ٹیکنالوجی، معاشی و اقتصادی دوڑ میں سرحدوں کی حیثیت
فقط نظریاتی رہ گئی ہے۔ جو ممالک نظریاتی سرحدوں میں محدود ہیں ان کے علاوہ
ساری دنیا ہی گلوبل ویلج کہلاتی ہے۔ اور اس معاشرے میں کالی اور سفید دونوں
طرح کی بھیڑیں ملتی ہیں ۔ کالی بھیڑیں وہ ہیں جنہوں نے دھونس اور طاقت کے
بل بوتے پر دنیاکو ہتھیانے کی سازشیں رچا رکھی ہیں۔ جن میں امریکہ سمیت
دیگر اس کے ساتھی شامل ہیں ۔ ان ممالک کا نشانہ ہر دانشور کی نظر و رائے
میں مختلف ہے۔ دفاعی تجزیہ کار اسے دنیا بھر کی چوہدراہٹ حاصل کرنے کا نام
دیتے ہیں۔ معاشی و اقتصادی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اسے تیل اور
معدنیات کے حصول کی جنگ قرار دیتے ہیں اور مذہبی سکالر و دانشور اسے مذہبی
نظریاتی جنگ قرار دیتے ہیں۔ لیکن نظریہ چاہے کچھ بھی ہو اس میں تنزلی اور
ذلت کا سامنا صرف انسانیت کو ہو رہا ہے۔ صاف ستھرے لباس اور گوری چمڑی میں
چھپے ہوئے حیوان انسانیت کو روندنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے۔ کمیونزم کے
بھوت نے ان لوگوں کے دل و دماغ سے سچائی اور احساس جیسی چیز نکال پھینکی ہے۔
ان کے علاوہ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی تباہی اور تنزلی سے سبق
سیکھے۔ اور وہ قومیں جان چکی ہیں کہ جنگوں میں کسی کا نقصان نہیں ہوتا ہاں
مگر انسانیت سسکتی ہوئی دم توڑتی ہے۔ ان ممالک میں چین کا شمار بھی ہوتا ہے،
جس نے جنگ عظیم دوئم میں بڑی گھور تباہی دیکھنے کے باوجود اپنی قوم کی خود
داری و خودمختاری کیلئے دنیا بھر میں محنتوں کی مثال قائم کر دی ہے۔
اقتصادی سطح پر انہوں نے صرف اپنے لئے ہی نہیں سوچا بلکہ ساری دنیا کی
اقتصادی ترقی کیلئے کوشاں ہیں ۔ جس کے اوائل مراحل میں وہ خطے کو اقتصادی
ترقی میں اپنے ساتھ چلا رہے ہیں اور اس کے بعد ان کا ارادہ پوری دنیا کو اس
میں شامل کرنے کا ہے۔ لیکن ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ کے مصداق
امریکی سنڈیاں یہ اقتصادی چمن اجاڑنے میں پیش پیش ہیں۔ مادیت پرست تو سب ہی
ہیں لیکن نہر کے دو کناروں کی طرح منزل ایک مگر رستے جداگانہ ہیں۔ یہ بات
تو ازل سے حقیقت ہے کہ جب جب انسان نے قدرت کے اصولوں کی نفی کی ہے تب تب
عبرت کا نشانہ بنے ۔ یہ قدرت کا قانون ہی ہے کہ مخلوقات اپنے لئے نہیں بلکہ
اس چمن کیلئے جیتی ہیں جس میں وہ آباد ہوں۔ اور اسی وجہ سے انہیں بھی ایک
پرسکون زندگی کی فضا نصیب ہوتی ہے۔جو لوگ اس چمن کی آبیاری کرتے ہیں قدرت
ان کے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور جو لوگ اس چمن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں قدرت
انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر آیندہ نسلوں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔ ہم
سب جانتے ہیں کہ معاشی استحکام ممالک کو ہر لحاظ سے مضبو ط بناتا ہے ،یہی
وجہ ہے امریکہ نے جس تعصب کی بنا پر پوری دنیا پر سوویت یونین کے خاتمے کے
بعد راج کیا ہے اس تعصب کے بت کو چین توڑنے جا رہا ہے۔چین کی یہ اقتصادی
ترقی امریکہ اور اس کی ساتھی کالی بھیڑوں کو ہضم نہیں ہورہی۔ یہی وجہ ہے کہ
وہ اب چین میں بھی وہی حالات پیدا کر رہا ہے جو اس نے سوویت جنگ کے دوران
روس میں پیدا کئے یا اب تک تیسری دنیا میں پیدا کر کے وہاں حکومت کرتا آیا
ہے۔ بارڈر پار لوگوں سے تو جنگ کرنا آسان ہوتی ہے کہ جب سارے ملک کے باشندے
ایک قوم یک زبان ہو کر حکومت و افواج کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مگر خانہ جنگی
سے نمٹنا بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے جس کی مثالیں پاکستان اور افغانستان کی
صورت میں ہمارے سامنے ہیں ۔ اس اقتصادی جنگ کا آغاز تو تب سے ہی ہو گیا تھا
جب گوادر پورٹ اور اقتصادی راہ داری منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ امریکہ کبھی
بھی نہیں چاہتا کہ ان سے زیادہ طاقت ور جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک کبھی
بھی معاشی طور پر مستحکم ہو، اسی لئے کسی نہ کسی طور پاکستانی معیشت اپنے
مہروں کے ہاتھوں کنڑول کئے رکھتا ہے۔ بارہا چین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی
کئی کوششیں کی جا چکی ہیں کہ وہ پاکستان میں انویسٹ نہ کرے ، چین کے نہ
ماننے کی وجہ سے آج حالات زیادہ گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں ، امریکہ
اور چین کے درمیان سرد جنگ چھڑ چکی ہے۔ اس کے تدارک میں پاکستان اور چین
پہلے ہی روس سمیت دیگر امریکہ مخالف مما لک کے ساتھ گٹھ جوڑ بنا چکے ہیں ۔
اب چین بھارت کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بھارت کی
منافقانہ پالیسیوں اور دوہرے رویے کی وجہ سے ابھی تک چین کو امریکہ کی طرف
سے بہت سے داخلی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ کیونکہ امریکہ
،بھارت چین بارڈر کو اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کر رہا ہے اور چین کے
مختلف شہروں خاص طورپر ہانگ کانگ میں چین مخالف سازشیں اور علیحدگی پسند
تحریکیں جنم لے رہی ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے چین میں بڑھتی
ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ایک سازشی رپورٹ اقوام متحدہ میں
جمع کروا دی ہے۔ امریکہ کا اس وقت سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح چین کی
اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کی حیثیت ختم ہو جائے جس کے بعد وہ جس طرح چاہے
چین پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں اس نے ترک صدر کو دھمکی
انگیز خط لکھا اور اس میں اس بات کو تسلیم کیاکہ وہ اس کی معیشت کو تباہ کر
سکتا ہے ۔امریکہ نے بیک وقت چین کے ساتھ ساتھ متعدد محاذ کھولے ہوئے ہیں جن
میں ترکی ، رشیا، پاکستان ، افغانستان و دیگر افریکی و لاطینی ممالک شامل
ہیں ۔ تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ جب جب کسی نے طاقت کے نشے میں بیک وقت متعدد
محاذ کھولے تو وہ طاقت کے خاتمے کے ساتھ ہی عبرت کا نشان بنا۔امریکہ کی
بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیاں اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اس کا انجام بہت جلد
متوقع ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آگے جا کر تیسری عالمی جنگ کیلئے رستے
ہموار کرے۔
|