عراق دنیا میں تیل کے ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے
۔ جب کہ دنیا کو تیل فراہم کرنے والا چوتھا ملک عراق ایک بار پھر شدید
ہنگاموں و عوامی بے چینی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکومت کے خلاف شدید مظاہرے
اور احتجاج کئے جا رہے ہیں۔تادم تحریر مظاہرین عراقی حکومت سے مستعفی ہونے
کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جب کہ وزیر ا عظم عادل عبدالمہدی کا کہنا ہے کہ وہ
مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ سے مدد
لینے کا اعلان کیا ہے، لیکن مظاہرین نے وزیر اعظم کے اعلان کو نظر انداز
کرتے ہوئے پر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔عراق میں بڑی سیاسی
قوت سمجھے جانے والے بااثر لیڈر مقتدیٰ الصدر نے وزیراعظم عادل عبدالمہدی
کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پارلیمان کے اسپیکر محمد
الحلبوسی نے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آواز سنی
جارہی ہے، روزگار کے نئے مواقع کی تخلیق اور سماجی بہبود کے بارے میں
اسکیموں پر غور کیا جائے گا۔۔مقتدی الصدر کے حامی اراکین پارلیمنٹ کی بڑی
تعداد بھی حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ جس پر حکومت طاقت کا استعمال کررہی
ہے جس میں کئی درجن افراد جاں بحق و سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔قدرتی وسائل سے
مالا مال ملک شدید بے روزگاری ، مہنگائی اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی کے
خلاف عراقی عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔عراق میں 2005کے بعد نام نہاد
حکومت کا قیام عمل لایا گیاتھا ۔ جب کہ حقیقی قبضہ امریکا کا ہی رہا۔عراق
کی معیشت بین الاقوامی لوٹ کھسوٹ کی الم ناک داستان ہے۔ قدرتی وسائل کو
پہلے تو برطانوی کمپنیوں نے خوب لوٹا۔ بعث پارٹی کی ابتدائی حکومت میں عراق
برطانوی کمپنیوں کے چنگل سے نکل کر فرانس کے ہتھے چڑھ گئے۔ امریکا، برطانیہ،
فرانس اور اسرائیل نے عراق کو بے تحاشا اسلحہ بیچ کر قرض دار بنا دیا۔ حتیٰ
کہ عراق کے بیرونی قرضے ایک سو بیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
2017تک داعش کی وجہ سے عراق میں ہلاکت خیزیاں عروج پر رہی تھی۔ داعش کے
خاتمے کے بعد مسلح جنگجو گروپوں نے داعش کے زیر قبضہ علاقوں کا انتظام
سنبھال لیا ۔ خیال رہے کہ عراق پر امریکا کی جانب سے 2003کوکیمیائی
ہتھیاروں کے مبینہ الزامات کے بعد حملہ کیا گیا تھا ۔ جس کے بعد 2003کوعراق
پر امریکا و برطانیہ نے قبضہ کرلیا ۔ اس سے قبل عراق نے کویت پر 1990کوحملہ
کرکے قبضہ کیا تھا اور واپسی پر تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دی تھی جس سے کویت
کی تیل تنصیبات کو نقصان پہنچا تھا ۔ کویت کی مدد کے لئے عرب ممالک نے عراق
کے خلاف امریکا کا تعاون حاصل کیا۔ اس سے قبل صدام حسین ایران کے خلاف جنگ
کی وجہ سے امریکا کے پسندیدہ حکمراں تھے لیکن مفادات تبدیل ہوتے ہی عالمی
قوتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ صدام حسین کو زیرزمین بنکر سے
گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا اور کردوں کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا
سنا دی گئی ۔ صدام حسین کو پھانسی دیئے جانے کی تصاویر و ویڈیو بھی سوشل
میڈیا پر جاری کی گئی۔عراقی صدر صدام حسین نے 1980میں ایران پر حملہ کیا
تھا ۔ یہ جنگ تقریباََ8برس تک جاری رہی اور دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ایران
سے جنگ بندی کے بعد تیل کی صنعت میں کچھ بہتری آئی مگر زیادہ وسائل تیل کی
صنعت کی بحالی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتی رہی جس کی وجہ سے
عراق خاطر خواہ ترقی نہ کرسکا، عراق مسلسل حالت جنگ میں رہا ہے ۔ ایران ،
کویت ، امریکا ، برطانیہ اور پھر داعش کے حملوں کے بعد عراقی معیشت مزید
تباہ حال و برباد ہوگئی ۔ کویت پر حملے اور عراق پر آنے والے اخراجات کو
امریکا اور اتحادیوں نے جرمانہ عاید کرکے وصول کرنا شروع کیا ۔تیل مصنوعات
کو انتہائی ارزاں قیمتوں پر عراق جنگ سے متاثرہ ممالک میں تقسیم کردیا گیا
اور جنگ کے تمام اخراجات بھی عراق کی معیشت کو برباد کرنے کے لئے کافی تھے
۔
عراق کی تعمیرِ نو کے90 فی صد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور
کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں، جو مہنگا کام کرنے میں
مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھسوٹ کا ایک اور در کھل گیا ہے۔ رہی سہی کسر داعش
نے پوری کردی2014میں داعش نے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا جسے 2017میں ختم کروایا
گیا۔ داعش نے مذہبی مقامات کو شدید نقصان پہنچایا اور آئل تنصیبات پر قبضے
کے بعد بلیک مارکیٹ میں تیل و نوادارت کی فروخت کرنے لگے ۔ امریکا نے عراق
پر قبضے اور صدام حسین کی پھانسی کے بعد09برس اپنی فوجیں عراق میں
رکھی۔9برس کے جنگ کے خاتمے پر500فوجی اڈوں سے ایک لاکھ 70ہزار فوجیوں کو
واپس بلایا گیا ،لیکن ایک بڑی تعداد کو پھر بھی برقرار رکھا جو اب ایران سے
منسلک سرحدی علاقوں میں تعینات امریکی مفادات کا دفاع کررہی ہیں۔ اطلاعات
کے مطابق امریکہ نے بھاری فوجی ساز و سامان مغربی عراق کے شہر الرمادی میں
شام سے ملنے والی سرحدوں پر پہنچایا ہے۔میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ
صوبہ الانبار کے شہر الرمادی سے چار سو نوے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقے
التنف پہنچائے جانے والے فوجی ساز و سامان میں بھاری توپیں اور ریڈار بھی
شامل ہیں۔یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب شامی فوج صوبہ دیر الزور میں
داعشی دہشت گردوں کے آخری اڈے کو نابود کرنے کے لیے نئے آپریشن کا آغاز
کرنا چاہتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ
وہ عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔واضح رہے
کہ دسمبر2017 میں داعش کے خاتمے کے بعد سے عراقی عوام، سیاسی جماعتیں،
ذرائع ابلاغ اور اہم شخصیات تمام غیر ملکی فوجیوں اور خاص طور سے امریکی
فوج کے انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن امریکی حکام عراق سے نکلنے کو تیار
نہیں۔
عراق میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معاشی صورتحال بہتر نہ ہوسکی ۔
خاص طور فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں و بم دھماکوں نے عراق کو سنبھلنے کا موقع
ہی فراہم نہیں کیا ۔عراق سے داعش کو باہر نکالنے کے لئے ایران نے مسلح
جنگجوؤں کی مدد سے اہم کردار ادا کیا ۔ عراقی پارلیمنٹ و سیاسی نظام میں
ایرانی نفوذ کا اضافہ ہوا۔ جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں متواتر اضافہ ہوتا
چلا گیا ۔ کردستان کی آزادی کی تحریک و اعلان نے عراق کو مزید منقسم
کیا۔سابق امریکی خارجہ ٹِلرسن نے عراق میں موجود جنگجو ملیشیا کے حوالے سے
یورپی ممالک اور دیگر اقوام سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ اشتعال انگیزیوں کو
روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کا حصہ بنیں۔ اس موقع پر امریکی وزیر
نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کے عراق سے نکل جانے کا مطالبہ بھی
کیا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ایسے تمام غیرملکی جنگجوؤں کو عراق
چھوڑ کر واپس اپنے اپنے ممالک جانا ہو گا۔تاہم ایران نے جنگجو ملیشیا ؤں کو
عراق سے نکالنے کا مطالبہ مسترد کردیا تھا ۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ افواہوں
پر کان نہ دھریں۔انھوں نے کہا کہ وہ عوام کی مشکلات اور مسائل سے آگاہ ہیں
اور ان کی حکومت ان مسائل کو حل کرنے اور مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کررہی
ہے۔عراقی وزیراعظم نے عوام سے کہا کہ ملک کو ماضی کے دور میں لے جانے اور
ملک میں دوبارہ آمرانہ نظام حکومت قائم کرنے کے لئے بعض حلقوں کے مطالبات
پر توجہ نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے نظام کا دور گزرچکا ہے اور اس
کی قیمت ہم نے اپنے خون اور ملک کی دولت و ثروت کی تباہی کی صورت میں ادا
کی ہے ۔عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا کہ حکومت کے نئے منصوبے کے
مطابق کم آمدنی والے اورغریب کنبوں کو ماہانہ رقوم ادا کی جائیں گی۔انھوں
نے کہا کہ حکومت ہرعراقی کنبے کے لئے ایک مقررہ آمدنی کو یقینی بنائے
گی۔انھوں نے اسی کے ساتھ مظاہرین سے بھی کہا کہ ملک کے قانون کا احترام
کریں اور ہر ایسے اقدام سے پرہیز کریں جس سے امن و امان خطر ے میں پڑسکتا
ہو۔ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے عالمی امور کے نمائندے حسین
امیرعبداﷲیان نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں عراق کی موجودہ صورتحال میں ایران
مخالفین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اغیارکی یہ سازش بھی ناکام ہو جائے
گی۔انہوں نے عراق میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کے پیچھے امریکہ پر الزام
عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق کے بعض شہروں میں ہنگامہ آرائیوں کی
حوصلہ افزائی کے سلسلے میں ایران مخالف ممالک و مغربی ذرائع ابلاغ نے بھر
پور کردار ادا کیا ہے۔حالیہ صورتحال میں عراقی عوام میں بے چینی میں تیزی
سے اضافہ ہوتا چلا گیا ۔عراق کی تباہی بربادی کی بنیادی وجوہات میں امریکا
کی جانب سے عراق کو تباہ حال فرقہ وارنہ صورتحال پر چھوڑ کر جانا بھی ہے۔
بعد ازاں جنگجو ملیشیاؤں کی جانب سے عراق کے قدرتی وسائل پر قبضے کی خانہ
جنگیاں ، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے عراق کو
اپنے پیروں پر کھڑا ہونے نہیں دیا ۔عراق اس وقت شدید عدم استحکام و سیاسی
بدترین صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔ عالمی قوتوں اور علاقائی تنازعات کی وجہ
سے عراق میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت کام نہیں کرپارہی ہے جس کی
وجہ سے سیاسی بحران نے سر اٹھایا ہوا ہے۔2018کے انتخابات میں غیر مستحکم
حکومت کے آنے سے معاملات میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوئے ۔اس وقت بھی
عالمی قوتوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے عراق عالمی پراکسی وار کا گڑھ بنا
ہوا ہے جس کا خمیازہ عوام کو اٹھانا پڑرہا ہے۔ایران ، عراق کی موجودہ
صورتحال کو اربعین مارچ کے حوالے سے فرقہ وارانہ تناظر میں دیکھ رہا ہے کہ
بعض عناصر فرقہ وارنہ سازشیں کررہے ہیں۔ تاہم عراقی حکومت کی لئے زیادہ
ضروری یہ ہے کہ برسوں سے جنگ زدہ ملک کو مزید تباہ حال ہونے سے بچانے کے
لئے عوام کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ مزید خانہ جنگیاں اور عدم
استحکام سے عراقی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا ۔ جس سے عالمی قوتیں
اپنے مخصوص مفادات کے لئے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ علاقائی
معاملات کو سیاسی طور پر عراقی عوام خود حل کریں کیونکہ اغیار جس شکل میں
بھی ہوں عراق کی بہتری کے فیصلے نہیں کرسکتی۔عراقی عوام کو اپنے ملک کے لئے
فیصلے کرنے میں آزادی دینی چاہیے تاکہ عراقی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود
کرسکیں ۔
|