طاغوتی پالیسی ''اہل افراد کو ہٹا دو''

یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم کھڑے ہیں تاریخ کے ان اہم مواقع میں سے ہے جب پرانے و بوسیدہ نظام کو لپیٹ کر اس کی جگہ نیا نظام لایا جارہا ہے بظاہر جس طرح یہاں حکومت کی بجائے نظام کے انتقال کے معاملات ہوتے نظر آرہے ہیں اس کے پیچھے کوئی عام یا سادہ سی بات نہیں، یہ محض اسٹیبلشمنٹ اور چند سیاستدانوں و میڈیا پرسنز کے مابین لڑائی نہیں بلکہ عالمی لیول کی بات ہے، ایک میمو جوکہ 30 ستمبر 2001 کو جاری ہوا جس میں ڈونلڈ رمزفیلڈ نے سابق امریکی صدر بش کو مشورہ دیا کہ ''امریکہ کی پالیسی کا یہ حصہ ہونا چاہئے '' New regime in Afghanistan & another key state that supports terrorism, to strengthen political & military efforts elsewhere'' وہ دوسری ریاست کونسی ہوسکتی تھی اگر ماضی میں جھانکیں تو پاکستان ہی وہ ملک تھا جس میں ڈرامائی انداز میں انتقال اقتدار ہوا، مشرف حکومت کا طوطی سر چڑھ کر بول رہا تھا، مضبوط سیاسی بتوں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ مشرف کی مکمل گرپ تھی مگر لندن میں سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزا رائس کی کوششوں سے ایک خفیہ معاہدہ طے ہوتا ہے جس کے فریق نواز لیگ اور پیپلزپارٹی ہوتے ہیں اس کے فوراً بعد ایک وکلاء تحریک ابھر کر سامنے آتی ہے کہ قومی و بین الاقوامی میڈیا پر اس کے سوا کوئی ٹاپک ہی نہ ہوا کرتا تھا، اس وقت کی فوٹیجز کو دیکھا جائے تو ریلیوں میں وکلاء کی تعداد سے علم ہوتا ہے کہ وہ جو بھی تھے مگر وکلاء کی تعداد اتنی بڑی نہیں جتنی روڈوں پر دکھائی دیتی تھی تو دوسری طرف مذہب کارڈ کو استعمال کیا گیا، لال مسجد جسے قومی و بین الاقوامی میڈیا دہشتگردی کا گڑھ، ریاست کے اندر ریاست کہہ کر پکارتے تھے ایکدم سے وہی میڈیا و دیگر لال مسجد کے ہمدرد ہوکر مشرف حکومت کے خلاف عوام کو اکساتے رہے، الیکشن ہوے نئی حکومت سامنے آگئی، فرینڈلی اپوزیشن کا راگ الاپنے والوں کی اصلیت اس معاہدے سمیت سامنے آگئی، حیران کردینے والی بات یہ کہ ان دونوں ادوار میں ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرض لیے گئے، اقربا پروری اپنے عروج کو پہنچ گئی، غریب امیر کا فرق اخلاقی معاشی قانونی ہر جہت میں بڑھتا ہی چلا گیا اور اپوزیشن تو فرینڈلی اپوزیشن بنی ہوئی تھی ایسے میں عمران خان کو خالی جگہ گھیرنے کا موقع مل گیا جس نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور بالآخر اقتدار کا تاج بھی انکے ماتھے پہ سج گیا مگر سالوں کے مسائل اور قرضوں میں ڈوبی صورتحال کا سامنا کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ وہ سمجھے بیٹھے تھے خصوصاً ایسی صورتحال میں جب عالمی طاقتیں نقصان پہنچانے پہ تلی ہوں اور اندرون خانہ ان کی ٹیم بلکہ ٹیمیں فنکشنل بھی ہوں، بہر حال عمران خان کے ہراول دستے نے ہمت نہ ہاری اور ملک کی گاڑی کو ٹریک پہ لانے میں لگ گئے، اسد عمر ہی کی مثال لے لیجئے اس نے مصنوعی اعداد و شمار کی بجائے حقیقی معاشی پالیسی ترتیب دیکر اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو مخالف قوتیں بھی حرکت میں آگئیں، ایک طرف تو سازشیں شروع جبکہ دوسری طرف قومی سطح پر اسد عمر کو مسلسل ہدف تنقید، تمسخر اڑا کر، کیچڑ اچھال کر انہیں ذہنی اذیت دینے کی کوشش کی جاتی رہی حالانکہ انسان ہونے کی تو یہ دلیل ہے کہ جب کوئی ملکی و قومی مفاد کی بات کرے تو اس کا ساتھ دیا جائے یا کم از کم حوصلہ افزائی کی جائے مگر یہاں معاملہ وہی تھا کہ عمران خان کو تنہا کیا جائے، پاکستان کا صوبہ پنجاب سیاسی حساب سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دارومدار پنجاب حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے، اسی کے پیش نظر اپوزیشن نے سارا زور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بناو اور بگاڑ کا اصل نیوکلئس پنجاب ہے اور اگر اپوزیشن پنجاب بگاڑ پروگرام میں کامیاب ہوگئی تو تحریک انصاف عوام میں نالائق ثابت ہوجائیگی نہ کہیں فریاد کرنے کے قابل رہیگی، اب زرا پنجاب حکومت کے پہلے ایک سال کا جائزہ لیجئے، عثمان بزدار نے ماضی کی روایات کو توڑتے ہوے پہلے سے جاری کسی بھی منصوبے کے فنڈز نہیں روکے جبکہ ماضی میں روایت یہ تھی کہ آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں پہ مٹی ڈال دیتی تھی، عثمان بزدار کا تعلق اپر مڈل کلاس گھرانے سے ہے وہ کوئی بہت بڑے جاگیردار یا سرمایہ دار نہیں، اس لیے بھی بزدار صاحب ہدف تنقید ہوتے ہیں اس کے علاوہ اپوزیشن بخوبی جانتی ہے کہ بُزدار صاحب PTI پالیسی کے مفادات کے خلاف ایک انچ بھی نہیں جاسکتے اور ہر صورت عمران خان کے پروگرام کو آگے لیکر چلنے پہ ہی گامزن رہینگے اس لیے اپوزیشن و مفادپرست طبقے کے نزدیک شطرنج کے کھیل میں وزیر کی حیثیت کی طرح بُزدار صاحب سب سے اہم ٹارگٹ ہے، ابتک اپوزیشن و اپوزیشن میڈیا وزیراعلیٰ پنجاب کا کوئی غلط کام یا غلط پالیسی سامنے نہیں لاسکی، ان کی ذات کو نشانہ ضرور بنایا جاتا ہے کبھی انکی سادگی کو لیکر تو کبھی کسی فوٹوشاپ تصویر کا سہارا لیکر جس کامقصد وزیراعلیٰ کو ذہنی اذیت پہنچاکر ان کی فیصلہ سازی کی قوت میں رکاوٹ ڈالنا اور ان سے کوئی زبانی غلطی کروانا ہے لیکن عثمان بُزدار صاحب اپنی عادت کے مطابق صبر و تحمل سے کام لیکر صرف اپنے کام پہ توجہ دئیے رکھتے ہیں جس سے مخالفین ہی کنفیوز ہوتے دکھائی دینے لگے ہیں، جیسا کہ بھارتی جسٹس نے کہا کہ عمران خان کی تقریر سے ثابت ہوا ہے کہ وہ اسکالر بھی ہیں، یہی وہ خاصیت ہے جو وزیراعظم عثمان بُزدار پہ بضد ہیں کہ یہی وزیراعلیٰ رہینگے غالباً وہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان بُزدار ان کے اہم بازو ہیں اور تحریک سے مخلص بھی۔
 

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 89296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.