روایات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حق وصداقت پر مبنی بھی
ہو سکتی ہے اور کسی کو سمجھانے کی غرض سے کہانی ،رعائت لفظی یا داستان گوئی
کی طرح اسے عوام الناس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے،ان روایات کے بیان کا اصل
مقصد عام آدمی کی اصلاح ہوتی ہے۔ایسے ہی ایک روائت یہ بھی ہے کہ ایک بار
مولانا مفتی محمود جو کہ عالم،واعظ ،سیاستدان ہونے کے ساتھ مولانا فضل
الرحمن کے والد گرامی بھی ہیں اپنے کسی دوست کے ساتھ سیاسی معاملات پر گفت
وشنید فرما رہے تھے کہ ایسے میں مولانا صاحب جو کہ اس وقت عالم شباب میں
تھے بے چینی کے عالم میں کبھی کمرے کے اندر تو کبھی کمرے کے باہر آ جا رہے
تھے۔ایسے میں مفتی صاحب سے ان کے دوست نے پوچھا کہ حضرت مولانا کو کیا بے
چینی ہے تو اس پر مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ آجکل ایجنسیوں کے لئے کام
کر رہا ہے۔حالیہ سیاست اور اس کے مسائل کا اگر اندازہ لگایا جائے تو ہم سب
دیکھ رہے ہیں کہ مولانا صاحب نے آزادی مارچ اور دھرنا کا عندیہ دے رکھا ہے
اور ان کی ساری توجہ آجکل سیاسی معاملات،آزادی مارچ اور دھرنہ پر ہی ہے،کاش
مولانا نے اتنی ہی توجہ اسلام کی خدمت،تبلیغ اور تعلیم پر دی ہوتی تو لوگوں
کو دھرنے یا مارچ کے لئے ٹریننگ نہ دینا پڑتی ،لوگ خود بخود ہی اپنے حقوق
کی پاسداری اور آئین کے عملی اطلاق کے لئے سڑکوں پر نکل پڑتے۔چونکہ ایسا
کرنے میں ان کی اہمیت اور مفاد دونوں کی قدر کم ہوجاتی اس لئے مولانا سمیت
دیگر سیاستدان اور علما کرام عوام الناس کو مچھی دیتے ہیں کانٹا دے کر
مچھلی پکڑنے کا فن نہیں بخشتے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ لوگوں کی ایسی
تربیت کر دی جائے کہ جب کبھی جمہوری یا آمرانہ فکر کے سیاستدان ملک پر شب
خون ماریں تو عوام بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنے حقوق کی پاسداری کے لئے
حکومت وقت کے خلاف ڈٹ جائیں نا کہ ایسے لوگ جو خود کرپشن میں ملوث ہوں،ٹیکس
چور ہوں،اپنا پیسہ فرانس،انگلینڈ اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں چھپائے
رکھتے ہوں اور مشکل وکڑے وقت میں عوام کو بھوک،مہنگائی اور افلاس کی توپ کے
سامنے کردیں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں سے مل کر اب مولانا سیاسی بساط پر ایسی ایسی چالیں
چل رہے ہیں کہ خود شطرنج کے مہرے بھی حیران وششدر ہیں کہ یہ مولانا کو کسی
بن چین کیوں نہیں پڑتا۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر مولانا اپنی
پارٹی کے تمام عہدیداران کو جتوا کر اسمبلی میں لے بھی آتے ہیں تو پھر بھی
کسی طور ان کی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی اور نہ ہی مولانا کے سر
پروزیراعظم کا تاج سجے گا۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر مولانا حکومت گرانے
اور وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے درپے کیوں ہیں؟وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟اپنی
سیاسی پہچان کو برقرار رکھنے کے لئے،کسی امداد کو قانونی حیثیت دینے کے
لئے،ببلوکے بارے میں جو باتیں میڈیا پر ہو رہی ہیں ان کو حلال کرنے کے
لئے،حکومت کو کمزور کرنے یا گرانے کے لئے،عمران دشمنی یا پھر 22 نمبر فلیٹ
کی واپسی کے لئے۔لیکن ایک بات ذہن نشین ضرور رہنی چاہئے کہ اس میں کوئی دو
رائے نہیں کہ پاکستانی سیاست میں مولانا کی ہمیشہ سے ایک اہمیت رہی ہے
کیونکہ وہ ایک منجھے ہوئے،کہنہ مشق سیاستدان ہی نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے
بھی ان کی اور ان کے خاندان کی ایک پہچان اور وقار ہے۔اور پھر اپنے
مشہورزمانہ قول کہ 1973 کے آئین کے تناظر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی
عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر حکومت وقت سے اپنے مطالبات
تسلیم کروائیں۔ا سلئے اپنے سیاسی تجربہ کی بنا پر وہ خوب سمجھتے ہیں کہ
ڈربی ریس میں وہی گھوڑا ریس جیتتا ہے جس کا چابک سوار مستعد ہو اور گھوڑا
نسلی ہو۔اور نسلی گھوڑا بھی اسی وقت تک ریس میں رہتا ہے جس تک اس کے سموں
میں بھاگنے کی طاقت باقی رہتی ہو وگرنہ اس کا مالک اسے اپنے ہی ہاتھوں سے
گولی مار دیتا ہے۔لہذا میرے خیال میں مولانا سیاسی میدان کے شاطر کھلاڑی
ہیں اور وہ اپنی ساکھ بچانے اور اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لئے سیاسی بساط
پر کسی بھی وقت کوئی بھی چال سکتے ہیں۔یہ بھی خیال رہے کہ عوامی طاقت کے بل
بوتے پر وہ کبھی بھی سیاسی شطرنج میں پیادے کا کردار ادا کر کے سیاسی خود
کشی نہیں کریں گے۔عوامی رائے میں وہ وو کشتیوں میں سوار دکھائی دے رہے
ہیں،یعنی کبھی بلاول کی ناؤ میں تو کبھی ن لیگ کی کشتی میں سوار سمجھے جا
رہے ہیں،لیکن ان لوگوں کے لئے عرض ہے کہ ان کی اپنی ایک حیثیت ضرور ہے اور
میدان سیاست میں بھی انہیں اتنا ہلکا نہیں لینا چاہئے۔لہذا انہوں نے دھرنے
اور مارچ میں پیش آمدہ مسائل اورہر پہلو کو مدنظر رکھ کر ہی کیا ہوگا،ایک
سوال جو میری طرح اور بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہا ہوگا کہ
عمران خان کے دھرنے کا خرچہ تو کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے اٹھا رکھا تھا
تو اب مولانا کے دھرنے اور مارچ کا خرچہ کون اٹھائے گا؟یہ بات بھی سمجھ سے
بالا تر ہے کہ مولانا کا روزگارکیا ہے؟کہ وہ دھرنے اور مارچ کے اخراجات
اکیلے ہی برداشت کر لیں گے۔
|