مولانافضل الرحمن نے آزادی مارچ اوردھرنے کااعلان کرکے
جہاں حکومتی ایوانوں میں تھرتھلی مچائی ہے ،وہاں اپوزیشن کی صفوں میں بھی
کھلبلی مچی ہوئی ہے ،وزیراعظم سے لے کر حکومتی مشیروں کی زبانوں
پرمولانافضل الرحمن ہیں حالانکہ ہمارے وزیراعظم حال ہی میں جنرل اسمبلی میں
جو تقریرکرکے آئے اس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن انہیں انٹرنیشنل لیڈرگردان
رہے ہیں مگروہ وزیراعظم بھی مولاناسے الجھ رہے ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ
،،مولانا،،مسئلہ بن رہے ہیں،مولانا کا آزادی مارچ حکومتی وزرا کے ذہنوں پر
سوار ہو چکا ہے۔حکومتی وزرا مولانا کو آزادی مارچ سے روکنے کے لیے کوئی
معقول بات بھی نہیں کرپارہے ہیں ،حسب معمول مولاناکی کردارکشی کی جارہی ہے
،مولانا نے عملی طور پر اپوزیشن لیڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے یہی وجہ ہے کہ
اپوزیشن میں شامل دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کوبھی یہ غم
کھائے جارہاہے کہ اپوزیشن تحریک کی ڈرائیونگ سیٹ پر،،مولانا،،کیوں براجمان
ہیں ؟بلاول بھٹونے یہاں تک کہہ دیاکہ مولاناکادھرناکسی کے اشارے
پرہواتوحمایت ختم کردیں گے ۔
مولانافضل الرحمن پرایک بڑااعتراض یہ کیاجارہاہے کہ مولانامذہبی
کارڈاستعمال کرررہے ہیں حالانکہ مولاناایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں
جوالیکشن میں حصہ لیتی ہے اوراس کے لاکھوں ووٹرزہیں اوراسی طرح اس کے
کارکنوں کی تعدادبھی لاکھوں میں ہے جہاں تک مدارس کاتعلق ہے تو ایک اندازے
کے مطابق اس وقت تمام مسالک کے مدرسوں میں پچیس لاکھ سے زائد طلباء وطالبات
زیرتعلیم ہیں ظاہرہے کہ یہ تمام طلباء جمعیت علماء اسلام یاان کے مسلک کے
ساتھ وابستہ نہیں ہیں تومولانااپنے دعوے کے مطابق پندرہ لاکھ افرادکہاں سے
اسلام آبادلائیں گے ؟اوران کے پیچھے کون ہے ؟اس سوال کے جواب کے لیے میں نے
جمعیت علماء اسلام کے نوجوان رہنماء اورمرکزی ناظم انتخاب سے رجوع کیا
جنھوں نے حال ہی میں جمعیت کی رکنیت سازی کی نگرانی کی اوریونین کونسل سے
لے کرمرکزتک انتخابات کروائے ہیں ۔
علامہ راشدمحمود سومرونے مجھے بتایاکہ اس مرتبہ پورے ملک میں 31لاکھ
افرادکوجمعیت کارکن بنایاگیا ہے ،تمام ارکان کے شناختی کارڈ نمبراورفون
نمبرزان کے پاس درج ہیں ،پورے ملک میں کوئی ضلع ،تحصیل اوریونین کونسل ایسی
نہیں جہاں رکنیت سازی اورتنظیم سازی نہ کی گئی ہوجمعیت علماء اسلام
خیبرپختونخواہ اوربلوچستان میں توپہلے ہی مضبوط تھی مگراس مرتبہ پنچاب میں
3لاکھ 31ہزارافرادکورکن بنایاگیاہے،پنچاب کے 36اضلاع ان کی تمام تحصیلوں
اورسترفی صدیونین کونسلوں تک تنظیم قائم کردی گئی ہے جبکہ ان کی طلباء
تنظیم جمعیت طلباء اسلام ودیگرکی تعداداس سے الگ ہے ،جمعیت علماء اسلام اگر
اپنے نصف ارکان کوہی محترک کرے تویہ پندرہ لاکھ افرادبن جاتے ہیں اورجمعیت
علماء اسلام کے رکن دیگرسیاسی جماعتوں کی طرح کے نہیں جوقیمے والے نان
کھائیں اوروقت آنے پربھاگ جائیں۔اس میں اگرن لیگ ،پیپلزپارٹی ودیگراپوزیشن
جماعتوں کے کارکن اورحکومتی پالیسیوں سے تنگ عوام بھی شامل ہوگئے
توپھرواقعی یہ ایک سیلاب ہوگا۔
تجزیہ کاراورسیاسی رہنماء جمعیت علماء اسلام کے حوالے سے مغالطے کاشکارہیں
گزشتہ چندسالوں میں جے یوآئی تنظیمی طورپرنہایت مضبوط ہوئی ہے اس کااندازہ
2007میں تین روزہ صدسالہ اجتماع سے لگایاجاسکتاہے جس میں کم ازکم دوسے تین
لاکھ افرادنے شرکت کی اورجے یوآئی کے سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفورحیدری نے
بتایاکہ انہوں نے جماعتی چندے سے یہ اجتماع منعقدکیاجس پرتیرہ سے چودہ
کروڑروپے خرچہ آیاتھا گزشتہ ایک سال میں جمعیت علماء اسلام نے ملک بھرمیں
پندرہ ملین مارچ کیے جس میں لاکھوں افرادنے شرکت کی اورلاکھوں روپے کے
اخراجات آئے ظاہرہے کہ جوجمعیت کے کارکنوں نے برداشت کیے ،علامہ
راشدسومروکے مطابق ہم نے آزادی مارچ کے لیے31لاکھ ارکان سے فی کارکن
سوروپیہ چندہ وصول کیاہے اوریہ رقم31کروڑروپے بنتی ہے اس میں وہ چندہ شامل
نہیں جوجمعیت کے مالدارافرادنے لاکھوں روپے کی صورت میں دیاہے ۔ جمعیت کے
کارکن وقیادت کے حکم پرایک سوروپے کی بجائے اپناسب کچھ لٹانے کوتیاربیٹھے
ہیں ۔مولاناکے پیچھے یہی کارکن اورعوام ہیں جن پرانہیں اعتماد ہے ۔
یہ بھی پروپیگنڈہ بھی کیاجارہاہے کہ مولانافضل الرحمن 22نمبربنگلہ چھوٹ
جانے کی وجہ سے احتجاج کررہے ہیں اورانہیں حکومت سے باہرہونے کاغم کھائے
جارہاہے ۔حیران کن امریہ ہے کہ یہ الزام وہ لوگ لگارہے ہیں کہ جنھوں نے
گزشتہ دس سالوں میں اقتدارکے لیے تین تین پارٹیاں بدلی ہیں ،اوراس وقت بھی
ایمپائرکی انگلی کے اشارے پرناچتے ہیں آئیں جائزہ لیں کہ اس الزام کی
کیاحقیقت ہے ؟
مفتی محمود ؒ کی وفات کے بعد1980میں مولانافضل الرحمن نے عملی سیاست میں
قدم رکھا مولانافضل الرحمن نے 1985کے غیرجماعتی الیکشن کابائیکاٹ کیا اوران
کایہ فیصلہ درست ثابت ہوا، مولانانے 1988 کے الیکشن میں حصہ لے کر
پارلیمانی سیاست کا آغازکیا الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے
بعدمولانااپوزیشن میں بیٹھے ۔1990کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمن تو
کامیاب نہ ہوئے لیکن جے یو آئی 6 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔اورجمعیت
علماء اسلام ایک مرتبہ پھراپوزیشن بینچوں پربیٹھی،
1993 کے انتخابات میں مولانافضل الرحمن اسلامی جمہوری محاذکے پلیٹ فارم سے
الیکشن میں حصہ لیا اوران کی جماعت نے چارنشستوں میں کامیابی حاصل ، مولانا
فضل الرحمن اپنے آبائی حلقہ سے کامیاب ہوئے اورایک مرتبہ پھرسے اپوزیشن
نشستوں پربیٹھے ۔البتہ مولاناامورخارجہ کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے ،اگراس
کمیٹی کی چیئرمین شپ کامطلب حکومتی نمائندگی ہے تویہ گناہ بے نظیراس سے
پہلے کرچکی تھیں اورنواز شریف کے دور حکومت میں قائد حزب اختلاف محترمہ بے
نظیر اسی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن بنی تھیں۔
1997 کے عام انتخابات میں ن لیگ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی
اوربعدازاں وہ اسی بوجھ تلے دب گئی نوابزادہ نصراﷲ خان، اسفند یار ولی خان
اور مولانا فضل الرحمن بھی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوئے۔ جے یو آئی کے حصے
میں قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں آئیں۔ اوروہ اپوزیشن بینچوں پربیٹھی
۔2002 کے قومی انتخابات میں جے یو آئی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے
الیکشن میں حصہ لیا۔ اورشاندارکامیابی حاصل کی،قومی اسمبلی میں مولانا
اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔
2008 کے عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قومی حکومت
تشکیل پائی جس میں ق لیگ کے علاوہ تمام قومی جماعتیں شریک ہوئیں. بعدازاں
پہلے ن لیگ اور عرصہ دوسال بعد جے یو آئی حکومت سے الگ ہو گئیں۔ 2013 کے
انتخابات کے نتیجے میں جے یو آئی اپنے حصے کی 13 نشستوں کے ساتھ ن لیگ کی
حکومت کا حصہ بنی اورپہلی مرتبہ جمعیت علماء اسلام نے حکومتی اتحادکے
طورپرپانچ سال پورے کیے ۔ 2018کے انتخابات میں مولانافضل الرحمن نے ایم ایم
اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا مولانافضل الرحمن الیکشن ہارگئے
البتہ ایم ایم اے نے پندرہ سے زائدنشستیں حاصل کیں ۔
مولانافضل الرحمن کی سیاسی زندگی میں 9 الیکشن ہوئے جن میں سے انہوں نے
ذاتی طورپرپانچ الیکشن میں کامیابی حاصل کی،تین الیکشن میں ناکام ہوئے
اورایک الیکشن کابائیکاٹ کیا ان39 سالوں میں ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام
کاعرصہ اقتدارکل سات سال بنتاہے ان سالوں میں نوحکومتیں بنیں جن میں سے سات
حکومتوں میں جے یوآئی شامل نہیں تھی بلکہ اپوزیشن میں بیٹھی ،مولانافضل
الرحمن دومرتبہ کشمیرکمیٹی ،ایک مرتبہ خارجہ کمیٹی اورایک مرتبہ قائدحزب
اختلاف کے عہدے پرفائزرہے اگرانصاف سے جائزہ لیاجائے تومولاناکی زیادہ
سیاسی زندگی مزاحمت یااپوزیشن میں گزری ہے اوریہی ان کا طرہ امتیازہے ۔ایک
سوال یہ کیاجارہاہے کہ مولاناکااحتجاج کاطریقہ درست نہیں میں سمجھتاہوں کہ
پی ٹی آئی کوکم ازکم یہ بات نہیں کرناچاہیے ۔باقی جمہوری ملکوں میں حکومتوں
کے خلاف احتجاج ہوتارہتاہے اوریہ عوام کاحق ہے کہ وہ مسلط شدہ حکومت اوران
کی غلط پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پرنکل کراپنااحتجاج ریکارڈکروائیں ۔
|