پاکستان میں مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن کے
علاج کیلئے مناسب سہولیات میسرنہیں ایک رپورٹ کے مطابق امراض قلب کی وجہ سے
ہرگھنٹے میں 40لوگ اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں ۔کتے کے کاٹنے کی وجہ سے لوگ
مررہے ہیں جس کی ویکسین پاکستان میں موجودنہیں اوراس ویکسین کی عدم دستیابی
چیخ چیخ کرہمیں محکمہ صحت کی کارکردگی ہمیں بتارہی ہے۔موسم کی تبدیلی کی
وجہ سے بارش ہوتی ہے توشہرودیہی علاقوں میں مچھروں کی بہتات شروع ہوجاتی ہے
جس کی وجہ سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں ایک ڈینگی ہے۔ ایسی بیماری
جس کی وجہ سے مریض کوایک دم تیزبخار،شدیدسردرد،جوڑوں میں درد،پیٹ میں
درد،خونی الٹیاں اورخونی پیچش لگ جائیں توسمجھ لیں کہ اس پرڈینگی وائرس
لاحق ہوگیاہے اس بیماری کوآسان سمجھنے والے یا ڈینگی مچھرکوعام مچھرسمجھنے
والے اس دنیاسے رخصت ہوکے چلے گئے ڈینگی کی تحقیق 1975میں ہوئی جب
افریقہ،ایشیا اورشمالی امریکہ میں ایساوائرس لوگوں میں نظرآنے لگاجسے پہلے
پہل لوگوں نے عام سمجھ کرنظراندزکیامگرجب اسی وائرس کی وجہ سے لوگ مرنے لگے
تب لوگوں نے ایسے علاقوں سے ہجرت شروع کردی آخرکارتحقیق کے بعدیہ بات واضع
ہوئی کہ ایک خاص قسم کا مچھرجس کی وجہ سے ڈینگی ہوتاہے۔تقریباً دوہفتے ہونے
کوآئے ہیں لوگوں میں ڈینگی کی وجہ سے خو ف دیکھاجارہاہے کیونکہ اس ایک مچھر
کی وجہ سے پنجاب بھرمیں کئی اموات کی خبریں مل رہی ہیں۔ڈینگی کے ایشوپرکئی
لوگ لکھ رہے ہیں تومیرے چاہنے والوں نے مجھ پرحکم صادرفرمادیاکہ اس مسئلے
پرلکھناچاہیے تومیں نے اپناقلم اٹھالیااورکئی دنوں کی محنت کے بعدمعلومات
حاصل کی توڈینگی پرلکھنے کی چھوٹی سی کوشش کی ۔جب ارباب اختیاراورمحکمہ صحت
کواس حقیقت کاادراک ہے کہ حالیہ موسم میں ڈینگی وائرس سراٹھاتاہے تواس
کیلئے پہلے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے تاکہ اس بھارت نمادشمن بیماری سے
بچاجاسکے مگرافسوس کہ جب ڈینگی وائرس لوگوں کی زندگیاں ختم کرنے لگا
پھرہماری حکومت اورمحکمہ صحت کوخیال آیا کہ اس پرقابوپانا چاہیے ایک رپورٹ
میں پڑھاکہ دنیابھرمیں 20کروڑ لوگ ملیریاکے مرض میں مبتلاہوجاتے ہیں
اورپاکستان میں ملیریاکے مریضوں کی تعداد10لاکھ رپورٹ ہوئی ہے اتنی صدیاں
گزرنے کے بعدبھی انسان ایک مچھرسے نمٹنے کیلئے کوئی خاطرخواہ علاج دریافت
نہیں کرسکا۔ویسے توہماری زندگی میں کوئی بھی مسئلہ ہوہماری غفلت کی وجہ سے
ہم اسے مول لے لیتے ہیں ڈینگی بھی ان میں سے ایک ہے باربارڈینگی کی شکایت
ہمیں مطلع کررہی ہے کہ اس پرکنٹرول نہ کیاتوملک میں 10,20نہیں سینکڑوں
اموات ہونگی ۔ایک رپورٹ پڑھنے کاموقع ملاتواس میں ڈینگی کے بارے کچھ یوں
لکھاتھاکہ ایشیائی ممالک،جنوبی ایشیا،شمالی افریقہ ،لاطینی،خلیج ،میکسیکو،امریکہ،کانگو،برازیل،تھائی
لینڈ،تائی وان کے ممالک میں ڈینگی نے کہرام مچاکے کئی ہزارلوگوں کی زندگی
کوڈکارمارگیا ان ملکوں کی عوام کوآہستہ آہستہ ختم کرنے کے بعداب ہمارے ملک
کارخ کرلیاہے اب تک 350کے قریب ڈینگی کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں کراچی میں
2025کے قریب ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی رپورٹ سامنے آئی ہے ڈینگی بخار سے
دیہی علاقے کے لوگ لاعلم ہیں اس وجہ سے یہ ہمارے لیے کسی دشمن سے کم نہیں ۔ہماری
پیاری حکومت کواپنی عوام کااتناخیال ہے کہ پوراملک گندگی کی لپیٹ میں ہے
گلی گلی محلے محلے میں گٹروں کی وجہ سے جھیلیں بنیں ہوئی ہیں اورہمارے
حکمران اپنے علاقوں میں الیکشن کے دوران آئیں گے جب ان کے ٹاؤٹ ان گلی محلے
کوان کے لائق بھی بنادیں گے مگراس سے پہلے اس گندگی اورگندے پانی کی وجہ سے
کچھ لوگ ڈینگی کی بھینٹ چڑھ چکے ہوں گے ابھی توسب خواب خرگوش کے مزے لے رہے
ہیں جب عام عوام کوپتہ ہے ہمارے حکمرانوں نے ہم پرترس نہیں کرناتوہمیں
خوداپنی حفاظت کابندوبست کرکے اپنی اوراپنے پیاروں کی جان بچانی چاہیے اس
کیلئے بتاتاچلوں کہ یہ خاص مچھرکھڑے ہوئے پانی میں انڈے دیتے ہیں خاص
کرپرانے کباڑمیں موجودپانی،کئی روز سے کھڑاپانی،روم کولرزکاپانی، گملوں
کاپانی ،ٹوٹے ہوئے برتن،فرنیچروغیرہ کی وجہ سے ان کی پیدائش میں اضافہ
ہوتاہے اس لیے ہمیں اپنے علاقے اورگھروں میں پانی کھڑانہ ہونے دیں پورے جسم
پرمچھرمارادویات ،کوائل،فریج سے فارغ ہونیوالا پانی زیادہ دیرنہ رہنے دیں
گھروں میں باقاعدگی سے مچھرمارسپرے کروائیں کیونکہ ان کی وجہ سے ڈینگی کی
نشونمارک جاتی ہے اورسوتے وقت مچھردانی کااستعمال ضرورکریں ۔ڈینگی چینی
زبان کالفظ ہے جس کے معنی گندی روح کی بیماری کے ہیں جیساکہ اوپربتایاگیاہے
کہ اس بیماری کو1975میں دریافت ہوئی مگر1980تک اس بیماری کی وجہ سے 40لاکھ
افرادہلاک ہوچکے تھے اوران ہلاک ہونے والوں میں 16سال سے کم عمربچوں کی
تعدادزیادہ تھی پاکستان میں اس بیماری کی شناخت 1995میں ہوئی جب 150کے قریب
اس کی وجہ سے متاثرہوئے اورایک ہلاکت ہوئی اگر2008میں ڈینگی کے مریضوں کی
تعداد1400کے قریب پہنچ گئی اوراگرہم نے صفائی نصف ایمان کونہ اپنایاتوڈینگی
کی رفتار2025تک لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔
|