وطن عزیز میں دسہرہ کا تہوار مختلف انداز میں منایا جاتا
ہے۔ دہلی کی رام لیلا میدان میں راون (کے پتلے)کا دہن (نذرِ آتش) ہوتا ہے
جس میں عام طور پر کانگریسی شریک ہوتے ہیں ۔ اس بار بھی منموہن سنگھ اور
سونیا گاندھی نے تیرچلا کر راون کا ’ودھ‘ کیا ۔ مودی جینے اس مرتبہ دہلی کے
دوراکا علاقہ میں ۱۰۷ فٹ اونچے راون کے پتلے کو جلایا ۔ اس طرح وزیر اعظم
نے اپنا قد بڑھانے کی خاطر پہلے راون کو اونچا کیا۔ آر ایس ایس کورام سے
نہ جانے کون سی مخاصمت اور راون سے کیاانسیت ہے کہ اس کے صدر دفتر(ناگپور)
میں دسہرہ تو بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے لیکن نہ رام لیلا ہوتی ہے
اور نہ راون کو جلایا جاتا ہے۔ وہاں تو صرف اسلحہ کی پرستش کی جاتی ہے۔ اس
اسلحہ کا استعمال آج تک بیرون ملک حملہ آوروں کے خلاف نہیں ہوا ہاں
اندرون ملک اپنے لوگوں کے خلاف ضرور ہوتا ہے۔ پہلے یہ کام فرقہ وارانہ
فسادات کے موقع پر ہوتا تھا آج کل اس کو ہجومی تشدد میں بدل دیا گیا ہے۔
دسہرہ کےدن سنگھ کے سربراہ کی تقریر میں تنظیم کی ترجیحات کا اشارہ دیا
جاتا ہے ۔ ایک بار اسے دوردرشن پر براہِ راست نشر بھی کیا گیا تھا لیکن اب
حکومت یہ خطرہ مول نہیں لیتی اس لیے کہ نہ جانے وہ کیا کہہ جائیں اور حکومت
کو صفائی دینی پڑے۔ اس سال بھی حسب توقع موہن بھاگوت نے مودی حکومت کی
تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بہت دنوں بعد ملک میں کچھ اچھا ہو رہا ہے۔ ملک کی
سلامتی پہلے سے زیادہ بڑھی ہے۔ اس کے بعد بے خیالی میں انہوں نے ہجومی تشدد
کا ذکر چھیڑ کر اپنے دعویٰ کی نفی کردی ۔ لوگ پریشان ہوگئے کہ آخر یہ کیسی
سلامتی ہے جس میں عام آدمی کو سڑک پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ لوگ
خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور مجرموں کا بال بیکا نہیں ہوتا؟ موہن بھاگوت
نے کہا کہ لنچنگ جیسے واقعات سے سنگھ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یہ صفائی
بذاتِ خود چور کی داڑھی میں تنکا کے مترادف ہے ۔
بھاگوت نے یہ نادر انکشاف بھی کیا کہ اسے طرح طرح سے پیش کر کے ایک مدعا
بنانے کا کام چل رہا ہےجو ملک کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ سوال یہ ہے کہ
مذکورہ سازش کون کررہا ہے؟ اس میں تو سارے گئوبھکت ملوث ہیں ۔ بقول ان کے
سلامتی بہتر بنانے والی حکومت اس سازش کو نا کام کرنے کے بجائے امجرمین کو
تحفظ کیوں فراہم کرتی ہے۔ اتر پردیش کے اندر محمد اخلاق کے قاتل کا ترنگے
پرچم میں انتم سنسکار کون کرتا ہے؟ ان کو ضمانت دلوا کر سرکاری ملازمت سے
کیوں نوازہ جاتا ہے؟گراہم اسٹینس کو بچوں سمیت جلانے کی ترغیب دینے والے
پرتاپ سارنگی کو مرکزی وزیرکیوں بنایا جاتا ہے ؟ کیا ملک میں یہی اچھا کام
ہورہاہے؟ بھاگوتکے مطابق ’’ ایسے واقعات کو روکنا ہر کسی کی ذمہ داری ہے۔
قانون وانتظام کے حدود کی خلاف ورزی کر کے تشدد کا رجحان سماج میں باہمی
تعلقات کو ختم کر اپنا دبدبہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی روایت نہیں ہے،
نہ ہی ہمارے آئین میں یہ ہے۔ کتنا بھی اختلاف ہو، قانون اور آئین کے
دائرہ میں رہیں‘‘۔آئین اور قانون کا نفاذ کیا سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے ؟
حکومت اس سازش کاارتکاب کرنے والوں کو گرفتار کرکے سزا کیوں نہیں دیتی ؟
تبریز انصاری کی ہلاکت کے بعد ہجومی تشدد کا معاملہ پہلے تو ایوان پارلیمان
میں آیا اور اس کے بعد اقوام متحدہ میں پہنچ گیا مگر موہن بھاگوت کے کان
پر جوں نہیں رینگی۔ موہن پیارے اب اس لیے جاگے ہیں کہ پانی سر سے اونچا
ہوچکا ہے ۔ ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے صرف مسلمان نہیں رہے بلکہ ہندو
سماج بھی اس کے نرغے میں آگیا ہے ۔ مثال کے طور پر اس سال عدم تشدد کے
مہاتما گاندھی جی کی جینتی کے دن بہار میں بھبھوآ شہر کے اندر کاؤنسلرسبھاش
سنگھ کے بیٹے مادھو سنگھ نے ایک شخص کو مبینہ طور پر گولی مار کر قتل کر
دیا ۔ اس واقعہ کے بعد ایک بھیڑ نے پولیس کے سامنے کاؤنسلر کے بیٹے کو جئے
شری رام کا نعرہ لگا تے ہوے جم کر پیٹا ۔ اس سانحہ میں مرنے والا اعظم خان
کا بیٹاعامر خان ہوتا تو شاید اب بھی بھاگوت خاموش ہی رہتے ۔محمداخلاق کی
موت کے بعد ہی اگر بھاگوت سخت قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتے تو یہ نوبت
نہیں آتی ۔ بھاگوت کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نہ تو قاتل سے نفرت اور نہ
مقتول سے ہمدردی ہے۔ ان کو اپنے ملک کی بدنامی کا خوف ستاتا ہے۔ وزیراعظم
ایسے موقع پر صوبے کی بدنامی کا رونا روتے ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے
کہ ایسےشرمناک جرائم کے ارتکاب سے نیک نامی تو نہیں ہوسکتی ۔ اس سے بچنے کی
واحد سبیل لیپا پوتی نہیں بلکہ بربریت کا خاتمہ ہے۔
بھاگوت نے لنچنگ کی اصطلاح کو بھارتی نہیں بلکہ غیر ملکی قراردیا ہے۔ سوال
اصطلاح کا نہیں عمل کا ہے ۔ یہ غیر ملکی اصطلاح و عمل اگر برا ہے تو اسے ان
لوگوں نے چھوڑ کر دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور سنگھیوں نے اپنا کر اپنی
درندگی کو ظاہر کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لنچنگ ملک میں بقول بھاگوت کے
ہندو راشٹر کے قائم ہوجانے کے بعد در آمد کیا گیا ہے ؟ اور زعفرانی سرکار
اس زہریلے پودے کو کھاد پانی دینے کا کام کررہی ہے۔ بھاگوت نے نفسِ مسئلہ
سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک خاتون کو سنگسار کیے جانے پر حضرت عیسیٰؑ کے ہجوم
سے سوال کا حوالہ دیا جس میں آپ نے پوچھا تھا کہ پہلا پتھر وہی مارے گا جس
نے کوئی غلطی نہ کی ہو۔بھاگوت کے مطابق اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ لنچنگ
کہا ں ہوتی تھی؟ سوال ہوتی تھی کا نہیں کہاں ہوتی ہے کا ہے ؟ بھاگوت اس سے
بھاگتے بھاگتے پھر رہے ہیں ۔
دنیا کی بھر کی لغت میں لنچنگ کے معنیٰ شک کی بنیاد پر ہجوم کے ذریعہ نفرت
کی بناء پر کسی خاص گروہ کے خلاف عوامی تشدد بلکہ قتل ہے۔ مذکور ہ بالا
واقعہ میں اس خاتون کو زنا کی سزا دی جارہی تھی ۔ وہاں پر نہ تو شک کا
معاملہ تھا اور نہ کسی خاص گروہ کے خلاف غم وغص موجود تھا اس لیے اس پر
لنچنگ کی اصطلاح کا سرے سے اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ زنا کی سزا کے طور پر قدیم
ہندوستانی روایت میں بھی غیر براہمن کے لیے زندہ جلانے کی سزا تجویز کی گئی
ہے۔ جرم ثابت ہوجانے پر کسی کو زندہ نذرِ آتش کرنا یا سنگسار کردینا ہجومی
تشدد نہیں بلکہ سزا ہے۔ اس موقع پر بھی وہاں حضرت مسیحؑ لوگوں کو خود
احتسابی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے برخلاف وطن عزیز میں
بھاگوت جیسے لوگ کریہہ ظلم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے بدنام کرنے کی سازش
قرار دے کر مجرمین کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اس مثال کو پیش
کرکے موہن بھاگوت نے اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی اور ایک ایسی بحث چھیڑ دی
جس نے ملک اور حکومت کے ساتھ سنگھ کو بھی بدنامی میں بیش بہا اضافہ کردیا ۔
|