دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ
اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ واحد سپر
پاور کی حیثیت سے دنیا پہ راج کر رہا تھا جسے اب روس سے زیادہ چین کی بڑھتی
ہوئی معاشی، حربی، ٹیکنالوجیکل طاقت اور پھیلتے ہوے اثر رسوخ سے خطرہ ہے،
معروف مصنف پراگ کھنہ کہتے ہیں کہ ''جس رفتار سے چین ترقی کر رہا ہے اس
حساب سے چین 2030 تک امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوگا اور دنیا کا واحد
سپر پاور ہوگا''، امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹ بھی یہی کچھ کہہ رہی ہیں جس
کے پیش نظر امریکہ نے چین کو کمزور کرنے کے لیے عملی اقدامات شروع کردئیے
ہیں، اس ضمن میں امریکہ چین کو کمزور کرنے کے لیے بھارت کو چین کے متبادل
لانے کے ایجنڈے پہ عمل پیرا ہے، چین کی ترقی میں سب سے اہم کردار اس کے مین
پاور کا ہے دوسرا وہاں لیبر کوسٹ مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے یہی
وجہ ہے کہ امریکہ سمیت مغرب کی بڑی بڑی الیکٹرونکس و کمینیکیشن کمپنیوں کی
ساری پراڈکشن چین سے ہی ہورہی ہے، امریکہ چین سے ناخوش ہے کہ چین ان کی
ٹیکنالوجی بھی لے لیتا ہے اور انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس کا بھی احترام نہیں
کرتا، دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ کا چین کیساتھ Trade deficit بہت
زیادہ ہے، حال ہی میں امریکہ نے چینی مصنوعات پر ٹیرف بھی لگادئیے ہیں اور
چینی کمپنیوں کے لیے سخت پالیسیاں بنارہا ہے اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ نے
چینی وزرا و آفیشلز پر ویزا پابندی کا بھی اعلان کیا، مائیک پومپیو نے چین
پر تنقید کرتے ہوے الزام عائد کیا ہے کہ ''چین انسانی حقوق کی سنگین خلاف
ورزیوں کا مرتکب ہے'' جسے چین نے سختی سے مسترد کرتے ہوے داخلی معاملات میں
دخل اندازی قرار دیا ہے، بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ایشین ٹائیگر
بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی میں BIMSTEC کو فعال
کرنے پہ زور لگا رکھا ہے اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے تعلقات کو بڑھانے
کے لیے کوشاں ہے، حالیہ G-7 سمٹ میں چین کو نظرانداز کیا گیا جبکہ بھارت کو
مدعو کیا گیا اس کے علاوہ متعدد بار ٹرمپ نے کہا ہے کہ بھارت 1.2 بلین
آبادی کا ملک ہے اور ہمارا دوست ملک ہے درحقیقت اب امریکہ و اتحادی بھارت
کو چین کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ بھارت میں ان ممالک کو
سستی لیبر اور اپنی مرضی کی شرائط کی امید ہے، سستی لیبر کی وجہ سے امریکہ
و دیگر مغربی ممالک کی بڑی بڑی کمپنیوں کے پلانٹ چین میں لگے ہوے ہیں جوکہ
اب یہ ممالک چین سے بھارت منتقل کرنے جارہے ہیں جس سے چین کے لیے بہت
مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، دوسری طرف چین اپنی بحری طاقت میں اضافہ کررہا ہے
اس ضمن میں چین ہارن آف افریقہ میں اپنا نیول بیس اور سری لنکا کی اہم
بندرگاہ کو اسٹیبلش کرنے کے بعد CPEC کے زریعے گوادر پورٹ کو اپنی تجارت کا
مرکز بنارہا ہے جس کے پیش نظر امریکہ، بھارت و دیگر قوتیں پاکستان کے خلاف
سازشوں میں مصروف ہیں، امریکہ و مغربی ممالک بھارت کی بزنس مارکیٹ کی وجہ
سے اس کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جارحیت پہ آنکھیں بند کیے
ہوے ہیں، نریندر مودی جیسے سفاک دہشتگرد کو ریڈ کارپٹ پروٹوکول اور
ایوارڈوں سے نوازنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اب چین کے لیے یہ لازم ہے کہ
وہ بھارت گردی پر نظر رکھنے سے دو قدم آگے آکر سخت اقدامات اٹھائے اگر
بھارت کے مذموم مقاصد کو فی الفور نہ روکا تو چین کے لیے بہت سی مشکلات
کھڑی ہوسکتی ہیں، ہندوتوا حکومت کی مکاری کا یہ حال ہے کہ ایک طرف وہ چین و
روس کیساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے جبکہ دوسری طرف چین و روس کی جڑیں
کاٹنے میں لگا ہے، ہندوتواگرد ایشیا پہ حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں
اور یہ بدمست ہاتھی اس نشے میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پہ ظلم کے پہاڑ
توڑ رہا ہے ہندوتوا گردی کی مکاری اب زیادہ عرصے نہیں چلنے والی، چینی صدر
کے دورے کے بعد اب بھارت کے پاس ایک ہی آپشن ہے یا تو وہ ہندوتواگردی سے
باز رہے یا سنگین نتائج کے لیے تیار رہے۔
|