آج صبح ناشتہ بنانے کیلئے کے لیے تین انڈے لیے اور کچن کی
جانب روانہ ہوئی ۔فراانگ پین چولہے پے رکھا آئل ڈال کے دوسری طرف سلائس سیک
کے مکھن لگایا ۔آئل گرم ہو چکا تھا پہلا انڈا ڈالا تو یقین کیجیے سکڑ کر
کسی کپ کے پیندے جتنا ہو گیا ۔دوسرا ڈالا اسکا بھی یہی حال تیسرا ڈالا وہ
بھی اتنا کے ایک نوالہ میں کھا لو۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کے مرغی میں کیا فالٹ
تھا ۔خیر ناشتہ کر لیا ہم نے مگر ناشتے کے بعد سے طبیعت کچھ بھاری سی رہی
لگا جیسے ہضم نہیں ہوا جو کھایا تھا ۔دوپہر ہو گئی مگر سنیے کا بھاری پن کم
نہ ہوا ۔
دوپہر کو ٹیلی ویژن پے نیوز چل رہی تھیں کہ مارکیٹ میں پلاسٹک کے انڈے بک
رہے ہیں ۔عوام کو ہوشیار رہنے کو کہا جا رہا تھا اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ
آج جو زہر ہم نےکھایا اسکا کیا ؟جو مریض ابال کے انڈے کھا رہے ہیں انکا کیا
؟جن بچوں کو ابھی ابھی کچھ کھلانا شروع کیا ہے انکی ماؤں نے اور وہ یہ سوچ
کے انڈے کھلا رہی ہیں کے بچے کی صحت اچھی ہوگی انکا کیا ؟
یہ ضمیر فروش لوگ کب ڈریں گے خدا سے ۔اپنے ذرا سے منافع کے لیے لوگوں کی
زندگیوں سے کھیل رہے ہیں یہ لوگ ۔کاش کے سزا مل جائے انکو اس حرکت کی ۔مگر
اگر انکو سزا نہ ملی تو ہم یونہی روز زہر کھاتے رھیں گے اور اپنے بچوں کو
بھی کھلاتے رہیں گے ۔
|