میں اپنے بھائیوں کے ساتھ گاڑی
میں بیٹھا کراچی کے سفر سے لُطف اندوز ہورہا تھا کہ میرے ایک چھوٹے بھائی
نے دورانِ سفر ایک ایسی بات کہی جس نے مجھے حیرت زدہ کردیا اور بات ہی ایسی
تھی کہ کوئی بھی چونک جائے۔۔۔۔۔
دراصل وہ خُوابوں کو بیچنے کی بات کر رہا تھا۔۔
اب آپ ہی کہیئے اگر کوئی آپ سے آپکے خُواب خریدنا چاہے تو آپ کا ردِ عمل
کیا ہُوگا۔
یہ خُواب ہی تُو ہوتے ہیں جو آپکی زندگی میں مہمیز کا کام دیتے ہیں یہ کسی
کا خُواب ہی تُو تھا کہ مسلمانوں کا ایک اپنا مُلک ہُونا چاہیئے جہاں تمام
مسلمان آزادی کیساتھ عبادت کرسکیں اور وہ خُواب حقیقت کا رنگ پا کر پاکستان
بن گیا ۔ اگرچہ اس خُواب کو دہشتگردوں نے مساجد اور مزاراتِ اولیا ءَاللہ
پر خُود کش حملوں کے ذریعے پاکستانی مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی ناکام
کوشش کی ، کہ دیکھ لو ہندوؤں کی غُلامی سے نجات پاکر بھی تُم آزادی سے اپنی
عبادت گاہوں میں عبادت نہیں کرسکتے وہاں ہندوؤں سے تُمہارا مُقابلہ تھا
جِنہیں تُم اُنکی مذہبی شناخت کی بدولت پہچان لیا کرتے تھے لیکن یہاں ہم
میر جعفر اور میر صادق کی طرح تُمہاری جڑوں کو کُھوکھلا کرتے رہیں گے اور
تُم ہماری پہچان حاصِل کرنے کیلئے دشواریوں کے بِحرِ بیکراں سے گُزرتے رَہو
گے۔ لیکن بقولِ شاعر ،، پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا۔۔
میرے والد صاحب نے 1970 میں جب اپنی کاروباری زندگی کا سفر شروع کیا تھا تب
نہ اُنکے پاس گاڑی تھی نہ کوئی بنگلہ یہاں تک کہ اپنا کوئی روزگار کا
ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن اُنکی آنکھوں میں ایک خُواب ضرور تھا ۔
پھر اُسی خُواب کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے اپنے ہی بھائیوں سے 4 ہزار روپے
کی قلیل رقم بطور قرض حاصِل کی اور رات دِن کی مِحنت نے بلآخر 16 برس بعد
اُنہیں اس قابل بنا دِیا کہ اُنہوں نے اپنی پہلی فیکٹری کا سنگ بُنیاد رکھ
دیا۔ اُنہوں نے کبھی بھی اپنے خُوابوں کی تعبیر پانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ
اِختیار نہیں کیا نہ ہی اُنہیں میں نے کبھی جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ کبھی
اپنے وعدے سے پلٹتے دیکھا ۔۔
بابا کے خُواب کو تعبیر مِلتے مِلتے ہم چھ بھائی بھی جوان ہوتے چلے گئے اور
جب یہ فیکٹری تیار ہوئی تُو بابا اکیلے نہیں تھے بلکہ ہم سب بھائی اُنکے
بازو بن چُکے تھے اور جب اتنے سارے بازو کام کریں تو ترقی کی راہ بھلا کُون
رُوک سکتا ہے۔
اِس لئے صرف 10 برس بعد ہی ایک اور عظیم الشان فیکٹری معرض وجود میں آگئی
جو پہلی فیکٹری سے تقریباً 20 گُنا بڑی تھی پھر میری طبیعت کُچھ تنہائی
پسند ہوگئی سُو فیکٹری چھوڑ چھاڑ کر2000سنہ میں ایک کچی پکی بستی میں اپنی
ایک الگ ہی دُنیا بنا ڈالی ۔ اور 9 برس کا عرصہ بیت گیا ۔ اب بابا کی طبیعت
خراب تھی اور وہ کراچی میں ایڈمِٹ تھے جب مجھے معلوم ہُوا کہ بھائی بابا کے
پاس جا رہے ہیں تُو مُجھ سے بھی رَہا نہ گیا اور میں اُن کیساتھ کراچی چل
دِیا لیکن بھائی نے دوران سفر جب مجھے یہ اِطلاع دِی کہ بابا والی فیکٹری
کو بیچ رہے ہیں تو مجھے اُس وقت ایسا مِحسوس ہُوا جیسے کِسی نے میرے سینے
پر گھونسہ دے مارا ہُو۔
لیکن آخر ایسا کیا ہُوگیا ہے جو بابا کی فیکٹری بیچنے کی نوبت آگئی ہے؟ میں
نے اُسی بھائی سے استفسار کیا جس نے یہ اطلاع مجھ تک پُہنچائی تھی۔
عشرت بھائی آپ تو تمام ذمہ داریوں کا وزن ہمارے کاندھوں پر ڈال کر خُود سب
سے الگ تھلگ درویشی کی زندگی گُزار رہے ہیں۔ جبکہ ہم لوگ بڑی فیکٹری کے
جھمیلوں سے نہیں نِکل پاتے اور بابا کی طبیعت کی ناسازی کا تُو آپکو بھی
عِلم ہے بس اِسی بات کا فائدہ کُچھ مفاد پرست لوگوں نے خُوب اُٹھایا وہ
آہستہ آہستہ بابا کے قریب ہوتے چلے گئے اور بابا کو اُن لوگوں نے اپنی چکنی
چپڑی باتوں میں ایسا اُلجھایا کہ بابا اُنہی کی باتیں مان کر انویسٹ کرتے
رہے یہاں تک کہ بابا کی تمام انویسٹمنٹ ٹھکانے لگا کر وہ سب مال سمیٹ کر
رفو چکر ہوگئے۔
اب تُو ڈاکٹروں نے بھی سختی سے منع کردِیا ہے کہ بابا کسی کاروباری اُلجھن
میں نہ پڑیں۔ ورنہ اُنکی صحت مزید بِگڑ سکتی ہے۔ اس لئے بابا والی فیکٹری
کو بیچنے کا فیصلہ سب کی مشاورت سے کیا گیا ہے!
لیکن بھائی وہ فیکٹری تُو بابا کا پہلا خُواب تھی کتنی مشقت سے اُنہوں نے
اسکی بنیاد رکھی تھی۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو یاد دِلاتے ہُوئے کہا۔
یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ہم بڑی فیکٹری کو ہی
بمشکل سنبھال پاتے ہیں ۔ عشرت بھائی ایک بات کہوں بُرا نہ منائیے گا اگر
آپکو بابا کے خُواب کی اتنی ہی پرواہ ہے تُو آپ خُود یہ فیکٹری کیوں نہیں
سنبھال لیتے ؟ چھوٹے بھائی نے جھجکتے ہوئے اپنے دِل کی بات کہہ ہی ڈالی۔
تُم جانتے ہُو مجھے فیکٹری چلانے میں کوئی دِلچسپی نہیں ہے مجھے چھوٹے موٹے
کام پسند ہیں بس میرا گُزارہ ہوجاتا ہے اور میرے بچوں کا بھی۔۔۔ میں نے
اُسے ٹالتے ہوئے کہا۔
آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ ذمہ داریوں سے مُنہ چُراتے ہیں؟ اُ س نے
اگلا تیر نِشانے پر داغتے ہوئے کہا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے بس میری طبیعت نہیں مانتی میں نے آنکھیں موندتے ہوئے
اپنا آخری فیصلہ سُنا ڈالا۔
لیکن میرا یہ جواب آخری فیصلہ ثابت نہ ہُوسکا اُسکے بعد گھر والوں کا چاروں
جانب سے فیکٹری کا چارج سنبھالنے کا پریشر اِس تواتر سے مجھ پر آیا کہ اگلے
چند دِنوں میں مجھے حامی بھرنی ہی پڑی۔
فیکٹری کا چارج سنبھالتے ہی جن دو مسائل کا مجھے سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھے۔
پہلا،، فیکٹری کی اصل پونجی مفاد پرست لوگ بابا سے ہتھیا کر کے لیجا چُکے
تھے اور اب فیکٹری کا اپنا ذاتی بیلنس زیرو تھا۔
اور دوسری پریشانی یہ تھی کہ کہ بابا نے فیکٹری کیلئے بنک سے لمٹ لے رکھی
تھی ۔جِسے بنک ریونیو کرانا چاہتی تھی۔
میں نے بھائیوں کو بُلا کر صاف صاف کہہ دیا کہ سب سے پہلے بنک کی لمٹ ختم
کرائیں میں اللہ کریم اور اُسکے مدنی محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دُشمنی
کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اُن میں سے ایک چھوٹے بھائی مجھے سمجھانے لگے فیکٹری چلانے کیلئے کروڑوں
روپیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ بابا کا ذاتی پیسہ تو خُرد بُرد ہوچُکا ہے اگر بنک
کی لِمٹ بھی ختم کرا دی تو فیکٹری کیسے چلاؤ گے؟ بنک کی مدد کے بِنا
فیکٹری چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ نامُمکن ہے۔
میں نے کہا جِس نے مُجھے اِس کام کے لئے چُنا ہے وہی اِسے چلانے کی بھی
سبیل پیدا فرما دے گا بہرحال پھر اِتفاق رائے سے سب ہی اِس بات پر رضامند
ہوگئے کہ بنک کی لِمٹ خَتم کرا دِی جائے اور الحمدُ للہ چند ہی دِنوں میں
یہ فیکٹری بنک کے چُنگل سے آزاد ہو ہی گئی۔
بہرحال کسی نہ کسی طرح محدود سرمائے سے دوبارہ فیکٹری کی ابتدا ہو گئی
۔لیکن میرے پاس اتنی بھی رقم نہیں تھی کہ تین دِن کا ہی خام مال فیکٹری
کیلئے خرید سکوں لیکن بس ایک اُمید تھی کہ اللہ کریم مجھے ناکام نہیں کرے
گا۔
تبھی ایک دِن میرے ایک دوست سلیم صاحب میری فیکٹری میں آئے اور مجھے ایک
بڑی خُوشخبری سُنائی ۔ وہ کہنے لگے عشرت بھائی کل میں نے ایک جگہ پر آپکا
تذکرہ کیا تھا وہاں ایک بُہت امیر کبیر شخص بھی موجود تھا آپکا تذکرہ سُن
کر کہنے لگا ۔ کیا آجکل کے دُور میں بھی ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں ۔ جو
سبب کو ٹھوکر مار کر توکل کی راہ پر چلتے ہیں،، بس وہ بُہت مُتاثر ہوا ہے
آپکی کہانی سُن کر اور وہ آپکے کاروبار میں ایک خطیر رقم انویسٹ کرنا چاہتا
ہے میں نے شام کا وقت دیا ہے آپ کہیں جائیے گا نہیں مجھے قوی اُمید ہے آپکا
روپیوں کی کمی کا مُعاملہ حل ہوجائے گا۔
اُس شام کا انتظار مجھے بھی بڑی چینی سے رہا۔ شام ہوتے ہی ایک بڑی سی گاڑی
عین میرے آفس کے سامنے آکر رُکی سلیم بھائی کیساتھ ایک خُوش لباس شخص بھی
گاڑی سے برآمد ہُوا میں نے اُٹھ کر بڑے تپاک سے مُلاقات کی سلام دُعا کے
بعد ہلکی پھلکی ریفیریشمنٹ کا انتظام تھا ۔ تمام تکلفات سے فارغ ہونے کے
بعد اُن صاحب نے اپنا تعارف جمال کے نام سے کروایا پھر وہ کہنے لگے ۔۔ عشرت
صاحب میں آپکے خیالات اور جذبات کو قدر کی نِگاہ سے دِیکھتا ہُوں اور مجھے
بڑا اشتیاق تھا کہ میں آپ سے مُلاقات کروں اور مجھے بے حد خُوشی ہوگی اگر
میں آپ کے کاروبار میں آپکا جُز وقتی پارٹنر بن جاؤں ۔آپ جیسے لوگ آجکل
کہاں مِلتے ہیں میرے پاس کروڑوں روپے ہیں اور کاروبار میں انویسمنٹ کرنا
چاہتا ہوں جبکہ آپ کے پاس تجربہ بھی ہے اور فیکٹری بھی لیکن انویسمنٹ نہیں
ہے اگر ہم دونوں مِل جائیں تو دونوں کا ہی بھلا ہوجائے گا مجھے یہ سکون رہے
گا کہ میرا پیسہ ایک دیانتدار انسان کے پاس ہے اور آپ کی پریشانی بھی حل
ہوجائے گی۔
آپ کو جتنی بھی رقم کی ضرورت ہو مجھے حُکم کریں۔ میں وہ رقم مُہیا کردونگا
بس آپ جتنا بھی خام مال خریدیں منافع میں دس فیصد کا مجھے شریک بنالیں باقی
نوے پرسنٹ منافع آپکا ہوگا ۔ مجھے یہ آفر سُن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں
آرہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھ سے پچاس پرسنٹ یا کم از کم پچیس پرسنٹ
مُنافع کی ڈیمانڈ کی جائے گی جِس کے لئے میں ذہنی طُور پر تیار بھی تھا
لیکن یہاں تُو مجھ سے صرف منافع کا دسواں حصہ مانگا جارہا تھا ۔میں نے بلا
تاخیر ہاں کردی اور اسطرح ہمارا زُبانی مُعاہدہ طے پا گیا اب چند دِنوں میں
اِس مُعاہدے کو تحریری شکل دِی جانی باقی تھی۔
میں نے جمال کے جانے مغرب کی نماز ادا کی اور اللہ کریم کی بارگاہ میں
شُکرانے کے نوافل ادا کئے حالانکہ میں جانتا ہی نہیں تھا کہ میری آزمائش کا
دُور شروع ہوچُکا ہے۔
دوسرے دِن سے جمال کی پیمنٹ سے مال آنا شروع ہوگیا اور یُوں فیکٹری میں خام
مَال کی ریل پیل ہوگئی۔ تیسرے دِن جمال صاحب اچانک مُلاقات کیلئے چلے آئے
میں نے بڑے تپاک سے پھر اُنکا استقبال کیا اور اُن سے خُوب گپ شپ لگائی۔ جب
وہ جانے لگے تبھی میرے ایک دیرینہ دوست مجھے فیکٹری کی مُبارکباد دینے چلے
آئے جمال کے جانے کے بعد میرے وہ دوست مجھے کُچھ پریشان دِکھائی دیئے میں
نے پریشانی کا سبب دریافت کیا تُو وہ کہنے لگے عشرت بھائی یہ سیٹھ جمال ہی
تھا یا مُجھے کُچھ غلط فہمی ہورہی ہے؟
میں نے کہا آپ کا ندازہ بالکل ٹھیک ہے یہ سیٹھ جمال ہی تھے مگر آپ اِنہیں
کیسے جانتے ہیں؟
وہ کہنے لگے مُجھے خُود سمجھ نہیں آرہا کہ سیٹھ جمال آپکا دوست کیسے ہوسکتا
ہے اور یہ یہاں کیا کر رہا تھا؟
کیوں خیریت تُو ہے نا؟ اور آپ اتنا بُوکھلا کیوں رہے ہیں سیٹھ جمال کو یہاں
دیکھ کر۔ میں نے اُنکی پریشانی کو بھانپتے ہُوئے دریافت کیا ۔
عشرت بھائی کیا آپ جانتے ہیں کہ سیٹھ جمال کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے؟
اور یہ ہمیشہ مسلمانوں کو پیسہ کے بل پر ایذا دیتا رہتا ہے! اور قادیانی
جماعت کی جانب سے جو شرارتیں اور گُستاخیاں کی جاتی ہیں اُس کے لئے بھی
سرمایہ سیٹھ جمال ہی مُہیا کرتا ہے۔
اپنے دوست کے مُنہ سے یہ انکشافات سُن کر میں اپنی سیٹ سے اُچھل پڑا مجھے
ایسا مِحسوس ہُوا جیسے ہزاروں بچّھوں نے یک بیک مجھ پر حملہ کردیا ہو۔
وہ تمام رات میں جاگتا رَہا اور میری آنکھیں سسکتی رہیں مجھے اپنے وجود سے
بھی گھن آنے لگی تھی میں ایک قادیانی سے انجانے میں ہاتھ مَلا چُکا تھا اور
صرف اتنا ہی نہیں میں دھوکے میں اُسکی تکریم کئے جارہا تھا اور اب یہ سوچ
سُوچ کر میری رُوح کانپ رہی تھی کہ کل بروز مِحشر اپنے پیارے آقا کریم (صلی
اللہ علیہ وسلم) کے رُوبرو شفاعت کیلئے کِس طرح حاضر ہُو پاؤں گا اگر انہوں
نے فرما دیا کہ اقبال بس اتنی مُحبت تھی ہم سے کہ چند ٹکّوں کی خاطر تم نے
ہمارے دشمنوں سے، ہماری نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے ہاتھ مِلا لیا۔ مجھے
اور میری اُمت کو ایذا دینے والوں کو دوست بنالیا اور اُنکی تعظیم کرنے لگے
۔اور تُم نے یہ بھی نہ سُوچا کہ تُمہارے اِس عمل سے ہمیں کتنی تکلیف پُہنچی
ہوگی اور اب کس ڈھٹائی سے ہمارے حضور کھڑے ہُو کہ ہم تُمہاری سفارش کردیں۔
اور میں تصور ہی تصور میں اللہ کے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارگاہ
میں انجانے میں سرزد ہوئے اپنے جُرموں کی مُعافی مانگتا رہا ۔ روتے روتے
میری آنکھیں سُرخ ہو گئیں یہاں تک کہ اچانک میرے سینے میں سکون اُترنے لگا
اور میں ایک نتیجے پر پُہنچ گیا۔
صُبح ہوتے ہی میں نے سلیم بھائی کو فیکٹری بُلایا اور اُن سے کہا کہ اپنے
دوست سے کہہ دیں کہ آئندہ میری فیکٹری میں وہ داخل ہونے کی بھی کوشش نہ کرے
اُنکی جتنی بھی رقم مجھ پر واجب الادا ہے وہ میں کل تک آپ کو دے دونگا۔
سلیم بھائی میری بات سُن کر گھبرا گئے کہنے لگے عشرت بھائی کیا غضب کر رہے
ہیں آپ ،آجکل اتنی آسانی سے اتنی بڑی پارٹی کہاں مِلتی ہے کیوں اپنے
کاروبار کو داؤ پر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں آپ؟
میں نے کہا سلیم بھائی آپ جانتے تھے کہ وہ قادیانی ہے پھر بھی اُسے میرے
پاس لے آئے حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ میں بھوکا رہنا پسند کر لونگا لیکن
کِسی دُشمنِ مُصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ٹکڑوں پر پلنا گوارہ
نہیں کرونگا۔
عشرت بھائی یقین کیجیے مجھے اگر معلوم ہوتا کہ وہ قادیانی ہے تُو ہرگز اُسے
ساتھ نہیں لاتا ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ مجھے ایک مرتبہ شک ضرور ہُوا تھا
کہ کہیں سیٹھ جمال قادیانی تو نہیں ہے۔ اب اگر آپ نے تصدیق کرلی ہے تو
واقعی لعنت بھیجیں اُس پر ۔ میں کل ہی اُس کی رقم لوٹا کر ہمیشہ کیلئے خُود
بھی اُس سے کنارہ کرلوں گا۔
میرے اِس فیصلہ پر میرے بُہت سے احباب نے نقطہ چینی بھی کی اور مجھے بےوقوف
بھی گردانا لیکن خُدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جب میں نے بے سروسامانی کی
حالت میں اُس غلیظ شخص سے ناطہ تُوڑا تب سے اللہ کریم نے میری غیب سے ایسی
مدد فرمائی کہ لوگ نوٹوں کی جھولیاں بھر بھر کر میرے پاس آتے اور میں اُن
سے معذرت کرلیتا کہ میرے پاس فیکٹری کی ضرورت سے زیادہ رقم موجود ہے اس لئے
آپ اپنی رقم کہیں اور انویسٹ کرلیں جو لوگ مجھے قریبی طور پر جانتے ہیں وہ
یہی کہتے ہیں کہ کسی کو مانگنے پر نہیں مِلتے اور اس شخص کے پاس لوگ خُود
لاتے ہیں اور یہ لوگوں کو واپس لوٹا دیتا ہے۔ |