گیلانی کی آمد ایک نیک شگون

شمالی ہند میں ہڈیوں کو جما دینے والا سردی کا موسم جارہا ہے اور موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف رنگ رنگ کے پھول کھلے ہیں اور پیڑ پودوں میں نئی کونپلیں نکل رہی ہیں ۔ خوشگوار تبدیلی کے اس موسم میں یہ خبر خاص رومانویت رکھتی ہے کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی دعوت پر پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہند آرہے ہیں۔ آس بندھی ہے کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان یہ نئی پہل پورے خطے کے لئے پر بہار ثابت ہوگی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہند پاک اعلیٰ قیادت کے درمیان کرکٹ کے بہانے رابطہ قائم ہوا اور بگڑتے ہوئے حالات بہتر ہوئے ۔ ۷۸۹۱ءمیں، جب ہند پاک جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا، صدر جنرل ضیاءالحق میچ دیکھنے کے بہانے جے پور آئے ۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات اگرچہ مختصر ہوئی مگر اس کا اثر یہ ہوا کی جنگ کے بادل چھٹ گئے۔ سنہ۵۰۰۲ءمیں ایسا ہی ایک میچ دیکھنے کے لئے جنرل پرویز مشرف کا دہلی آنا تو بڑا ہی بار آور ثابت ہوا ۔ اس دورے کے بعد اعتماد سازی کے اہم اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا،کشمیر کے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے خاموش سفارتی کوششوں کی طرح پڑی اور اصولی طور پر کنٹرول لائن کو بے اثر کرنے کا طے ہوا، جس کے نتیجہ میں در اندازی کا زور ٹوٹا، دہائیوں سے چلی آرہی گولی باری پر لگام لگی اور ریاست کے دونوں حصوں کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کی راہیں کھلیں۔چنانچہ یہ امید بجا ہے کہ ہند کی دعوت پر مسٹر گیلانی کی آمد ایک نئے موسم بہار کا آغاز بن سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس دعوت کو کس قدر اہمیت دی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ مسٹر گیلانی لندن جانے والے تھے جہاں ان کے بیٹے علی حیدر کے جگر کا ایک پیچیدہ آپریشن ہونا ہے۔ مگر اب وہ ہند آرہے ہیں۔ یقیناً ان کا یہ تدبر قابل ستائش ہے۔ ان کے اس ایثار پر سرحد کے دونوں طرف ہزارہا بے بس ہاتھ اٹھیں گے اور کمسن حیدر کے لئے دعا گو ہونگے۔

وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بڑی عجلت میں صدر آصف علی زرداری اور مسٹر گیلانی کو موہالی میں ہند پاک سیمی فائنل عالمی کپ کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت دی ۔ مشوروں کا موقع نہ تھا ۔ سفارتی ذریعہ کا انتظار بھی بار تھا۔ چنانچہ وزیر اعظم کے دفتر سے ہی دعوت نامے براہ راست فیکس کردئے گئے۔ باضابطہ دعوت نامے دوسرے دن سفارتی ذریعہ سے پہنچائے گئے۔ مسٹر سنگھ نے جب یہ فیصلہ کیا تو مسٹر گیلانی سرکاری دورے پر تاشقند میں تھے ۔رات میں واپس آتے ہی وہ صدر کے دفتر پہنچے۔ دو گھنٹے کے غور و خوض کے بعد نہ صرف یہ کہ دعوت نامہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا بلکہ خیر سگالی کے جذبہ کا ایک اور اظہار یوں کیا گیا کہ اسی میٹنگ میں صدر زرداری نے ایک ہندوستانی شہری گوپال داس کی رہا ئی کا حکم بھی صادر کردیا جو جاسوسی کے الزام میں ۷۲ سال سے لاہور میں قید تھا۔ پریس کو دونوں خبریں ایک ساتھ دی گئیں۔ ایک ہی ماہ پہلے سپریم کورٹ کے معزز جج مارکنڈے کاٹجو نے پاکستان سے انسانیت کے ناطے گوپال داس کو رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔

وزیر اعظم کے دفتر نے جو تدبیر اختیار کی، اس سے پاکستان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس دعوت نامے کے پس پشت کوئی سفارتی سیاست کاری نہیں بلکہ حکومت ہند کی نیک نیتی کار فرما ہے۔ ۴۲ مارچ کو آسٹریلیا کی شکست کے بعد جیسے ہی یہ طے ہوا کہ اب موہالی سیمی فائنل میں ہند اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہونگیں، وزیر اعظم کے دفتر نے اس امکان کا جائزہ لینا شروع کیا کہ کیا وزیر اعظم میچ دیکھنے موہالی جاسکتے ہیں؟وزیر اعظم نے اپنے دفتر کو ہدایت دی کہ براہ راست اسلام آباد سے رابطہ قائم کر کے اس امکان کا جائزہ لیں کہ کیا اس موقع کو پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے ساتھ رابطہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ یہ کاروائی خاموشی سے کی گئی کہ اگر کسی وجہ سے پاکستان آمادہ نہ ہو تو رشتوں میں نئی کھٹاس پیدا نہ ہونے پائے۔جیسے ہی اسلام آباد سے جواب ملا کہ دعوت نامہ جلد از جلد روانہ کئے جائیں۔مسٹر زرداری اور گیلانی ، دونوں کو مدعو کرنے میں بڑی دوراندیشی یہ رہی کہ ان میں سے کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کے اس اقدام کا پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور دانشور طبقے میں پرزور خیرمقدم ہوا ہے ۔ پاکستان کے داخلہ سیکریٹری قمرا لزماں چودھری نے کہا: ’ڈاکٹر سنگھ کے اس جذبہ کی ستائش پورے ملک نے کی ہے۔‘بڑی اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکریٹری ، سابق وفاقی وزیر ، سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سابق چیرمین اور معروف صحافی مشاہد حسین سید نے توقع ظاہر کی ہے کہ :یہ دورہ دونوں پڑوسی ملکوں کے تعلقات میں ایک تاریخی کامیابی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم گیلانی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کے ساتھ مذاکرات میں مثبت روش اختیار کریں۔(فرنٹیر پوسٹ)

لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹررسول بخش رئیس نے اس کو دو پڑوسی ممالک کے درمیان ایک عظیم تاریخی موقع اور قابل توجہ اشارہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے وثوق کے ساتھ کہا یہ دعوت نامہ دکھاﺅٹی نہیں ۔ یہ ہندو پاک رشتوں پر از سونو غور کرنے کا ہی موقع نہیں دیگا بلکہ دونوں وزرائے اعظم کو اپنے رشتوں کو نئی جلا دینے کا بھی موقع ہوگا۔‘ (روزنامہ ڈان)۔یہ بات قابل ذکر ہے مسٹر گیلانی ڈاکٹر سنگھ کا بڑا احترام کرتے ہیں اور مسٹر سنگھ وزیر اعظم پاکستان کے آبا و اجداد کے بڑے مداح ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی نے، جو ہند کی پاکستان پالیسی پر عموماً نکتہ چینی کرتے ہیں ، اس دعوت نامے پر بڑا ہی مثبت تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دعوت نامہ اس بات کا مظہر ہے کہ ہندوستان کی پالیسی میں جوہری تبدیلی آئی ہے۔ نومبر ۸۰۰۲ءمیں ممبئی پر دہشت گرد حملے کے بعد سے ہند ایک نکاتی ایجنڈے’ دہشت گردی کے خاتمہ‘ پر مصر تھا۔اب اس میں تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ موہالی ملاقات سے کسی غیر معمولی نتیجہ کی توقع نہیں کی جانی چاہئے تاہم اس سے ماحول میں تلخی یقیناً کم ہوگی۔(ڈان)

ہندوستان بھی اس تاریخی لمحہ کا منتظر ہے۔ سنٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئر فیلو سی راجہ موہن نے پتہ کی بات یہ کہی ہے کہ کابل میں ہندستانی سفارتخانے پر (جولائی ۸۰۰۲) اور ممبئی پر(نومبر ۸۰۰۲) کے دہشت گردانہ حملوں کے لئے پاکستان کے سویلین لیڈر آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی نہ تو ذمہ دار تھے اور نہ وہ اس کے تدارک پر قادر ہیں، اس لئے ایسی بات پر اصرار کر کے جو عملاً ممکن نہیں، ہندوستان نے اپنے آپ کو ایسی صورت میں ڈال لیا تھا جس میں کامیابی کا امکان نہیں تھا۔ مسٹر راجہ موہن نے مشورہ دیا ہے کہ ایسا سیاسی اقدام ہی کارگر ہوگا جس سے اسلام آباد میں گنجائش پیدا ہو اور توقع ظاہر کی کہ اس اقدام سے کچھ مثبت تبدیلیاں آئیں گیں ۔ ان کا کہنا ہے جو چیز سفارتکاری سے دشوار ہے، سیاست سے اس کے لئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ کے ڈائرکٹر اور جموں یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر امیتابھ مٹوکو امید ہے کہ وزرائے اعظم کی یہ ملاقات دو طرفہ تعلقات میں یقیناً ایک نئی پہل ثابت ہوگی اور اس سے جموںو کشمیر کے حالات پر سیدھا اثر پڑے گا۔انڈین ایکسپریس کے کالم نویس انیس جیلانی نے وکی لیکس کے اس شاطرانہ ’انکشاف ‘کا محاسبہ کیا ہے ہند پاک تعلقات کے معاملے میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو خود اپنی ہی حکومت کے پالیسی سازوں کی تائید حاصل نہیں ہے۔’انکشاف ‘کے بموجب وزیر اعظم کے اس نظریہ کو کہ ہند اور پاکستان کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے، قومی سلامتی مشیر (این کے نارائنن)نے مسترد کردیا تھا۔ نئی دہلی میں امریکی سفیر ٹموتھی روئمر کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے پاکستان سے مذاکرات کے معاملے میں وزیر اعظم اکیلے پڑ گئے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کانگریس بھی پاکستان سے خار کھائے ہوئے ہے۔لیکن وزیرا عظم کی اس پہل نے ان قیاسات کی پول کھول دی ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل نواز وکی لیکس نے امریکی سفیر کا یہ کیبل ہند پاک داخلہ سیکریٹری مذاکرات سے عین قبل جاری کیا تھا تاکہ مذاکرات پر منفی اثر پڑے اور ڈاکٹر سنگھ کے حوصلے پست ہوجائیں۔ لیکن مسٹر گیلانی کے دورے کی خبر سے ان مذاکرات پر بڑا ہی خوشگوار اثر پڑا جو سر دست دہلی میں جاری ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہند پاک خوش ہمسائیگی اسرائیل مفادات کے منافی ہے۔ ہندستان اسرائیلی اسلحہ کا بڑا خریدار ہے۔اسلحہ کی تجارت پھلنے پھولنے کے لئے امن نہیں بلکہ علاقائی تنازعات ہی سازگار ہوا کرتے ہیں۔

ممبئی پر حملہ (جس میں اسرائیلی سازش کا شک ہے) کے بعد تعطل کے شکار مذاکرات کا نیا دور فروری میں تھمپو میں خارجہ سیکریٹری ملاقات کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ داخلہ سیکریٹری ملاقات اسی سلسلہ کی اگلی کڑی ہے۔ توقع ہے کہ عنقریب وزرائے خارجہ کے درمیان دہلی میں جائزہ میٹنگ ہوگی۔سر کریک، سیاچن اور بعض دیگر ایسے معاملے ، جن پر ممبئی حملے سے قبل تقریباً مفاہمت ہوچکی تھی،پہلے طے ہوجائیں گے۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ جلد ہی اسلام آباد جائیں گے اور چند معاہدوں پر دستخط ہوجائیں گے۔ موہالی میں سیاسی سطح کی اس چوٹی کانفرس سے یقیناً سفارتی سطح پر مذاکرات کے لئے زیادہ سازگار فضا بنے گی ۔قیدیوں کی رہائی ، دوطرفہ تجارت اور آمد و رفت میں سہولتوں سمیت بعض اقدامات جلد متوقع ہیں۔ وزیر اعظم کی اس پہل پر سر دست شیو سینا نے تو نکتہ چینی کی ہے مگر بھاجپا اور بائیں بازو کی پارٹیاں خاموش ہیں ۔ ہوسکتا ہے رواں اسمبلی انتخابات کے بعد یہ دونوں بازو اسی طرح بے اصولی مخالفت پر کمر بستہ ہوجائیں جیسی نیوکلیائی معاہدے کی کی تھی۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.