تبدیلی اس بارپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نہیں بلکہ جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ
مولانافضل الرحمان کی جانب سے کی گئی ہے۔مولانانے نہ صرف مارچ کی تاریخ
تبدیل کیے بغیربڑی تبدیلی کردی ہے بلکہ تمام ترحکمت عملی بھی ترتیب دے دی
گئی ہے۔ مولانا کا انداز گفتگواورالفاظ کاچناؤانتہائی غورطلب ہے۔ملک بچانے
کا ایک ہی راستہ ہے کہ حکمرانوں کو ہٹایا جائے۔معیشت تباہ ہوگئی۔نوجوانوں
کو روزگار نہیں مل رہا۔ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے 15 لاکھ نوجوانوں
کوبے روزگارکردیا۔میں ’را‘ نہیں بلکہ پاکستان کے ایجنڈے پرچل رہا ہوں۔حکومت
سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں۔ہم قومی سطح پرتحریک چلارہے ہیں۔
تمام جماعتوں نے اسلام آباد آنے کا کہا ہے۔عوام کی بدحالی کی ذمہ دار حکومت
کو اتار دینا چاہیے۔اگلے 2 سال میں ملکی صورتحال بہتر ہونے کا امکان
نہیں۔مدرسے کے طالب علم کا ووٹ چوری ہوگا تواسے بھی احتجاج کاحق ہے۔ہم
احتجاج کے لیے آزادی مارچ کا لفظ استعمال کرتے ہیں آپ اسے دھرنا کہتے
ہیں۔حکومت نے دھرنا روکنے کی کوشش کی تو ہم بند راستوں کوکھولیں گے۔اپنے
سارے پتے شو نہیں کررہے۔دوسروں پربدعنوانی کے الزام لگانے والی پوری تحریک
انصاف بدعنوان نکلی۔ہم چین میں بھی پذیرائی حاصل نہ کرسکے اور صرف چھوٹا سے
اعلامیہ جاری کیا گیا۔وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بھارت کو ایٹمی جنگ کی
دھمکی دی۔ سفارت کاری ناکام ہو جائے تو دھمکیوں پراترنا پڑتا ہے یہ کہناہے
جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانافضل الرحمان کا۔مولانا کے مطابق مدرسے
کے طالب علم کا ووٹ چوری ہوگا تواسے بھی احتجاج کاحق ہے ۔ہم اس بات کوتسلیم
کرتے ہیں کہ جس کسی کابھی ووٹ چوری ہواسے احتجاج کا حق ہے۔توکیامولاناکے
بیان کے مطابق مدرسوں کے چھوٹی عمرکے جن طلبہ کا2018ء کی ووٹرلسٹوں میں نام
شامل نہیں تھاوہ مولاناکے احتجاج میں شامل نہیں ہونگے؟یہ بھی ممکن ہے کہ
مولاناکہہ دیں چھوٹے بچے اپنے والدین کاووٹ چوری ہونے پراحتجاج کررہے
ہیں۔مولانانے کہاکہ میں ’را‘ نہیں بلکہ پاکستان کے ایجنڈے پرچل رہا ہوں بہت
اچھی بات ہے پاکستان میں سیاست کرنی ہے توایجنڈابھی پاکستان کاہی ہوناچاہئے
پرمولاناصاحب یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ بقول آپ کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ
میں بھارت کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دی۔دوسری طرف انڈین میڈیااورحکومت بھی یہی
بات کررہی ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان اورتمام محب وطن پاکستانی کہہ رہے ہیں
کہ وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حقائق بیان کئے
اوردنیاکوخبردارکرتے ہوئے بتایاکہ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں لہٰذا ہم بھارت
کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے جبکہ بھارت کاجنگی جنون بڑھتاجارہاہے جونہ صرف خطے
کیلئے بلکہ پوری دنیاکیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتاہے۔بھارت نے پاکستان پرجنگ
مسلط کی توہم ہتھیارڈالنے کی بجائے آخری سانس تک لڑیں گے چاہئے کوئی بھی
قیمت اداکرناپڑے۔مولاناصاحب ’را‘کے نہیں بلکہ پاکستان کے ایجنڈے پرکام
کررہے ہیں توپھر اُن کابیان بھی بھارتی میڈیاجیسانہیں بلکہ محب وطن اورایک
سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے انتہائی ذمہ دارانہ ہوناچاہئے۔قابل
احترام مولاناصاحب نے کہاکہ سفارت کاری ناکام ہو جائے تو دھمکیوں پراترنا
پڑتا ہے یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا مولاناکی بھی سفارت کاری ناکام
ہوگئی ہے جونہ صرف حکومت کیخلاف مارچ اوردھرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ
مکمل تیاری بھی کررہے ہیں؟کیامولانااپنے ہی ملک کے حالات کی نزاکت کوسمجھتے
ہوئے اپنے مسائل بذریعہ سفارت کاری یعنی مذاکرات میں تلاش نہیں
کرناچاہتے؟مولانانے ایک اوراہم نکتے پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ہم اپنے سارے
پتے شو نہیں کررہے جبکہ عوام سمجھ رہے ہیں کہ مولانانے احتجاجی مارچ
کیلئے27اکتوبرکااعلان کرنے کے بعدسارے پتے اُس وقت شوکردیئے جب انہوں نے
کہاکہ 27اکتوبرکوپورے ملک سے قافلے روانہ ہونگے جو31اکتوبرکواسلام آبادمیں
داخل ہونگے۔وہ وقت قوم دیکھ چکی ہے جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے فیض
آباددھرنے کیلئے سخت کارروائی کے بعداحتجاج پورے ملک میں پھیل گیاجس کے بعد
ن لیگ کی حکومت کوتحریک لبیک پاکستان کے مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔تحریک لبیک
پاکستان کے قائدمولاناخادم حسین رضوی نے دھرنے کیخلاف سخت آپریشن کے
بعدپورے ملک میں احتجاج کی کال دی تھی جبکہ مولانافضل الرحمان نے تیزترین
نتائج حاصل کرنے کی غرض سے احتجاج کاآغازہی پورے ملک سے کرنے کی حکمت عملی
بنالی ہے یعنی حکومت ملک کے کسی بھی علاقے میں احتجاج کرنے والوں کیخلاف
کارروائی کرتی ہے تومولانااسی وقت اعلان کردیں گے کہ پورے ملک میں مارچ کے
قافلے جہاں موجودہیں ونہی دھرنادے کربیٹھ جائیں اورپوراملک بندکردیں۔حکومت
کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی کے بغیربھی کوئی نہ کوئی بہانہ بناکرایسا
کرنے کے امکانات خارج الامکان نہیں۔مولاناکواپوزیشن کی تمام چھوٹی بڑی
جماعتوں کی سپورٹ حاصل ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی صوبہ سندھ کی بڑی اورحکمران
جماعت ہے لہٰذاصوبہ سندھ کی اہم سڑکیں اورچوک بندکرناپاکستان پیپلزپارٹی
کیلئے مشکل نہیں۔صوبہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس آج بھی اس حد تک
عوامی سپورٹ موجود ہے کہ ن لیگ آسانی سے صوبہ پنجاب کی اہم اورمصروف ترین
سڑکیں بندکرسکتی ہے۔صوبہ کے پی کے اورصوبہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام
ف،پاکستان مسلم لیگ ن۔پاکستان پیپلزپارٹی۔اے این پی اوردیگرجماعتیں مل
کرلاک ڈاؤن کرنے کی پوزیشن میں معلوم ہوتی ہیں۔راقم کے خیال میں مولانا
اپنے سارے پتے شوکرچکے ہیں۔ہمیں مولانافضل الرحمان صاحب کی حب الوطنی پرکسی
قسم کاشک وشعبہ نہیں لہٰذاہم امیدکرتے ہیں کہ مولاناآئندہ ریاست پاکستان کے
متعلق گفتگوکرتے ہوئے بھارتی میڈیا کانہیں بلکہ پاکستانی لہجہ اورالفاظ
استعمال کریں گے۔مولاناپرامن احتجاج کرناچاہتے ہیں توضرورکریں یہ اُن
کاجمہوری حق ہے۔بذریعہ احتجاج حکومت گرانے کی کوشش کرناچاہتے ہیں
توضرورکریں پربرائے مہربانی پاکستان کے دشمنوں کی زبان نہ بولاکریں۔حکومت
مولاناکااحتجاج روکنے کیلئے قانون کے دائرئے میں رہتے ہوئے اقدامات
اٹھاناچاہتی ہے توضروراُٹھائے پرحکومتی عہدیداران مولاناکیخلاف ایسے الفاظ
یاجملے استعمال نہ کریں جواُن کی حب الوطنی پرشک پیداکرنے،کردارکشی یاتوہین
کے زمرے میں آتے ہوں یعنی حکومت قانون اوراخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے
اپنابھرپوردفاع کرنے کاحق اوراختیاررکھتی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان
مسلم لیگ ن کی جانب سے مولاناکے احتجاج،مارچ اوردھرنے میں بھرپوراورپھرجوش
شمولیت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والے میاں
شہبازشریف اوربلاول بھٹوزرداری بھی موقع کی مناسبت یعنی موقع محل دیکھ
کرمیدان عمل میں اترتے نظرآرہے ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کے آل راونڈرکھلاڑی
مولانافضل الرحمان کی حکمت عملی اوردھرنے کی تاریخ کی تبدیلی کیا رنگ لاتی
ہے یہ تووقت ہی بتائے گاالبتہ اتناکہاجاسکتاہے کہ جوہونے جارہے ہے وہ
پاکستان کے غریب عوام کیلئے انتہائی تکلیف دے ثابت ہوسکتاہے۔آخرمیں
وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں عرض کرتاچلوں کہ آپ کے غیرسنجیدہ
وزیراورمشیرحالات کی نزاکت کوسمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے لہٰذاایسے عناصر
کونکیل ڈالنے کی ضرورت ہے۔دوسری گزارش یہ ہے کہ پیسے کی اہمیت سمجھنے کی
کوشش کریں۔دنیاپرافسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔آج ہم جن ممالک کے دروازوں
پردستک دے کرکشمیری عوام کے حقوق مانگ رہے ہیں وہ پیسے کے بل بوتے پرہی
سپرپاورکہلاتے ہیں جذبات کی بنیادپرنہیں۔انہیں کشمیری عوام اورخاص
طورپرپوری دنیا کے غلامی پسند مسلمانوں سے کوئی غرض نہیں لہٰذاپیسے کی
اہمیت کوسمجھنے کی کوشش کریں
|