الطاف اور عمران میں بڑھتی سیاسی قربت

شہر کراچی میں گزشتہ ہفتے بھی لاشیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا اور ایک اندازے کے مطابق35سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا شہر میں گزشتہ22روز سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے جس سے شہر کی فضاء سوگوار ہے عوام خوف وہراس میں مبتلا جبکہ سرمایہ کار عدم تحفظ کا شکار ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کار یہاں کا رخ نہیں کررہا جبکہ سرمائے کے انخلا کا سلسلہ بدستور جاری ہے،رہی سہی کسر گرمی بڑھنے پر کے ای ایس سی پوری کردے گی۔لیکن اس کے باوجود امن وامان کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ بالکل حوصلہ افزا نہیں ہے۔یوم پاکستان کے روز سعود آباد اور ملیر کے علاقوں میں راکٹوں سے حملہ کیا گیا جن میں سے ایک راکٹ ایک مدرسے اور دوسرا کھیت میں گرا اگرچہ اس سے جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن یہ عمل حکومتی رٹ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے کہ پولیس اور رینجرز کی موجودگی کے باوجود شر پسند اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔اس سے دو روز قبل دستی بم سے بھی حملہ ہوا تھا۔20مارچ کے دن کی فائرنگ سے13افراد جاں بحق اور 3گاڑیاں نذرآتش کی گئی تھیں اسی روز سی سی پی او کراچی سعود احمد مرزا نے پریس کانفرنس میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گروہ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھا جنہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کے30سے زائد کارکنوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔اس سے اگلے ہی روز گھوٹکی میں کچے کے علاقے میں آپریشن کے دوران9 ڈاکو ہلاک اور ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ ملزمان کی طرف سے راکٹ بھی داغے گئے جبکہ پولیس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی مدد لی ان تمام واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی کرداروں اور ملکی آلہ کاروں کی مدد سے کراچی کے امن کو تباہ کرنے کی سازش کی جاری ہے۔یہاں اسلحہ تو ماضی میں بھی بہت تھا لیکن اب اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔

گزشتہ ہفتہ کی ایک اہم سیاسی پیش رفت الطاف حسین اور عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابط تھا۔دونوں ر ہنماﺅں نے ڈرون حملوں،ریمنڈ ڈیوس،ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت دیگر اہم قومی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا اور رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنے کا کہا گیا۔دونوں جماعتوں کے درمیان گزشتہ چند سال سے شدید تناﺅ جاری تھا۔12مئی2007ءکے سانحہ کے بعد قائد تحریک انصاف، الطاف حسین کے خلاف خاصے متحرک ہوگئے تھے اور دستاویزات لے کر لندن چلے گئے تھے۔دونوں جماعتوں کی جانب سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا اور اب دونوں قائدین نے قومی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دونوں جماعتیں ذاتیات پر حملوں کی بجائے مسائل کے حل کیلئے اکٹھے ہوں اور جس طرح سے ایم کیو ایم اپنا نیٹ ورک پھیلا رہی ہے اور گزشتہ ہفتے اس نے لاہور میں بھی اپنا آفس کھول لیا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف بھی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے اور خیال یہی کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں یہ دونوں جماعتیں ایک مضبوط انتخابی اتحاد ثابت ہونگی لیکن اس سے قبل الطاف حسین کا وطن واپس آنا بھی ضروری ہے جیسا کہ حافظ حسین احمد نے بھی کہا ہے کہ الطاف حسین وطن واپس آجائیں اس سے بڑا انقلاب اور کوئی نہیں ہوگا جبکہ بی بی سی نے اپنے ایک تبصرہ میں کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے کراچی کے کنٹرول کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لی ہے اور اس کے بدلے میں متحدہ مرکز میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرے گی۔ادھر اتوار کا شیر اس بار بھی جاگ گیا اور وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جن کو ہٹائے جانے کی اطلاعات تھیں اب بھی گرج اور برس رہے ہیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ صد زرداری کی رٹ کو چیلنج کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔وڈیروں اور جاگیرداروں کے خلاف ہوں نہ ان کو تنقید کا نشانہ بنایا یہ سندھ کے کلچر کا حصہ ہے جبکہ پی پی کے ارکان اسمبلی سندھ بدستور ذوالفقار مرزا کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بیانات آرہے ہیں کہ ذوالفقار مرزا پر الزام لگانے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں مفاہمت کو کمزوری نہ سمجھا جائے عوام جانتے ہیں کون امن کی سیاست کرتا ہے اور کون بندوق کی سیاست کر رہا ہے۔ ادھر یوم پاکستان کے روز اوباڑو میں ایک افسوس ناک واقعہ میں2مریض جان کی بازی ہار گئے صورتحال اس وقت خراب ہوگئی جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ہزاروں کا رکنوں نے ماروی میمن کی قیادت میں قومی شاہراہ پر دھرنا دیا جس سے سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹریفک معطل ہوگئی اور ہزاروں گاڑیوں کی لمبی قطار بن گئی۔مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے ماروی میمن سمیت50خواتین کو گرفتار کر کے مقدمہ قائم کردیا۔جس کی ق لیگ کی قیادت نے شدید مذمت کی دریں اثنا جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن نے کراچی میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دنیا کے تمام انسانوں کو غلام بنانا چاہتا ہے۔لیکن اس میں بس اتنا اضافہ کر دینا چاہیے تھا کہ آج عوام اور پسے ہوئے لوگوں کو غلام نہیں بنایا جاتا صرف حکمرانوں کو ہی امریکہ غلام بناتا ہے اور یہ غلام، غلام ذہنیت سے جو کچھ کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔
Shehzad Iqbal
About the Author: Shehzad Iqbal Read More Articles by Shehzad Iqbal: 65 Articles with 43821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.