دوستوں 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان کا سیاسی ماحول
انتہائی عجیب صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے پچھلے اداور کی طرح اس دفعہ
بھی اپوزیشن دھندلی کے الزامات لگاری ہے ۔ حکومت کی طرف سے اپوزیشن پر
کرپشن کے مقدمات اور کچھ اپوزیشن ارکان کو جیل میں بھی ڈال دیا گیا ایسے
میں اپوزیشن حکومت پر مختلف الزامات لگا رہی ہے کھبی کہاجاتاہے کہ یہ حکومت
مقتدر محکوموں کی اشرواد سے برسراقتدار آئی ہے تو کبھی دھندلیذدہ قرار دیے
رہی ہے ایسے میں اگر ہمارے ملک کے سابقہ حکومتوں کا جائزہ لیا جائے ایسے
معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی پارٹی برسراقتدار آئی ہو انکو انہی مقتدر محکموں
کا کسی نا کسی شکل میں اشیرباد حاصل ہوتا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اگر ایسا سب پارٹیوں نے اقتدار میں آنا ہے تو پھر یہ لڑائی کیوں ؟
بعض اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتی پارٹی کو اس وجہ سے نااہل سمجھتی ہے کہ
موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کردیا بیروزگاری
میں اضافہ مہنگائی اور محکوموں کی نجکاری سمیت سب کچھ ان کی جولی میں ڈال
دیتے ہیں ۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا یا
اس کے پیچھے بھی کچھ سوالات ہیں ۔
کیوں کہ ایک شاعر کہتا ہے کہ
پروش ہوتی ہے برسوں
حادثہ یک دم نہیں ہوتا ۔
تو دوستوں ایسے میں تمام اپوزیشن جماعتیں یکجہ ہوکر ایک متحدہ اپوزیشن
بنانے میں کامیاب دیکھائی دیتی ہے لیکن ہر پارٹی اپنے تحفظات بھی رکھتی ہے
۔ پھر ایک مزہبی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک کا اعلان کیا جاتا ہے جسے
شروع میں حسب معمول مذہب کا رنگ دیا جاتا ہے پھر اس کو آزادی مارچ کا نام
دیا جاتا ہے ۔ اور حکومت کی ایسا دیکھائی دیتی ہے جیسے وہ بکلاہٹ کا
شکارہوں ۔ تو کیا واقع حکومت بکلاہٹ کا شکار ہے یا پھر عوام کو ماموں بنانے
کا پروگرام ہے ؟
تو دوستوں ایسے حالات میں عوام کس حالت سے گزر رہی ہے ؟ عوامی مسائل کیا
ہیں اور کیا اس لڑائی سے عوامی مسائل حل ہونگے یا عوام کو اپنے مسائل کے
لئے الگ سے منظم ہوکر تحریک شروع کرنا ہوگا
اگر ہم مندرجہ بالا سوالات کے جوابات ڈھنڈنے کے لئے اپنے ملک کے موجودہ
حالات سیاسی اور معاشی حالات کو ساینسی اور تاریحی لحاظ سے دیکھیں گے ۔ تب
جاکے ان تضادات کو سمجھ سکیں ۔
پاکستان میں اس وقت ائی ایم کی نیو لبرل پالیسی چل رہی ہے لیکن یہ پالیسی
ابھی شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا اغاز جنرل مشرف کے دور ہوا جس میں یہ تاثر
دیا گیا کہ اب ملک ترقی کی نئی راہ پر گامزن ہوا اور پھر اس کے بعد آنے
والی حکومتیں اس پالیسی کے تسلسل میں آتی رہی اور آتے آتے پِی ٹی آئی کی
گورنمٹ تک آپ پہنچی ۔۔ اس دوران ہمیشہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر
مختلف دھندلی وغیرہ کے الزامات لگا کر آپس میں لڑتی نظر آرہی تھی ۔ لیکن
یہاں پر سوال یہ ہے کہ یہ پالیسی ہے کیا ہمارے ملک کے عوام پر اس کے کیا
اثرات ہونگے اور اور اا پالیسی کے تسلسل میں حکمرانوں کو کیا فائد حاصل
ہونگے ۔ تواس پالیسی کو سمجھنے کے لئے ہمیں جوزف اسٹکیز کے کتاب کا یہ
ارٹیکل پڑھ کہ کس طرح ورلڈ بینک اور ائی ایم ایف تیسرے دنیا کے ممالک کو
اپنا غلام بنا دہتی ہے
مختلف ممالک کو بینکوں کا غلام بنانے کے لیئے ورلڈ بینک کا چار مرحلوں پر
مشتمل یہ منصوبہ ہوتا ہے۔
پہلا مرحلہ۔ نج کاری
اس مرحلے میں اس ملک کے لیڈروں کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے
کہ وہ اپنے ملک کے اثاثے کئی ارب ڈالر کم قیمت پر ورلڈ بینک کے ہاتھوں بیچ
دیں۔ اس کے لیئے ان بددیانت لیڈروں کو دس فیصد کمیشن دیا جاتا ہے جو انکے
سوئیس بینک کے خفیہ اکاونٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ۔ سرمائے کی آزادانہ منتقلی
اس مرحلے میں وہ سارے قوانین منسوخ کرائے جاتے ہیں جو سرمایہ بیرون ملک
بھیجنے میں آڑے آتے ہیں یا ان پر ٹیکس کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر باہر سے بڑی
مقدار میں سرمایہ اس ملک میں داخل ہوتا ہے اور جائیدادوں کی قیمت بہت بڑھ
جاتی ہے۔ اس ملک کی کرنسی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے
کہ اب یہ ملک بہت تیزی سے ترقی کرنے والا ہے۔ عین اس موقع پر بیرونی سرمایہ
اچانک ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور معیشت بُری طرح بیٹھ جاتی ہے۔
اب اس ملک کو آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور آئی ایم ایف اس شرط
پر مدد فراہم کرتا ہے کہ شرح سود میں 30 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ یہ
سب انڈونیشیا اور برازیل میں ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ ایشیا اور جنوبی
امریکہ کے کئی ممالک میں بھی ہوا ہے۔ بلند شرح سود کی وجہ سے اس ملک پر
غربت چھا جاتی ہے، جائیدادوں کی قیمتیں بہت زیادہ گر جاتی ہیں، صنعتی
پیداوار صفر کی سطح پر آ جاتی ہے اور حکومتی ادارے مفلس ہو جاتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ۔ مہنگائی اور بد امنی
خراب معیشت اور کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے اس ملک میں مہنگائی بہت
بڑھ جاتی ہے۔ جب غذائی اجناس، پانی اور گھریلو استعمال کی بجلی گیس کی قیمت
بڑھتی ہے تو اس ملک میں عوامی بے چینی بڑھتی ہے اور پہلے سے لگائے ہوئے
اندازے کے مطابق جرائم اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی
صورتحال دیکھ کر اس ملک کے سرمایہ دار اپنے پیسے دوسرے ممالک جنہیں وہ
محفوظ تصور کرتے ہیں وہاں منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کے بینک کنگال
ہو جاتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ۔ آزاد تجارت
اب وہ وقت ہوتا ہے جب بین الاقوامی کارپوریشنیں ان ممالک کا رخ کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ ان بیچارے ممالک کی زراعتی پیداوار کی اپنے
ہاں درآمد پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اب ان ممالک کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا
جسے بیچ کر وہ کما سکیں۔ امیر ممالک اپنی دوائیں تک اتنی مہنگی کر دیتے ہیں
کہ ان غریب ممالک میں بیماری اور موت کی شرح بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں کتنے
ہی لوگوں کا نقصان کیوں نہ ہو، بینکار ہمیشہ نفع میں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے
کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے قرضہ لینے والے ہر ترقی پذیر ملک پر قرضہ
لینے کی شرط ہی یہ رکھی ہے کہ بجلی پانی ٹیلیفون اور گیس کے نظام پر انکا
کنٹرول ہو گا۔ اندازہ ہے کہ عوام کی اس دولت کی مالیت 4000 ارب ڈالر ہے۔
اب اس ارٹیکل کے ساتھ موجودہ حالات کو دیکھیں کہ مشرف دور میں اور پھر
زرداری کے دور میں پراپرٹی کا کاربار عروج پر تھا اور ان دونوں ادوار میں
کرپشن کا بوت سر چڑ کر بول رہا تھا ۔ ایک تو مسٹر 10 % تک مشہور ہوا۔ پھر
سوئیس بینکس کے کیسسز اور پھر دزداردی اور نواز حکومت میں ایمنسٹی سکیم کے
زریعے سرمائے کی کو لیگل کرنا اور پھر عمران حکومت کے آنے کے پوراً بعد
معاشی بحران سر چڑ کر بولنے لگا ڈالر کی اڑان بیروزگاری محکاموں کی نجکاری
اور اب آخری مرحلے میں آئی ایم ایف کا بجلی اور گیس کا کنٹرول حاصل کرنا ۔۔
لیکن کوئی بھی پارٹی ان ایشوز پر بات کرنے کو تیار نہیں آخر وجہ کیا ہے ۔
ایسے حالات میں عوام کو متحد ہونا چاہئے اور ان ایشوز پر تحریک چلانے کی
ضرورت ہے کیوںکہ عوام اس وقت مہنگائی بیروزگاری اور صحت اور تعلیم سے ریاست
کی طرف سے مکمل محروم ہوچکی ہے اب ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے کہ وہ عوامی
مسائل کی حل کی تلاش میں متحد ہو اور کیونکہ حکمرانوں کی لڑائی کا ان مسائل
سے کوئی سروکار نہیں ۔ کیونکہ ان میں سے جو بھی برسراقتدار آئے گا اور آئی
ایم ایف کی پالیسیوں کو آگے بڑائے گی ۔۔۔تو ایسے حالات میں فیصلہ عوام نے
کرنا ہے کہ آئی ایم ایف کے غلامی قبول کرکے مذید استحصال کی زندگی گزارے یا
ان ان پالیسوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے متحد ہوکر جدوجہد کا راستہ اپنائے
۔۔۔ اب دو ہی راستے ہیں مصلحت یا جدوجہد ۔۔۔۔
|