ترکی نے شمال شام میں ’ آپریشن پیس اسپرنگ ‘ کے نام سے
ترک و شامی سرحد پر اپنے اہداف حاصل کررہی ہے۔ ایس ڈی ایف (شامی ڈیموکریٹک
فورسز) کی مزاحمت اور امریکا کی دھمکی کو ترکی کو روک نہ سکیں ۔ گوکہ ایس
ڈی ایف ، داعش کے خلاف امریکا کی حلیف جماعت ہے لیکن موجودہ صورتحال میں
پہلے امریکی صدر دونوں جانب سے جنگ بندی کرانے کی کسی قسم کی موثر کوشش
کرتے نظر نہیں آئے بلکہ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں کی
حفاظت نہیں کرپارہے تو ان حالات میں ہم اپنے فوجیوں کو ترکی اور شام میں
50برس مزیدنہیں رکھ سکتے ۔ انہوں نے شام میں امریکی مداخلت کی غلطی کو
تسلیم کیا اور توقع ظاہر کی کہ YPG/PKK ترکی سرحدوں سے پیچھے ہٹ جائے گی
اور ترکی کو سرحدیں حوالے کردی گی۔انہوں نے کہا ہے کہ '' میرا فیصلہ جو بھی
ہو میڈیا کا ہدف بنے گا۔ امریکا و ترکی دوران عارضی جنگ بندی کا معاہدہ
ہوچکا ہے لیکن ترکی ورزات دفاع کے مطابق 20سے زائد مرتبہ کرد ملیشیا جنگ
بندی کی خلاف ورزی کرچکی ہے ۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ
YPG/PKK بھی علاقے سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ کیونکہ جنگی طیارے کے بغیر جنگی
طیارے والی طاقت کو شکست دینا بہت مشکل ہے''۔ سینئر ترک سیکیورٹی اہلکار
ترک وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ چشمہ امن کاروائی کے دائرہ کار میں شام
میں دریائے فرات کے مشرقی کنارے کے علاقے راس العین کے رہائشی علاقے کا
کنٹرول ترک دستوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ ترک وزارتِ دفاع کے مطابق ترک
فوجیوں نے راس العین میں مخالفین کے اہداف کو توپ کے گولوں اور ایف۔ 16
طیاروں کی بمباری سے تباہ کر دیا ہے۔نیز خشکی سے کمانڈوز کے ہمراہ شامی
نیشنل فورسسز قدم بہ قدم پیش رفت حاصل کر رہی ہیں۔اولین طور پر رسول العین
اور تل ابیض کے درمیانی علاقے میں واقع 14 دیہاتوں پر شامی نیشنل فورس نے
قبضہ کرلیا ہے۔ راس العین میں گھمسان کی جھڑپیں ہوئیں، اولین طور پر تحصیل
کے صنعتی علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا، بعد ازاں شامی نیشنل
فورسسز نے شہر کے مرکزی علاقے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ترک وزارتِ دفاع کے
مطابق وہاں پر نصب دہشت گرد تنظیم کے جھنڈوں کو اتار دیا گیا۔ جب کہ شامی
نیشنل فورس نے علاقے میں چھان بین کا کام شروع کر دیا ہے۔ترک وزارت دفاع نے
اس حوالے سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ''کاروائی کے دائرہ کار میں راس
العین کے رہائشی علاقوں کا کنٹرول ترک اور نیشنل شامی فورس کے ہاتھ میں آ
گیا ہے۔''جبکہ اطلاعا ت کے مطابق شام کے شمال مشرق میں کرد زیرقیادت
انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ لڑائی سے اب تک قریب دو لاکھ افراد نے اپنے
گھروں کو چھوڑ دیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، ایک
لاکھ سے زیادہ افراد نے راس العین اور تل ابیض شہر کو چھوڑ دیا ہے۔ بعض
امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ترکی کی دخل اندازی اپنے نیٹو اتحادی کے
ساتھ تعلقات میں ''بہت بڑا نقصان'' پہنچا رہی ہے۔ نیٹو کے دوسرے اتحادی
جرمنی اور فرانس نے ترکی کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ترکی کو
ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی عائد کررہے ہیں۔عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا
ہنگامی اجلاس قاہرہ میں ہوا اور اس میں شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی
کی فوجی کارروائی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا۔
عرب لیگ تنظیم کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اجلاس کی صدارت کی۔اجلاس
کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں ترکی کی شام میں فوجی کارروائی کو ایک عرب
ریاست کی سرزمین پر چڑھائی اور اس کی خودمختاری کے خلاف جارحیت قرار دے کر
مذمت کی گئی۔ ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان حامی آق سوئے نے عرب لیگ اجلاس
میں ترکی آپریشن پر اعلامیہ جاری کرنے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عرب
لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ’’ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کو عرب
دنیا اور عرب عوام کی آواز بننا چاہیے لیکن ان کا شامی عربوں کے حق حقوق کا
دفاع کرنے کی بجائے شام میں عربوں کے خلاف کئے جانے والے جرائم کا سبب بننا
اور عربوں کے وطن کے حصے بخرے کرنے میں مصروف دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنا
عبرتناک پہلو ہے‘‘۔انہوں نے کہا ہے کہ’’ بیت المقدس سمیت مشرق وسطیٰ اور
شمالی افریقہ کے جغرافیہ میں لاکھوں انسانوں کو متاثر کرنے والے غیر مشروع
اقدامات اور مظالم کے مقابل چُپ سادھنے والے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل شام
کی زمینی سا لمیت کی دشمن ایک دہشت گرد تنظیم کی بجائے ترکی پر قابض قوت
ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اور یہ چیز اس دہشت گرد تنظیم کے جرائم میں حصے
دار بننے اور عرب دنیا کی توہین کرنے کے مترادف ہے‘‘۔ برطانوی وزیر اعظم
بورس جانسن نے بھی ترک صدر طیب اردوان سے اس حملے کے بارے میں اپنی ''شدید
تشویش'' کا اظہار کیا ۔صدر اردوان نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کے
ساتھ ٹیلی فون پربات کی، انہوں نے بورس جانسن کو، 9 اکتوبر کو شام میں
دریائے فرات کے مشرق میں شروع کئے گئے، چشمہ امن آپریشن کے مقاصد سے آگاہ
کیا۔صدر اردوان نے کہا ہے کہ’’ شام کے شمال سے دہشت گرد تنظیموں PKK/YPGاور
داعش کا خطرہ مکمل طور پر ختم ہونے تک آپریشن جاری رہے گا۔ اس طرح شامی
مہاجرین کی رضا کارانہ اور محفوظ شکل میں اپنے گھروں کو واپسی ممکن ہو سکے
گی‘‘۔
ترکی کے اس حملے سے عام شہریوں کے بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے اورداعش
عسکریت پسندوں کے شام سے جنگجو گروپ کی بغاوت کی بحالی کا باعث بنے ہوئے
کرد جیلوں سے فرار ہونے کے امکان پر بین الاقوامی خطرہ بڑھ گیا ہے۔ترکی کی
جانب سے شمالی شا م میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن پرامریکی ریپبلکن سینیٹر
لنڈسے گراہم نے سخت مخالفانہ رویہ اختیار کیاہوا ہے، اس کے ساتھ ہی
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتَن یاہونے بھی ترکی آپریشن کو ڈراؤنا خواب
قرار دیتے ہوئے مخالفت شروع کردی ہے۔ ‘ امن چشمہ آپریشن‘ کے حوالے سے ترکی
پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو بھی گرفتار رکھے
گا جو الھول کیمپ شام کے شمال مشرقی علاقے میں بے گھر ہونے والے افراد کے
لیے قائم کیا گیا تھا اور یہ امریکا کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز
(ایس ڈی ایف) کی شہری انتظامیہ کے زیراہتمام ہے۔شمالی شام پر ترکی افواج کے
حملے کے بعدایسی جیلوں سے کئی خاندانوں کو فرار کرانے اور ہونے کی اطلاعات
آنا شروع ہوگئی ہیں۔اس وقت صرف الھول کیمپ میں ستر ہزار سے زائد سخت گیر
داعش کے خاندان و حامی انتہائی تکلیف دہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان میں زیادہ
تر عراق، شام اور یورپ سمیت کئی دیگر ممالک سے شام کی خانہ جنگی میں شریک
داعش جنگجوؤں سے شادیوں کے بعد رہنے والے اور حمایت کرنے والے شامل ہیں۔ترک
امن چشمہ آپریشن کے بعد (ایس ڈی ایف) نے داعش کے خاندانوں کو واپس اُن کے
ممالک بھیجنے کی دہمکیاں بھی دے رہے ہیں۔روس، قزاقستان، ازبکستان، تاجکستان
اور کوسوو نے دولتِ اسلامیہ جنگجوؤں کے ساتھ شام جا کر لڑنے والے اپنے
شہریوں کو واپس لینے کا عندیہ دیا تھا لیکن مغرب سمیت بیشتر ممالک کی
پالیسی یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو شامی قید خانوں اور کیمپوں ہی میں رکھیں
ان ملکوں کے علاوہ جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے دولتِ اسلامیہ کے پکڑے
جانے والے ہزاروں جنگجو ایسے بھی ہیں جن کا تعلق مختلف اسلامی ملکوں مصر،
تیونس،یمن اورعراق سے ہے۔
دولتِ اسلامیہ میں بہت سے مقامی شامی شہری بھی شامل تھے۔واضح رہے کہ الھول
کیمپ کے علاوہ دو مزید کیمپوں میں ہزاروں کی تعداد میں داعش کے گرفتار
خاندان آباد ہیں جو واپس اپنے ملک جانا بھی چاہتے ہیں لیکن انہیں مغربی
ممالک قبول کرنے کو تیار نہیں۔ امریکی صدر نے ترکی کو دہمکی میں یہ بھی
باور کرایا ہے کہ انہیں داعش کو بھی قابو میں رکھنا ہوگا۔ لیکن ترکی حملے
سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد جس طرح (ایس ڈی ایف) کو شکست کا سامنا
ہے۔ روس سمیت کئی اہم ممالک نے ان خدشات کیا ہے کہ گرفتار دولت اسلامیہ کے
جنگجوؤں کی بڑی تعداد کیمپوں سے فرار ہو سکتی ہے۔ ترکی لاکھوں مہاجرین کے
لئے سیف زون بنانے کے لئے کرد ملیشیاؤں کے خلاف سخت گیر کاروائی تو شروع
کرچکا ہے لیکن جہاں مہاجرین کے لئے ترکی آپریشن طویل ہوسکتا تو تو دوسری
جانب دولت اسلامیہ کے حامیوں کی بڑی تعداد کے فرار ہونے کے خدشے نے سوالیہ
نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ جو دوبارہ شام، عراق، افغانستان سمیت کئی ممالک میں
دوبارہ جمع ہوسکتے ہیں۔بالخصوص اس وقت افغانستان داعش کے مفرور وں کے لئے
ایک آئیڈیل’’سرزمین‘‘تصور کی جاتی ہے۔
تھنک ٹینک اینڈ سٹریٹیجک ریسرچ فورموں میں سے اسلام و عرب سول سوسائٹی کی
نمائندگی کرنے والے 103 مفکر، سفارتکار اور اکیڈمیشنز نے چشمہ امن آپریشن
کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ان افراد نے اقوام متحدہ کے نام پر چشمہ امن
کاروائی کی واضح طور پر حمایت کرنے والا ایک ڈیکلریشن جاری کیا ہے۔جس میں
کہا گیا ہے کہ ’’ترکی کی یہ عسکری کاروائی شام کے شمالی علاقہ جات میں
سلامتی کے ماحول کی بحالی کا مقصد رکھتی ہے، علاقے میں داعش اور شامی عوام
کے قدرتی مرکب ہونے والے کردوں کی نمائندگی کرنے کے دعوے کرنے والی مسلح
دہشت گرد تنظیم شام، ترکی اور پوری دنیا کے لیے خطرہ تشکیل دیتی ہے۔یہ مسلح
دہشت گرد گروہ تمام تر عالمی قوانین کے برخلاف انسان سوز جرائم کا ارتکاب
کر رہی ہے، مسلم امہ اور عرب برادری کی روشن خیال شخصیات ترکی کی اس
کاروائی میں اس کے شانہ بشانہ ہے‘‘۔ترکی حکومت کو جہاں عسکری کاروائی پر
حمایت مل رہی ہے تو دوسری جانب سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے ۔ خاص
طور پر کرد جیلوں میں موجود داعش کے ہزاروں شدت پسندوں پر ایس ڈی ایف کی
گرفت کمزور ہونے کے خدشات ترکی پر ذمے داری بڑھا رہے ہیں کہ داعش جسے شام و
عراق میں شکست دی جا چکی ہے ، کہیں دوبارہ اٹھ کھڑے نہ ہوں۔
|