کیا فائیو پیز”P“ کا مجموعہ ہے
پاکستان..؟
حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بحث وتکرار اور پرسنٹیج کے ہاتھوں قوم کا مقدر
کِھلونا بن گیا ہے.
معاف کیجئے گااور! مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہمارا یہ ملک جِسے مسلمانوں نے بے
شمار قربانیوں کے بعد ایک اسلامی ریاست کی حیثیت سے حاصل کیا تھا اِتفاق
سے63سال گزر جانے کے بعد بھی اِس میں حقیقی معنوں میں ایسا کوئی اسلامی
قانون رائج نہیں ہوسکا ہے جیسا اِس کے قیام کے وقت اِسے مکمل طور پر ایک
اسلامی ریاست کا تصور بنا کر پیش کیا گیا تھا بہرکیف! بات بہت آگے نکل جائے
گی اِس ڈر سے ہم اپنی یہ بات یہیں ختم کرتے ہوئے اُس جانب جانا چاہیں گے جو
ہمارا آج کا موضوع ہے یعنی یہ کہ آج اگر ہم اپنے ملک پاکستان کا سیاسی طور
پر ایک جائزہ لیں تو ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ہمارا یہ ملک
عظیم پاکستان فائیو پیز”P“ کا ایک مجموعہ معلوم دیتا ہے جیسے کہ اوّل
پریزیڈنٹ، دوئم پرائم منسٹر، سوئم پارلیمنٹرین، چہارم پولیس اور پنچم پریس
ہے اگرچہ یہ سچ ہے کہ آج ہمارے یہاں اخلاقی، سیاسی اور مذہبی سمیت دیگر
معاملات میں سب سے زیادہ پاور فل اور مستحکم پوزیشن میں جو پی ہے وہ پریس
کی شکل میں ہے اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج پریس اول تا چہارم سب کی
فطرت سے اچھی طرح سے واقف ہے اور یہ آج اِس مقام پر ہے کہ یہ عوام کو اِن
سب کے بارے میں حق اور سچ بتاکر قوم میں ایک شعور بیدار کرنے میں اپنا حق
ادا کر رہا ہے جس کے لئے اِس کی یہ خدمات لائق تحسین اور قابل احترام ہیں
اور اِس کے علاوہ سب سے آخر میں ایک ایسا پی ”P“ بھی ہے جو نظر تو نہیں آتا
مگر اِن سب کے علاوہ عوام بھی اِس کی شدت سے طلب گار ہے اور وہ ششم نمبر پر
آنے والا پی ہے ”پرسنٹیج “جس نے ہماری ساری پاکستان قوم کو کسی نہ کسی
حوالے سے اپنے جادوئی اثر میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اَب جس سے ملک کی سترہ
کروڑ عوام چھٹکارہ حاصل کر ہی نہیں پارہی ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بات بھی
پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر جس دن بھی ہماری قوم نے یہ ٹھان لی کہ
”پرسنٹیج “ سے نجات حاصل کرنی ہے اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ بغیر کسی
پرسنٹیج کے ملک اور قوم کی ترقی وخوشحالی کے لئے کرنا ہے تو پھر اِس قوم کے
لئے کوئی مشکل نہیں ہوگا کہ یہ اِس سے چھٹکارہ حاصل کر بھی لے گی پھر دنیا
دیکھے گی کہ ہمارا ملک بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کیسے ترقی کی راہ پر
گامزن ہوتا ہے اور ہم ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرتے ہوئے اُوج ثریا تک
کیسے نہیں پہنچ جاتے ہیں مگر شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر قول وفعل غرض
کہ ہر اعتبار سے جذبہ حُب الوطنی پیدا کرنا ہوگا۔
اگرچہ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑے دنوں سے ہمارے ذہن میں یہ
خیالات اُبھر اُبھر کر آتے کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی بحث
وتکرار سے قوم کا مقدر بنانے کے بہانے اِسے بے وقوف بنانے کا ایک اچھا
طریقہ اپنا رکھا ہے اور بیچاری قوم ہے کہ اِن کی لچھے دار باتوں کے سحر میں
یوں گرفتار ہوجاتی ہے جیسے کسی سپیرے کی بین سے سانپ مست ہوکر اِس کی پٹاری
میں خود آکر بند ہوجاتے ہیں اور سپیرا اِنہیں بند کر کے اپنی بڑی بہادری
سمجھتا ہے اور پھر یہ خیالات یکدم سے جھانک کے مانند ذہن کے خانوں میں خود
ہی بیٹھ جاتے ...مگر آج چونکہ ہم پہلے سے ہی یہ تہیہ کرچکے تھے کہ بھلے سے
کچھ بھی ہوجائے اپنے اِن خیالات کو جو ایک عرصے سے ہمیں پریشان کئے ہوئے
ہیں اِنہیں قرطاس پر بکھیرے بغیر نہیں رہ سکتے اور جیسے ہی ہمیں موقع ملا
ہم نے اپنے اِن خیالات کو اپنے قارئین کے لئے کالم کی شکل دے کر اِن کی
خدمت میں پیش کردیا ہے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب اور معاشرے میں بات بے بات زوردار
الفاظ اور تلخ کلامی کا سہارا لینے والے افراد خواہ وہ حکمران اور سیاستدان
یا کسی ادارے کے سربراہ یا عوام ہی کیوں نہ ہوں وہ کمزرو استدلال کی دلیل
دے رہے ہوتے ہیں اِسی لئے تو دانا کا قول ہے کہ دلائل جتنے کمزرو ہوں گے
الفاظ اتنے ہی سخت ہوں گے اِس مفروضے پر عمل پیرا رہنے والوں کا ایک سب سے
بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اِس سے نہ صرف اِن کی شخصیت کا شیرازہ بکھر جاتا
بلکہ اِن کے اِسی قول و فعل کی وجہ سے لوگوں کا اِن پر سے اعتماد اور
بھروسہ بھی اٹھ جاتا ہے گو کہ اِس عادت میں مبتلا افراد خود کو ایک کامیاب
انسان تصور کرتے ہوئے یہ غلطی بار بار دہرانے میں فخر محسوس کرتے ہیں
حالانکہ یہ افراد اپنے معاشرے میں مکمل طور پر ایک ناکام اِنسان ہوتے ہیں
اور یقینی طور پر ایسے افراد اپنے حلقے میں ایک گپی اور بگ بگ کرنے والے
اِنسان کی سی پہچان کے علاوہ اپنی اور کوئی منفرد پہچان نہیں بنا پاتے جب
ہی تو ہر زمانے میں ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے ایک غیر ضروری بحث
وتکرار کسی بھی عزیز ترین دوست اور رشتہ دار کو بھی جُدا کرا سکتی ہے ۔مجھے
یہاں یہ کہنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ اِتفاق سے آج ہمارے
ملک کے حکمران اور سیاستدان بھی اِسی ڈگر پر چل نکلے ہیں جو بے سوچے اور
بغیر سمجھے ایوانوں سے لے کر عوامی جلسے ، جلوسوں، ریلیوں اور اخبارات کے
علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی اپنے اپنے بیانات اور گفتگو کے دوران زوردار
الفاظ اور تلخ کلامی کا سہارا لے کر اپنے کمزور استدلال کی دلیلوں سے ایک
دوسرے پر سبقت لے جانے اور عوام کو بے وقوف بناکر اپنی اپنی سیاست چمکانے
کا ایک عمدہ طریقہ نکال چکے ہیں جو اِن کی ناکامی کا سبب ہے جبکہ عوام یہ
با ت بھی خوب جانتی ہے کہ جب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام کے فائدے کے
لئے کچھ نہیں کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنی لچھے دار باتوں سے ہی فضول کی بحث و
تکرار کی راہ نکال لیتے ہیں اور اِس طرح عوامی مسائل کو دبا جاتے ہیں جبکہ
عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں سیدھی اور صاف طریقے سے کی
جانے والی کوئی بھی بات دلیل کہلاتی ہے۔اِس سے قطع نظر کہ ہمارے حکمران اور
سیاستدان بےشک ملک اور قوم کے خاطر کچھ نہ کچھ نیک جذبات ضروررکھتے ہوں گے
مگر وہ اپنے قول و فعل سے اپنی عوام کو یہ ثابت کرانے میں بری طرح ناکام
ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور قوم کے لئے بغیر پرسنٹیج کے بھی بہت کچھ بہتر
کرنے کی اُمنگ رکھتے ہیں ۔مگر اِن کی آپس کی لڑائیاں ختم ہونے کو نہیں آرہی
ہیں اِس سے جان چھوٹے تو یہ عوام کے لئے بھی کچھ کریں۔(ختم شد) |