عمرہ کی سعادت

بلا شک و شبہ ہر مسلمان کی یہ خو اہش ہو تی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حر مین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل کر لے ۔یقینا وہ لو گ خو ش نصیب ہو تے ہیں جنہیں مکہ معظمہ اور مد ینہ منو رہ جانے اور وہاں خا نہ کعبہ اور رو ضہ رسول پر حا ضری دینے کا مو قع ملتا ہے۔پچھلے دنو ں مجھے بھی عمرہ ادا کرنے کی سعادت حا صل ہو ئی۔جس کے لئے میں ا للہ تعا لیٰ کا شکر گزار ہو نے کے ساتھ ساتھ اپنے بھتیجے ڈاکٹر حاجی محمد اقبال کے تعاون کا بھی شکر گزار ہوں۔ جنہو ں نے مالی مد د فراہم کر کے مجھے یہ مو قعہ عظا کرنے میں تعاون کیا۔ا للہ تعا لیٰ اسے اسے اس کا اجر عطا فر مائے۔ تحریر ہذا کا مقصد یہ ہے کہ اسے پڑھ کر شا ید کسی کے دل میں خا نہ کعبہ اور مسجد نبو ی کی ز یارت کرنے کے طلب میں اضافہ اور شوق دیدار میں جنون پیدا ہو جائے۔

بفضل خدا ہم ایک ہی گھر سے چار افراد یعنی میرا بڑا بھا ئی محمد غلام،بھا بی،اقبال اور خا کسار اسلام آباد سے جدہ روانہ ہو ئے، اسلام آباد ائیر پورٹ پر ہی احرام با ندھے۔ احرام با ندھتے ہی انسان اندر سے ایک خا ص قسم کی تبد یلی کے آ ثار محسوس کرنے لگ جا تا ہے۔ جدہ ایئر پورٹ پر ا ترنے کے بعد ہم ایک بس میں مکہ مکر مہ روانہ ہو ئے۔رات تقر یباً دو بجے پہنچے،اپنا سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھا اور حرم شر یف کی طرف روانہ ہو گئے جو صرف چند سو گز کے فا صلے پر وا قع تھا، چند منٹوں میں ہم حرم شر یف کے شاہ عبد ا لعزیز گیٹ پر پہنچ گئے،اندر دا خل ہو ئے،خا نہ کعبہ پر نظر پڑی تو بے اختیار آ نکھو ں سے آنسو چھلک پڑے۔جس مقام کی طرف بچپن سے منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے،جس مقام کے متعلق کتابوں میں بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔آج وہ مقام آ نکھو ں کے سا منے تھا ،یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

جیسے یہ سب کچھ ہم خواب میں دیکھ رہے ہوں۔دعا کے لئے ہا تھ اٹھے مگر ہو نٹ لر ز رہے تھے،بد ن پر کپکپی طا ری تھی،ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے لفظوں میں بیا ن کر نا میرے لئے ممکن نہیں۔ طواف،نفل، سعی اور حلق و غیرہ کی ادائیگی کے بعد فجر کی نما ز وہا ں خا نہ کعبہ میں ادا کی تو اس کا لطف ہی کچھ اور تھا۔

مکہ مکر مہ میں تین دن قیام کے بعد ہم مدینہ منو رہ روانہ ہو گئے، مد ینہ منو رہ مکہ سے چا ر سو پچاس کلو میٹر کے فا صلے پر وا قع ہے،وہاں پہنچے تو تقر یباً عصر کا وقت ہو چکا تھا ،اپنا سا مان ہو ٹل کے کمرہ میں رکھنے کے بعد فو راً مسجد نبو ی کا رخ کیا، عصر کی نما ز وہا ں پڑھی،اور رو ضہ رسول پر حا ضری دی ،البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پیش کر تے ہو ئے میری حالت غیر ہو چکی تھی،آنکھوں سے آ نسو رواں تھے،زبان پر درود شر یف کا ورد جا ری تھا،ایک عجیب سی کیفیت تھی،جسے لفظو ں میں بیا ن کرنا ممکن ہی نہیں ۔مدینہ میں میں ہم نے کو ئی آٹھ دن گزارے۔وہاں مقیم ہما رے گا ﺅں (ڈیلی میلہ) کے باسی جناب شعیب صاحب، محترم زیور جان،اصل خان اور اصغر وغیرہ نے ہما رے قد ر دانی میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی،انہو ں نے حق کلی والی اور حق خٹکی ادا کیا۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔اس دوران ایک محیر العقول واقعہ کا بھی ہم نے مشا ہدہ کیا جس کا بیان کرنا خا لی از دلچسپی نہیں ۔ہوا یوں کہ شعیب صاحب نے ایک دن ہمیں کہا کہ کل تمھیں ایک ایسی جگہ نہ لے چلوں؟ جہاں انسانی عقل جواب دے جاتی ہے؟ہم نے کہا ،ضرور لے چلئے۔خیر اگلے دن صبح آ ٹھ بجے کا ٹا ئم طے ہوا ۔ اگلے دن وہ ہمیں مدینہ سے کو ئی پچیس کلو میٹر دور ایک ایسے علاقہ میں لے گئے جس کو عرف عام میں َوا دی جن ،،کے نام سے پکا را جاتا ہے۔

ایک جگہ جہاں اترائی تھی،اس نے گاڑی روک دی اور کہا کہ اب ملا حظہ کیجئے،یہاں پر گا ڑی خود بخود نیو ٹرل گیئر میں ریو رس ہو کر چڑ ھا ئی پر چڑھے گی۔ہم نے بڑے غور سے اور دلچسپی کے ساتھ دیکھا کہ گاڑی واقعی خود بخود پیچھے کی طرف چلنے لگی ہم حیران، گاڑی کی ڈ رائیور سیٹ میں نے خود سنبھالی ،مگر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔آگے وہ ایک ایسی جگہ ہمیں لے گیا جہا ں گا ڑی کو روک کر اس نے نیو ٹرل گیئر میں ڈالا، گاڑی خود بخود روانہ ہو ئی ،کچھ فا صلہ طے کر نے کے بعد گا ڑی کا سو ئچ آف کیا مگر گاڑی کی رفتار بڑھتے بڑ ھتے ایک سو بیس کلو میٹر تک جا پہنچی۔ واضح رہے کہ سڑک با لکل ہموار تھی ،ڈھلوان نہیں تھی۔ہم یہ سب کچھ دیکھ کر انگشت بد انداں تھے۔یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ عرب کی مقد س سر زمین پر جگہ جگہ معجزاتی اور کر شماتی نظا رے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جہاں عقل با لکل دنگ رہ جاتی ہے۔قدم قدم پر اللہ کی رحمتیں بر ستی ہیں ۔ خا نہ کعبہ اور رو ضہ رسول پر انسان کی جو ذ ہنی کیفیت بنتی ہے اسے تو احا طہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں۔۔

میں اپنے تمام قا رئین سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ زند گی میں جب بھی حر مین شر یفین کی زیارت کی تو فیق مل جائے تو فو ری طور پر مکہ مکر مہ اور مدینہ منو رہ جانے کا پر و گرام بنا ئیں،سننے، پڑ ھنے اور دیکھنے میں بہت بڑا فرق ہے۔وہا ں جا کر مختلف مقامات کی زیا رت کرنے سے جو کچھ حاصل ہو تا ہے،وہ حیران کن اور نا قابل بیان ہے۔اللہ تعا لیٰ ہم سب کو بار بار حر مین شر یفین کی زیارت نصیب فرمائے۔آمین
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315799 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More