اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ واقعی میں وزیر
اعظم عمران خان نے اپنے پچاس منٹ کے خطاب میں دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ
دکھا دیا اور جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر صحیح معنوں میں
کشمیریوں کی ترجمانی کی لیکن دنیا جذبات و احساسات کو نہیں مانتی ۔آپ نے
بارہا کہاکہ کشمیر میں ظلم ہورہا ہے ،مگر اقوام عالم اس ایشو کو بھی معیشت
کے حوالے سے دیکھ رہی ہے اور اب یہ طے کیا جا رہا ہے کہ اقوام عالم میں
ہندوستان کا کردار کیا ہو گا۔ حکومت کو ٹرمپ کی بھارت نواز پالیسی کے بعد
کسی خوش فہمی میں رہنا چاہیے ۔کیا وزیر اعظم کی تقریر کے بعد سے کشمیر میں
کرفیو اٹھا لیا گیا، تشدد بند ہو گیا، فوج واپس بلا لی گئی، ہر گز نہیں
بلکہ یہ حالات کسی بڑے خطرے کی آمد کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔کسی اور کو
ریاست میں اہم کردار دینے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت
بن چکی ہے کوئی بھی حکمران ہواس کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں
اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور ایسا ظاہر کیا
جاتا ہے ان سے پہلے تاریخ میں ایسا کام ہی نہیں ہوا۔ضیاء الحق شہید نے بھی
اپنے خطاب میں عالم اسلام کے ضمیر کو جھنجوڑا،نواز شریف نے بھی برہان وانی
کی تصویر اقوام متحدہ میں دکھائی تھی ۔بے نظیر بھٹو کا بھی فقیدالمثال
استقبال ہوا تھا۔وزیراعظم صاحب نے اپنے خطاب میں دنیا کو کوئی ڈیڈ لائن
نہیں دی کہ اب اگر بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا تو کیا لائحہ
عمل اختیار کیا جائے گا۔وزیر اعظم سے سوال ہے کہ امریکہ واپسی کے بعد کیا
عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے اور کس نہج پر جا کر فیصلہ لیا جائے گا؟۔
کیونکہ قوم حکومت کو عملی میدان میں دیکھنا چاہتی ہے۔ 27 ستمبر کے بعد گھڑی
کی ٹک ٹک شروع ہو گئی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ و زیراعظم نے دنیا
کے ضمیر کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ بھی بخوبی جانتے ہیں یہ بے
ضمیروں کی دنیا ہے بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے تو نرمی کا گوشہ نہیں
رکھتی۔حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پھر بندوق اٹھانے کے سوا کوئی چارہ
نہیں ہو گا، لیکن وزیر اعظم صاحب کشمیریوں کو بندوق کون دے گا ، ان کے پاس
واحد ہتھیار پتھر بھی ختم ہو چکے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کشمیر کا مقدمہ لے
کر امریکہ گئے تھے وہاں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے تھا کہ وہ سفیر اعظم کے
طور پر نہیں بطور وزیراعظم وہاں گئے اور انہیں وہی فیصلے لینا ہو گے جو ایک
ایٹمی ریاست کے وزیراعظم کے شایان شان ہیں۔ آخر ہم کب تک کشکول پھیلائیں گے
کب تک معذرت خواہانہ رویہ اپنائیں رکھیں گے۔ دنیا دیکھ رہی ہے ابھی تک
ہندوستان سے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے گئے ، بھارت پر تجارتی و معاشی
سماجی دروازے بند نہیں کئے ان پر فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد
نہیں کی۔ مسئلہ کشمیر کو اس کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔ عسکری محاذ کے حوالے
سے کوئی پالیسی واضح نہیں کی گئی حتیٰ کہ افواج پاکستان آخری گولی، آخری
سپاہی تک لڑنے کا اعلان کر چکی ہے پھر کیوں مصالحت پسندی کی دبیز چادر اوڑھ
رکھی ہے آخر اس مصالحانہ رویے سے آپ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ قوم کو کمزور
معیشت سے ڈرایا جا رہا ہے۔ 1971ء میں ایشیئن ٹائیگرز تھے تو پاکستان دو لخت
ہو گیا تھا مگر جب پاکستان معرض وجود میں آیا تب معاشی لحاظ سے ہم کہاں
کھڑے تھے۔ قائداعظم نے جن مشکل حالات میں نوزائیدہ مملکت کو سنبھالا حتیٰ
کہ دفتری اوقات میں کاغذات کو نتھی کرنے کے لئے پیپر پن کی بجائے ببول کے
کانٹوں سے انہیں جوڑتے رہیں اور آج آپ خراب معیشت کا رونا رو کر جہاد سے
روگردانی کر رہے ہیں۔ دشمن کو کھلی چھٹی دیدی ہے کہ جس طرح ظلم و تشدد کا
بازار گرم رکھے۔ خوف کی پالیسی قوم پر مسلط کر رکھی ہے۔ خدارا ! اس سے باہر
نکلیں۔ یہاں حکومت وقت سے یہ سوال بھی ہے کہ اُدھر کشمیر میں تشدد میں
روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسے روکنے میں ابھی تک ناکام نظر آئے ہیں اس
کے باوجود جنگ نہ کرنے کی پالیسی پر قائم ہیں کیا اگر یہی بہیمانہ تشدد
اسلام آباد میں ہو رہا ہوتا یا پھر پاکستان کے کسی بھی شہر میں ایسا تشدد
رونما ہوتا تو کیا تب بھی حکومت ایسی ہی معذرت خواہانہ رویہ اپناتی؟ شہریوں
کے تحفظ کے لئے ریاست کوئی اقدامات نہ اٹھاتی اب یو این او کی طرف یا دنیا
کی طرف دیکھنے کا وقت نہیں ہے یہ وقت ہے کہ دو ٹوک فیصلہ کر لیا جائے کہ
کشمیر ہمارے لئے کتنا اہم ہے کیا اس کے لئے ہم ہر حد تک جانے کو تیار
ہیں؟جبکہ امریکہ میں وزیراعظم کی مصروفیات، دلچسپیاں اور غیر سنجیدہ بیانات
سے اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ وزیراعظم صاحب کشمیر کا مقدمہ لڑنے نہیں
پاکستان پر مقدمہ کروانے گئے تھے۔ افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کیخلاف
غیر سنجیدہ و متنازعہ بیانات دیکر آخر کیا ثابت کرنا چاہا تھا۔ اس کا سیدھا
مطلب تو یہی ہے کہ آپ نے اپنی فوج کو چارج شیٹ کرتے رہے۔ کیا آئی ایم ایف
اور ورلڈ بینک سمیت دیگر فنانشنل انسٹی ٹیوشن خاموش بیٹھے رہیں گے۔ سربراہ
حکومت کی جانب سے اعتراف جرم کیا گیا کہ ہمارے ہاں القاعدہ کو تربیت دی
جاتی رہی ہے۔ القاعدہ پاکستان کو اور عالم اسلام کو نقصان پہنچایا۔ کب
پاکستان میں القاعدہ کو تربیت دی گئی۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی
کا کردار ادا کرنے کا ذکر ہوا۔پہلی ملاقات زلمے خلیل زاد سے کیوں ہوئی جو
افغانستان میں امریکہ کا نمائندہ خاص ہے وہ وزیراعظم کے ہم منصب بھی نہیں
وزیر خارجہ کی ملاقات ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ فلاں صدر و سربراہ ریاست
و مملکت سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ قوم کو یہ بتایا کیوں نہیں گیا کہ آخر یہ
ملاقاتیں کیا رنگ لائی ہیں اور ان سے کوئی مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں یا
مستقبل میں کوئی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ بات چیت میں کیا طے ہوا ؟۔
حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ کشمیر زور بازو پر ہی ملے گا چاہے وہ بھارت
ہو یا پاکستان۔ جب آپ پورے قد کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور برملا اظہار
کریں گے کہ کشمیر پر یو این او کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ چاہئے۔ ضرورت
اس وقت کی ہے کہ علمائے کرام سے جہاد کے متعلق اجتہاد کروایا جائے جب دشمن
بھیڑیوں کی طرح جھنجھوڑ رہا ہو تو کیا ان سنگین حالات میں جہاد لازم نہیں
ہو جاتا۔ کشمیر کو کربلا ثانی بنا دیا گیا ہے۔ کربلا بھی دس یوم کے بعد ختم
ہو گیا تھا یہاں پر تو دو ماہ سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ کشمیری بھارتی فوج
کے محاصرے میں ہیں۔ کرفیو، ڈیڈ لاک سے ایک کروڑ سے زائد افراد کی زندگیاں
خطرے میں ہیں۔ خوراک کی شدید قلت ہے جان بچانے والی ادویات ناپید ہو چکی
ہیں، لوگ گھروں میں قید ہیں، کیا ہمارا مقصد صرف کرفیو ہٹانا ہے، کیا اگر
کرفیو میں نرمی ہو گئی تو لوگ خوش ہونگے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ان حالات
میں جنگ کرنا پڑے گی تو تیار رہے گی۔ ہندوستان کو بھی باور کروانا ہے کہ اس
کی معیشت بھی خطرے میں پڑ رہی ہے، ہم کسی بھی سطح پر جانے کو تیار ہیں۔
افسوس جب ہمارے وزیراعظم صاحب یہ فرما رہے ہوں کہ کیا ہم ہندوستان پر حملہ
کردوں تو اس سے ہمارے دشمن کو کیا پیغام گیا ہوگا۔ آج وہ اس بنیاد پر سخت
اقدامات کر رہا ہے گلگام اور پلوامہ میں لانچنگ پیڈز بنائے جا رہے ہیں یہ
خطرناک صورتحال ہے۔ وقت ہے کہ تمام علمائے کرام ،سیاستدانوں سمیت تمام
ریاستی مشینری کو ایک پیج پر اکٹھا کیا جائے اور یک زبان بات کرتے ہوئے
باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور مودی کو عالمی عدالت میں انصاف کے لئے
گھسیٹا جائے یہاں اس نے اقبال جرم کیا تھا کہ پاکستان کو دو لخت کرنے اور
بنگلہ دیش بنانے کی سازش میں وہ شریک تھا کیونکہ اس وقت آر ایس ایس میں تھا
۔چنانچہ یہ ٹویٹر پر جنگ لڑنے کا وقت نہیں ۔
|