کرپشن کے خاتمے میں نیب کا اہم کردار․․!

بہت سے ممالک میں کرپشن پر زیروٹا لرنس ہے۔پاکستان کرپشن کے حوالے سے دنیا میں ممتازحیثیت رکھتاہے۔ملک بھر میں عجیب و غریب فضا بنی ہے۔سماج کا ہر طبقہ آہ و فغاں کر رہا ہے ۔ملکی معیشت بحرانی صورت حال میں ہے ۔بدقسمتی سے حکومت کی باگ ڈور بھی ان ہاتھوں میں ہے،جو سیاست اور انتظامی معاملات سے بے خبر ہیں ۔اسی لئے ریاست کی گاڑی پٹری سے اتر رہی ہے ۔بہ ہر حال اسے سنبھالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ یہاں بے لاگ احتساب کیا جائے ۔

پاکستان میں بڑے بڑے مافیا زنے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی قوت نا قابل تسخیر کر لی ہے۔72برسوں سے تمام حکومتیں احتساب کرنے میں نا کام رہی ہیں ۔اس المیے میں اداروں کا مصالحتی انداز کا کلیدی ہاتھ رہا ہے ۔کیونکہ اشرافیا مافیاز کا دوسرا نام بن چکا ہے۔جو خوفناک حد تک طاقت ور ہو چکے ہیں ۔نیب کا وجود کرپٹ مافیاز کو نکیل ڈالنے کے لئے ہے ۔ماضی میں اسے احتساب کے بجائے حکمرانوں نے سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لئے استعمال کیا۔موجودہ نیب ماضی سے مختلف ہے ۔یہاں میرٹ پر کام ہو رہا ہے ۔اسی لئے سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔

پاکستان وہ ملک ہے جہاں زیادہ تر سیاست دانوں ،سرکاری اعلیٰ عہدیداروں،تاجروں ،صنعت کاروں اورچھوٹے بڑے کرپٹ مافیاز کے اثاثوں اور آمدن میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ٹیکس وہ نہیں دیتے ۔منی لانڈرنگ بے لگام کرتے ہیں ۔بیرون ممالک اربوں ڈالرز کے اکاؤنٹ اور جائیدادیں،ان کی ملکیت ہیں۔اسی وجہ سے ملک آج اس نہج پر پہونچ چکا ہے ۔چناں چہ نیب ایک واحد ادارہ ہے ۔جو وائٹ کرائم کو روک سکتا ہے ۔اشرافیا اور بے نام مافیاز کو شکنجا ڈال سکتا ہے ۔ان دو سالوں میں نیب نے اپنی کارکردگی دکھائی ہے ۔ظاہر ہے ،تمام کرپٹ عناصر تل ملا اٹھے ہیں ۔نیب کے خلاف میڈیا ٹرائل سے لے کر چیف آف آرمی سٹاف اور حکومت کو مدِ مقابل کھڑا کرنے کی سازش کی گئی ہے ،مگر نیب چیئر مین نے ’’پاکستان کو سب سے مقدم‘‘کا نعرا لگا رکھا ہے ۔نیب کے دیگر عہدیدار بھی ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں ۔اگر نیب کے ادارے کا جائزہ لیا جائے تو یہ احتساب کا ادارہ ہے ۔ملک کے طاقت ورترین لوگ ان کے اہداف ہوتے ہیں ۔جن پراربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہوتے ہیں۔انہیں نیب پکڑ کر 24گھنٹے میں عدالت کے روبرو پیش کر دیتی ہے ۔وہاں سے عدالت نیب کا مؤقف سن کر جسمانی ریمانڈ دیتی ہے ۔پھر تفتیش چلتی ہے ۔کیونکہ وائٹ کالر کرائم کی تفتیش انتہائی مشکل ترین کام ہے ۔ترقی یافتہ ممالک بھی تمام تر وسائل ہونے کے باوجود وائٹ کالر کرائم کی تفتیش کے اصول واضح نہیں کر سکے ۔محدود سہولیات کے ساتھ تفتیش کرنا،نیب کا ایک کارنامہ ہے ۔اکتوبر 2019ء تک نیب نے 130ارب کی وصولی کی ہے ۔حکومتی ہو یا پرائیویٹ بڑے بڑے ناموں کو احتساب کے شکنجے میں لایا گیا ہے ۔

ماضی میں کہا جاتا تھا کہ نیب صرف پٹواریوں اور ریونیو کے معمولی عہدیداروں کو پکڑتی تھی ،لیکن اب نیب نے میرٹ پر کام شروع کیا ہے تو اس کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ نیب واحد ادارہ ہے جہاں رشوت کی ریشو کم ہے ۔کیونکہ ہر کسی کی نظر نیب پر ہے ۔میڈیا کو نیب کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے پیچھے وہی مافیاز ہیں،جن پر نیب ہاتھ ڈالتی ہے ۔کیونکہ نیب سرکاری ادارہ ہے اس لئے اس کا مؤقف بھی نہیں سنا جاتا ۔یک طرفہ مؤقف نے نیب کو ولن بنا دیا ہے ۔حالانکہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔نیب صرف اپنا فرض سرانجام دے رہا ہے۔

سوچنے کی بات ہے ۔آصف علی زرداری نے راولپنڈی میں 10ارب کی پلی بارگین کی ہے ۔کیا اتنی بڑی رقم کسی جرم کیے بغیر ایسے ہی دے دی جاتی ہے․․․لیکن میڈیا نے اس خبر کو شہ سرخیوں میں جگہ نہیں دی،مگر اگر نیب کسی ایسے شخص کو پکڑ لے،جس پر ملکی خزانے کے پانچ سو ارب روپے گھپلے کا الزام ہواور اس کے شواہد بھی موجود ہوں ،تو اسے پکڑنے پر نیب کی لے دے کر دی جاتی ہے ۔ڈاکٹر عاصم کا کیس مشہورِ عام رہا ہے درست کیس تھا ،عدلت نے ریلیف دیا ۔خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلیمان رفیق کے کیس میں قیصر آمین نے گواہی دی ہے ،شواہد موجود،کیس درست ہے،ان کے کیس کو عدالت میں پیش کیا گیا،مگر اس کیس میں نیب کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا گیا۔یہ سراسر زیادتی ہے ۔نیب کے پاس ہزاروں کیس ہیں،کیونکہ نیب کوکوئی معلومات دیتا ہے یا نیب خود شواہد اکٹھا کرتا ہے ۔اس پر ہی ریفرنس تیار کیا جاتا ہے،چالان پھرقانونی طریقے سے کورٹ کی نگرانی میں کیس چلتا ہے ۔اگر عدالت کیس میں جھول دیکھتی ہے تو ملزم کو ریلیف دے دیتی ہے ،ورنہ پلی بارگین کی آپشن موجود ہوتی ہے۔ماضی میں نیب کے پراسیکیوٹرز میرٹ پر نہیں رکھے جاتے رہے،جس کی وجہ سے مجرم عدالت سے بچتے رہے ہیں ،مگر اب نیب نے پراسیکیوٹر بھرپور صلاحیت کے مالک اوراچھی تنخواہ والے رکھے ہیں ۔جس کی وجہ سے ملزم کا آسانی سے عدالت سے بچنا مشکل ہو گیا ہے ۔آج کرپٹ لوگ چھپ کر بیٹھے ہیں ۔ان کی عیاشیاں بند ہوچکی ہیں ۔اس بات کی ان کو تکلیف ہے ۔

چیئر مین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اورڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی کرپٹ مافیا کے خلاف کارروائیاں قابل ستائش ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ حکمران اور مقتدر ادارے کسی طور پر نہیں چاہتے کہ احتساب میرٹ پر ہو۔اگر اپوزیشن میں کرپٹ مافیاکی تعداد ہے تو حکمران قبیلے میں ان سے کہیں زیادہ ’’ڈان‘‘بھرے پڑے ہیں ،مگر ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اداروں کو کارروائی پر سوچ بچار کرنا پڑ جاتا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں چین اور سعودی عرب کا ماڈل اپنانے کے خواہش مند ہیں ،لیکن انہوں نے اس انڈیکس پر غور نہیں کیا کہ جن دو ملکوں کے ماڈل اپنانے کی بات ہو رہی ہے ،ان کا شفافیت کے اعتبار سے 180ممالک کی فہرست میں چین کا 87واں نمبر ہے ،سعودی عرب کانمبر اٹھاون ہے ۔پاکستان 117ویں نمبر پر کھڑا ہے ۔ایران سخت ترین سزاؤں کے حوالے سے معروف ہے ،لیکن اس کا نمبر بھی ایک سو اڑتیس ہے ۔شفاف ترین ممالک میں ڈنمارک پہلے ،نیوزی لینڈ دوسرے ، فن لینڈ اور سنگا پور تیسرے چوتھے نمبر پر ہیں ،مگر عمران خان نے ان کا نام کبھی نہیں لیا ۔وہاں کے اصولوں کو کبھی نہیں اپنانے کی بات کی ۔اگر ان کی واقعی احتساب ترجیح ہوتی تو نیب پر تنقیدنہیں،بلکہ غیر جانبداری پر زور دیا جاتا،انہیں سہولیات اور فری ہینڈ ملتا،تاکہ وہ اپنا کام مکمل اعتماد سے کر سکتے ۔لیکن جب وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نیب کے خلاف سنیں گے تو نیب احتساب کرتے ہوئے کیا کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ نیب ٹیکس اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کو ہاتھ لگانے سے انکاری ہو گیا ہے ۔

اگر ارباب اختیار واقعی کرپشن کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہوتے تو احتساب کے معاملے میں اپنے غیروں میں تمیز نہ رہتی ۔چین اور سعودی ماڈل نہیں بل کہ دنیا کی ان ویلفیئر ریاستوں سویڈن ، ناروے ،ڈنمارک کو مثال کیوں نہیں بناتے ؟یہ سوال ماضی میں بھی رہا اور اب بھی کچھ نہیں بدلا۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.