شئے کی برانڈنگ کی جاتی
ہے۔ ان کو کچھ خاص ناموں اور خصوصیات سے منسوب کردیا جاتا ہے تاکہ کام کے
بجائے نام بکے ۔ یہ معاملہ افراد تک بھی پھیلا دیا گیا ہے جس سے شخصیت پر
ستی بام ِ عروج پر پہنچ گئی ہے ۔ آج کل ہر رہنماکی اندھی تقلید کرنے والے
بھکتوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ اپنے قائد کی ہر اوٹ پٹانگ بات پر یقین
کرلیتے ہیں اور اس کی الٹی سیدھی توجیہ کرتے پھرتے ہیں بلکہ ان پر تنقید
کرنے والے کا منہ نوچ دینا چاہتے ہیں ۔ عملاً اگرچہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن
سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ پر یہ خون خرابہ آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے۔
دیکھتے دیکھتے بات طعن و تشنیع سے نکل کر غیبت و تہمت تک پہنچ جاتی ہے اور
اخلاقی حدود کو پامال کرکے گالم گلوچ تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ
اصطلاحات کی بھی برانڈنگ ہوتی ہے مثلاً’من کی بات‘ ، یہ الفاظ سنتے ہی وزیر
اعظم کا خیال آجاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ من کی بات صرف وہی بولتے ہیں بلکہ من کی بات کے پردے میں
وہ سیاست کی باتیں کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ من کی بات تو ہر خاص و عام
کرتا ہے لیکن اس پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔ وزیراعظم کے من کی بات چونکہ
آکاش وانی سے نشر ہوجاتی ہیں اس لیے بہت سارے لوگ سن لیتے اور اخباروں میں
چھپنے کے سبب قارئین پڑھ بھی لیتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی انہیں یاد رکھتا
ہے ان پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیے عصرِ حاضر میں سیاستداں اپنی اعتباریت
کھوچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا ذرہ برابر افسوس نہ تو خود رہنماوں
کو ہے اور نہ ان کے پیروکاروں کو ہے۔ اسی لیے ہر کوئی جومن میں آئے بول
دیتا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ معمول ہے کہ وہ مہینے بھر میں کوئی اور کام کریں
یا نہ کریں من کی بات ضرور کرتے ہیں ۔ اپنی دوسری مدت کار کے چوتھی من کی
بات کے دوران انہیں تہواروں کے ساتھ ملک کی بیٹیوں کا خیال آگیا اور انہوں
نے خواتین کے کارناموں کو نمایاں کرنے کی خاطر ’بھارت کی لکشمی‘ نامی مہمِ
جدید شروع کرنے کی گزارش فرمادی ۔
اس مہم کی اہمیت بتاتے ہوئے انہوں نے ایک قدیم مہم ’سیلفی وِد ڈاٹر‘ کی
زبردست کامیابی کا ذکر کیا ۔ مہم کے انگریزی نام اس کے یوروپ سے مستعار
ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ اس بار بھی وہ حال میں یو ایس اے اور یو این او سے
لوٹے ہیں کاش کہ اپنے دیش کی خواتین کا حال جاننے کے لیے یوپی کا بھی دورہ
فرماتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر کھنچوانے والے
شاہجہاں پور کا وہ باپ کس قدر غمگین ہے جس کی بیٹی کے ساتھ خود ان کی پارٹی
کے سابق مرکزی وزیر نے بدسلوکی کی انتہا کردی ۔ وہ باپ اور بیٹی اکیلی نہیں
ہے بلکہ اس جیسی نہ جانے کتنی بیٹیاں اور سوامی چنمیانند جیسے درندے بھگوا
چولہ اوڑھ کر خواتین کا استحصال کررہے ہیں اور یوگی ادیتیہ ناتھ جیسے
بھگوادھاری سیاستداں ان کی حمایت کررہے ہیں ۔ انہیں تحفظ فراہم کررہے ہیں۔
وزیر اعظم نے ’بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو‘ کا خوش کن نعرہ دیا لیکن جب بیٹی
قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے چنمیانند کے کالج میں پہنچی تو اس سے مالش
کرانے کا کام لیا جانے لگا اور اب تو اس بیچاری کو بلیک میلنگ کے الزام جیل
بھیج دیا گیا ہے تاکہ کوئی مظلوم خاتون ظلم وجبر کے خلاف لب کشائی کی جرأت
نہ کرسکے۔ کیا مودی اور یوگی راج میں بھارت کی لکشمی اس سلوک کی مستحق ہے؟
زعفرانی اقتدار اگر اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ عصرِ حاضر کی خواتین ان سے
خوفزدہ ہوجائیں گی تو انہیں بلقیس بانو کی مثال اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔
۲۰۰۲ میں برپا ہونے والے گجرات فساد میں ان کی نہ صرف آبرو ریزی کی گئی
بلکہ خاندان کے ۷ لوگوں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس پر مودی انتظامیہ کی
جانب سے شدید دباو ڈالا گیا تاکہ وہ اپنا مقدمہ واپس لے کر خاموش ہوجائے۔
اس کے سبب انہیں برسوں تک خانہ بدوش کی مانند در در کی ٹھوکریں کھانی پڑی
لیکن بلقیس بانو نہ تو ڈری اور مایوس ہوئی یہاں تک کہ ۶ سال بعد ۲۰۰۸ میں
۱۱ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی مگر ۷ عدد پولس والوں اور ڈاکٹروں
کوبری کردیا گیا۔ اس محدود انصاف کے خلاف بلقیس بانو عدالت عظمیٰ میں پہنچ
گئی۔ اس پر صوبائی حکومت سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اجتماعی عصمت دری
کے معاملے میں شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی مذموم کوشش کرنے والے کئی افسران
کو ہٹا دیا گیا اور ایک آئی پی ایس افسر کا درجہ گھٹا دیا گیا ہے۔سپریم
کورٹ نے نچلی عدالت کے ذریعہ پولس والوں کو سزا کی توثیق بھی کردی۔
اس معاملے میں آخری مرحلہ ہرجانہ کا تھا۔ آدرش گجرات سرکار نے اس بہیمانہ
ظلم کے عوض صرف ۵ لاکھ روپئے ہرجانہ ادا کرنے کی پیشکش کی تھی جس کو بلقیس
بانو نے ٹھکرا دیا اور پھر سے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی تو عدالت
عظمیٰ نےپچاس لاکھ معاوضہ ، سرکاری ملازمت اور گھر دیئ جانے کے احکامات
صادر کیے۔ ۶ ماہ قبل دئیے گئے اس فیصلے پر بلقیس اور ان کے خاوند یعقوب نے
اطمینان کا اظہار کیا ۔ اس دوران انتخابات ہوئے پرانی سرکار نئی بوتل کے
اندر پھر سے نمودار ہوگئی ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس میں سب کا وشواس بڑھ گیا
لیکن نہ تو عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد ہوا اور نہ بلقیس کو اس
کا حق ملا ۔ آل انڈیا ریڈیو پر مائک کے سامنے بیٹھ کر چکنی چپڑی باتیں
کرنا اور اپنے من کی باتوں سے لوگوں کا من جیتنے کی کوشش کرنا بہت آسان ہے
لیکن بلقیس اور شاہجہاں پور کی مظلوم طالبہ کو انصاف دلانا بہت مشکل ہے۔
بلقیس نے ۶ ماہ بعد جب عدالتِ عظمی ٰ سے دوبارہ گہار لگائی تو سرکار کو
پھٹکار سنانے کے بعد ایک ہفتہ کے اندر احکامات کی بجا آوری کا حکم دیا گیا
ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار بلقیس کو انصاف ملتا ہے یا صرف سوشیل میڈیا
پر ’ بھارت کی لکشمی ‘ جیسے کھوکھلے نعروں اور مہمات سے عوام کا دل بہلایا
جاتا ہے؟
|