اس تاریخی مسجد میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد ہماری
اگلی منزل ”چترال گول نیشنل پارک“کی سیر تھی۔یہ پارک شہر کے ٹاپ پر ایک
وسیع رقبے پر بنایا گیا ہے،اس پارک کی نگرانی محکمہ جنگلات کے ذمے ہے۔اس
پارک میں جنگلی حیات کو رکھا گیا ہے۔جن کی باقاعدہ چک پوسٹ ہے جہاں سے
کلیئرنس کے بعد اس علاقے میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ہمارے ساتھ مبشر تھا جس نے
چترالی زبان میں کوئی بات کی تو ہمیں کسی پوچھ کچھ کے بغیر ہی آگے جانے دے
دیا گیا۔ یوں تو یہ بہت بڑا پارک ہے، جانوروں اور پرندوں کے شکار کے لیے
سال کے کچھ مہینے مقرر ہیں اور متعلقہ محکمہ سے باقاعدہ پرمٹ جاری کیے جاتے
ہیں۔ جس کے لیے فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔غیر قانونی شکار پر بھی نظر رکھی
جاتی ہے لیکن بقول مبشر کے پارک کا رقبہ چونکہ طویل ہے اس غیر قانونی شکار
کو روکنا مشکل کام ہے البتہ جو لوگ غیر قانونی شکار کرتے ہیں وہ اسی جگہ
اسے پکا کر کھا لیتے ہیں ساتھ لانا مشکل ہوتا ہے دوسرا واپسی پر چکنگ بھی
زیادہ ہوتی ہے۔غیر ملکیوں کو بھی یہاں شکار کی اجازت ہوتی ہے لیکن ان سے لی
جانے والی فیس کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ہم صرف چند کلومیٹر ہی اوپر گے وہاں
ایک چوٹی سے آپ چترال شہر کا پورا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ چترال ائیرپورٹ
بھی اسی پہاڑ کی چوٹی کے نیچے صاف دکھائی دیتا ہے۔اس ائیرپورٹ پر چھوٹے
جہاز لینڈ کرتے ہیں کہتے ہیں کہ لینڈنگ کے اعتبار سے یہ پاکستان کے مشکل
ائیرپورٹس میں سے ایک ہے۔کچھ سال قبل چترال ائیرپورٹ پر ایک طیارہ لینڈنگ
کے دوران پھسل کر کھیت میں چلا گیا تھا۔کو ئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن
خوف و ہراس زیادہ پھلا۔پی آئی اے نے وہ طیارہ واپس لے جانے کی بجائے وہی پر
نیلام کر دیا اب اس طیارے میں ایک ریسٹورنٹ بنایا گیا ہے جسے دیکھنے سیاح
جاتے ہیں۔دو تین سال پہلے کریش ہونے والا وہ جہاز جس میں جنید جمشید جاں
بحق ہو گے تھے اس نے بھی چترال ائیرپورٹ سے اڑان بھری تھی۔کچھ وقت وہاں
گذارنے کے بعد ہم نے شہر کا ایک دفعہ پھر چکر لگایا۔چترالی چائے پی۔کافی
دنوں کے بعد ہمیں پسند کی چائے ملی۔ہمارے گروپ میں شامل قریباًسب کا چائے
کے حوالے سے ایک ہی موقف تھا کہ ”پتی تیز،دودھ بھینس کا اور مقدار میں
تھوڑازیادہ اور چینی کم اور زیادہ ابلی ہوئی“۔بس ایسی چائے تو چترالی چائے
ہی کے طفیل مل سکی۔کچھ ڈرائی فروٹ لیا،چترالی شال اور ٹوپی بھی کہ کسی کو
بتا سکیں کہ واقعی چترال گے تھے۔مبشر کو الوداع کیا۔میزبان محمد زاہد اور
ان کے دیگر ساتھیوں سے ملے،گروپ فوٹو بنایا۔انہوں نے ہمیں دیسی شہد کی ایک
ایک بوتل دی جو ان کے پیار اور خلوص کا اظہار تھا۔اب ہم نے رات اپر دیر
قیام کرنا تھا۔ دیر چترال سے کوئی ایک سو کلومیٹر دورہے۔سڑک کا زیادہ تر
حصہ زیر تعمیر ہے اس لیے یہ راستہ کوئی چار گھنٹے کا ہے۔راستے میں دنوں
اطراف پہاڑ اور ویلیاں ہیں کچھ حصے میں چترال دریا بھی ساتھ ساتھ چلتا
ہے۔بڑے خوبصورت نظارے ہیں۔سورج کا پہاڑوں کے پیچھے چپ جانے کا اپنا ایک
نظارہ ہے جو ہمارے لیے کوئی نیا نہیں تھا لیکن ممکن ہے اتنا غور کرنے کی
فرصت کم ملی ہو۔راستے میں رات کا کھانا بھی کھایا گو کہ ہم نے کھانے میں
مانگا کچھ اور تو ملا کچھ اور،وہاں اگر آپ سادے چاول کا آرڈر دیں گے تو آپ
بھول جائیں کہ آپ کو سفیدچاول ملیں گے۔چاولوں کا کلر پیلا ہو گا کوئی چیز
مکس بھی ہوگی لیکن سادگی سے ان کی مراد کم مصالحے ہوتی ہے۔اس طرح چپاتی یا
تندور کی روٹی نایا ب ہے۔ااپ کی نان ملیں گے وہ بھی بڑے سائز کے بہت کم
جگہوں پر چھوٹا نان ملے گا۔رات دس بجے ک قریب ہم لوگ دیر پہنچے۔آنے سے پہلے
وہاں بھی باغ سے تعلق رکھنے والے ایک بیکری کے مالک رابطے میں تھے جن کو
اسی نٹ ورک نے اطلاع کر دی تھی جو پہلے ہی ہمارے رابطے میں تھا۔ہمارے لیے
ایک ہوٹل میں کمرے رکھوا دئیے گے تھے جس ہمیں ہوٹل تلاش کرنے کی مشکل سے
نجات ملی۔ دیر پاکستان کا ایک خوبصورت کوہستانہ خطہ ہے جو شمالی ومشرقی
پاکستان میں چترال اور پشاور کے درمیان واقع ہے۔ دیر کو گندھارا تاریخی
حیثیت بھی حاصل ہے جس کے ثبوت دیر عجائب گھر میں موجود ہیں۔ دیر پاکستان
میں ضم ہونے سے پہلے ایک نوابی ریاست تھی جو ریاست دیر کے نام سے جانی جاتی
تھی پھر جب پاکستان میں شامل ہوئی تو دیر کی پوری ریاست یا خطے کو پختونخوا
کا ضلع بنایا گیا جو بعد میں 1992 میں مزید دو ضلع میں تقسیم ہوا ایک دیر
زیریں اور دوسرا دیر بالا نام رکھا گیا۔دیر سے متعلق مزید تفصیلات میں
جائیں تو یہ ایک لمبی کہانی ہے جسے پھر کبھی قارئین کے سامنے رکھا جائے
گا۔اس شہر میں بھی بے شمار ہوٹل ہیں اور کچھ نئے تعمیر کیے جا رہے
ہیں۔سرمایہ کار تیزی سے سیاحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ
چند سالوں کے دوران اس شعبے میں بے شمار ترقی ہوئی،سیاحوں کی آمد میں بھی
اضافہ ہوا جس کی ایک وجہ چکدرہ تک موٹر وے کی تعمیر اور پھر لواہاری ٹنل کی
تکمیل ہے۔سفر آسان ہو گیا جس کی وجہ سے سیاح آنا شروع ہو گے۔رات دیر میں
گذاری،اگلی صبح ہم نے کمروٹ ویلی جانا تھا۔کمراٹ پاکستان کے ضلع دیر بالا
میں واقع ایک خوبصورت وادی اور قدرتی خطہ ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کی چند
خوبصورت ترین وادیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وادی کمراٹ کی سیر کرنے کے لیے
ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔ کمراٹ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے جس
کو مختلف خوبصورت پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے اور بیچ میں مختلف چھوٹی بڑی
ندیاں بہتی ہیں۔ یہ وادی معروف سیاحی مقام کالام سے مغرب کی جانب واقع ہے
جو دیر بالا سے بانوے کلومیٹر دور ہے۔(جاری ہے) |