کوچہ تصوف کے پراسرار نفوسِ قدسیہ کے حالات زندگی کا جب
ہم مطالعہ کرتے ہیں تو حیران کن بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہ پیدا ایک جگہ تو
دنیا وی روحانی دینی تعلیم دوسری جگہوں پر حاصل کر نے کے بعد ایمان کے سورج
بن کر کسی تیسری جگہ جہالت بت پرستی کفر کے اندھیروں کو ایمان کی روشنی میں
بدلتے ہیں ‘ ابتدائی ریاضت عبادت مجاہدے کے لیے یہ عظیم طالبان ِ حق دنیا
کے دور دراز کے ملکوں اور اولیاء کرام کی صحبتوں سے فیض یاب ہو تے ہیں ایسی
ہی نازک گھڑی اب جوان فرید الدین مسعود ؒ کی زندگی میں آگئی تھی جب چند دن
مرشد کریم جناب شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی صحبت میں رہنے کے بعد
مرشد کریم نے نوجوان بابا فرید ؒ سے کہا کہ جاؤ فرید جا کر علم حاصل کرو ‘
اﷲ کے نیک بندوں سے ملو اور دیکھو کون کس حالت میں کس مقام پر ہے اچھی طرح
علم کی پیاس بجھاؤ کیونکہ بے علم زاہد مسخرہ شیطان ہے علم انسان کو مکمل کر
تا ہے جاہل کو شیطان شکست دے دیتا ہے پھر فرید الدین مرشد خواجہ قطب ؒ کے
قدموں کو بوسہ دے کر غمگین دل و جان سے والدہ ماجدہ کے پاس آکر مرشد سے
ملاقات اور مرشد کے اگلے حکم کا بتاتے ہیں تو والدہ ساری بات سن کر بہت خوش
ہو تی ہیں اور فرماتی ہیں بیٹے رب کائنات نے میری دعاؤں کو قبول کیا جو
تمہیں مرشد حق ملے اب اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل کرو اور جاکر اہل حق کی
صحبتوں سے فیض حاصل کرو ‘ اسطرح نوجوان بابا فرید ؒ کی ملاقات بخارا میں بے
نیاز خدا مست درویش حضرت اجل شیرازی ؒ سے ملے جو سر سے پاؤں تک عشق الٰہی
کی آتش میں جھلسے ہو ئے تھے الٰہی رنگ اِس قدر غالب تھا کہ دنیا والوں کو
بلکل بھی خاطر میں نہ لاتے ‘ صاحبان اقتدار یا دولت مند اگر اُن کے آستانے
کے قریب سے بھی گزرتے تو شور مچا دیتے کہ خدا کے لیے ادھر نہ آؤ دور ہو جاؤ
میں تم دنیاداروں سے بلکل بھی نہیں ملنا چاہتا ‘ بابا فرید ؒ کو آتا دیکھ
کر استقبال کو دوڑے اور بولے آئیے وقت کے عظیم درویش آئیے ہم تیرا انتظار
ہی تو کر رہے ہیں ۔ یہاں پر جوان بابا فرید ؒ ایک ماہ سے زائد اِس خدا مست
دویش ِ بے نیاز کی صحبت اور توجہ حاصل کر تے رہے ۔ ایک دن بابا فرید ؒ نے
حضرت اجل شیرازی ؒسے پو چھا جناب شیخ آپ کے نزدیک درویش کسے کہتے ہیں تو
اجل شیرازی ؒ حالت جلال میں کھڑے ہوکر بو لے اے دنیا والو سن لو کہ میں بھی
حضر ت جنید بغدادی ؒ کا قول سنتا ہوں کہ اہل دنیا سے امید اور ملاقات رکھنا
اور کوچہ اقتدار کے لوگوں ملاقاتیں کر نا فقیر کے لیے قطعاً حرام ہیں یہاں
پر رہ کر بابا فریداطراف کے جنگلوں بیابانوں میں بزرگوں سے بھی ملے اور ان
کی صحبت سے فیض بھی اٹھا یا ۔ بخارا کی سر زمین پر اہل ڈیوٹی بزرگوں سے
ملتے اپنے حصے کا روحانی لنگر لینے کے بعد اب بابا فرید ؒ بغداد آتے ہیں تو
یہاں پر تاریخ تصوف کے بہت بڑے بزرگ شیخ شہاب الدین سہر وردی ؒ کی بارگاہ
میں حاضرہوتے ہیں یہاں پر شیخ شہاب الدین سہر وردی نے کمال شفقت فرماتے
ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب عوارف المعارف کے خاص حصے خود پڑھ کر فرید الدین
ؒ کو سنائے اہم نکتوں کی وضاحت بھی کی ‘ بابا فرید ؒ جناب شیخ شہاب الدین
سہروردی ؒ کے بارے میں بعد میں فرمایا کر تے تھے کہ شیخ جی کی سخاوت کا عجب
عالم تھا روزانہ دس ہزار دینار تک لنگر خانے میں نذرانہ جمع ہو تا جو شیخ
صاحب ؒ کے حکم پر غریبوں مسکینوں میں تقسیم کر دیا جاتا ‘ سلاطین وقت اور
امرا ء قیمتی تحائف اور دولت لے کر آپ ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہو تے جن کو
فوری طور پر ناداروں محتاجوں میں تقسیم کر دیا جاتا ‘ حضرت شیخ دولت تقسیم
کر نے کے بعد فرمایا کر تے اگر درویش بھی دنیا داروں کی طرح دولت پر نظر
رکھنا شروع کر دیں گے تو اہل دنیا درویشوں کو بھی تونگری کا طعنہ دیں گے
اور حقیقی درویش اِس تہمت کو کبھی بھی بر داشت نہیں کر سکتا درویشی تو خود
فروشی کا نام ہے اِس لیے میں نے خود کو بیچ دیاہے شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ
کے پاس وقت کے بڑے بڑے بزرگ تشریف لاتے ‘ بابا فرید ؒ ان کی صحبتوں سے بھی
فیض حاصل کر تے ‘ شیخ شہا ب الدین سہروردی مرید کو جلدی خرقہ دینے کے حق
میں نہیں تھے آپ ؒ فرمایا کر تے تھے جب تک طالب کے دل سے دنیا کی حرص اور
لا لچ ختم نہ ہو جائے اُس وقت تک مرشد کو کبھی بھی ایسے مرید کو خلافت کا
خرقہ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی مرید کو اُس وقت تک خر قہ پہننا چاہیے یہاں
اپنی روحانی پیاس بجھانے کے بعد بابا فرید سیستان میں پہنچتے ہیں جہاں پر
اُس وقت کے مشہور بزرگ حضرت اوحدالدین کرمانی ؒ رونق افروز تھے جو روحانیت
میں اعلی مقام پر تھے آپ ؒ کی ایک عجیب عادت تھی اگر کو ئی بزرگ اُن کے پاس
آتا تو اپنا روحانی تصرف اور کرامت ضرور دکھاتے ساتھ ہی آنے والے بزرگ سے
بھی مطالبہ کر تے کہ وہ بھی اپنی کرامت دکھا کر اپنے مقام کو واضح کر تے ‘
ایک دن بابا فرید ؒ اُن کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ حضرت اوحدالدین ؒ حسب
عادت بو لے تمام بزرگ اپنی اپنی کرامت دکھائیں پھر خود ہی بولے اِس شہر کا
حاکم مجھے بہت تنگ کر تا تھا آج وہ چوگان کھیلنے گیا ہوا ہے آج وہ زندہ
سلامت واپس نہیں آئے گا ابھی یہ الفاظ حضرت کرمانی ؒ کے لبوں سے آزاد ہو ئے
ہی تھے کہ کسی نے آکر اطلاع دی کہ حاکم شہر گھوڑے سے گر کر مر گیا ہے اہل
محفل حضرت کرمانی ؒ کی کرامت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ‘ اب باقی بزرگوں نے
اپنی اپنی کرامتیں دکھانی شروع کر دیں آخر میں حضرت کرمانی بابا فرید ؒ سے
بو لے اب تم بھی اپنی کرامت دکھاؤ جوان بابا فریدؒ نے بہت عرض کی کہ میں تو
ابھی طالب علم ہوں نہ ہی صاحب کرامت ہوں کہ کچھ دکھا سکوں اِس لیے مجھے
معاف کر دیا جائے لیکن شیخ کرمانی ؒ نے آپ ؒ کے کسی بھی عذر کو ماننے سے
انکار کر دیا اور کہا کہ آپ ؒ ہر حال میں کو ئی کرامت دکھائیں بابا فریدؒ
انکار کر تے رہے لیکن شیخ کرمانی ؒ اصرار کر تے رہے تو مجبور ہو کر بابا
فرید ؒ نے آنکھیں بند کر لیں اور رب حق تعالیٰ کے حضور دل ہی دل میں دعائیں
مانگنے لگے کہ اب گناہ گاروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والے رحیم کریم رب تو
تو جانتا ہے میں گناہ گار سیاہ کار کسی بھی قابل نہیں ہوں لیکن تو میری مدد
فرما بابا فرید آنکھیں بند کئے خدا سے مدد مانگ رہے تھے کہ اچانک آنکھوں کے
سامنے سے سیاہ چادر ہٹ گئی روشنی میں منور مرشد کریم خواجہ قطب الدین
بختیار کاکی ؒ کا روشن چہرہ نظر آیا جو فرمارہے تھے اے فرید تو خدا پر
بھروسہ رکھ وہ وہی تیری مدد کر ے گا اِن بزرگوں سے کہوکہ یہ اپنی آنکھیں
بند کر لیں تو انہیں خود ہی تمہاری کرامت اور روحانی مقام کا پتہ چل جائے
گا پھر مرشد کا چہرہ غائب ہو گیا بابا فرید ؒ نے آنکھیں کھول دیں تو شیخ
کرمانی بولے اے فرید لگتا ہے ابھی تم منزل سے بہت دور ہو تو بابا فرید ؒ
بولے منزل تو میری واقعی دور ہے لیکن آپ اپنی آنکھیں بند کر لیں ‘ دیکھتے
ہیں خدا میری مدد کیسے کر تا ہے اب سار ے بزرگوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں
تو اچانک سارے بزرگوں کے سامنے حجابات اٹھتے چلے گئے تاریکیاں دور ہو تی
گئیں کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب سینسان کے بجائے خا نہ کعبہ میں موجود ہیں
اور طواف کعبہ کر رہے ہیں جوان فرید ؒ بھی بزرگوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں
موجود ہیں تمام بزرگ خوشگوار حیرت سے طواف کعبہ کر رہے تھے پھر جب درویشوں
نے آنکھیں کھولیں تو سب شیخ کرمانی ؒ کی خانقاہ سیستان میں موجود تھے حضرت
شیخ کرمانی ؒ بے اختیار پکار اٹھے واہ اے جوان درویش تجھے اتنا اعلیٰ مقام
اِس چھوٹی سی عمر میں کیسے ملا تو بابا فرید ؒ گلو گیر لہجے میں آنسو بر
ساتی آنکھوں سے بولے یہ تو میری مرشد کی اک نگاہ کا کما ل ہے جو فقیر کو
بروقت یاد رکھتے ہیں۔
|