شاعر منبر کو منارہ جملے کو استعارہ جگنو کوستارہ جنبش کو
اشارہ منجدھار کو کنارہ زہر کو امرت دھارا اور دشمن کو ہمارا بنا دکتا ہے ۔
مگر شاعر سر کوتال بدصورتی کو جمال زوال کو کمال اور زیاں کو مآل میں نہیں
بدل سکتا
شاعر کے پاس قوم کے زخموں کا مرھم نہیں بیت المال کیلئے درھم نہیں -
شاعر بد رنگ تصویر اور بگڑی تقدیر نہیں سنوار سکتا۔
شاعر زیادہ سے زیادہ اقبال کی طرح آپ کو آپ کے زمان، مکان اور مقصدِ حیات
سے جوڑ سکتا ہے ۔
سرکار نے کرپشن، جرائم اور دیگر تمام بری چیزوں پابندی لگانے میں کامیابی
حاصل کرنے کے بعد یومِ اقبال کی چھٹی پر بھی پابندی لگادی – حضرتِ عنایت
علی خان صا حب کے شعر میں تصرف کر تے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ:
بپا ہر سال ہم اک محفلِ اقبال کر تے تھے ---- پھر اس کے بعد جو کرتے تھے بس
قوال کرتے تھے –
مگر اب ہم سالانہ محفلِ اقبال سے بھی آزاد ہو گئے، اقبال کو قوالوں کے
حوالے کرنے سے مسئلہ یہ ہو گیا کہ اقبال قدم قدم پر رہنمائی کر تے ہیں مگر
ہم کم کم دیکھتے ہیں- اقبال نے فرمایہ:
خرد بیگانہ ذوقِ یقیں است ---------------------- قمارِ علم وحکمت بد نشیں
است
دو صد بو حامد و رازی نہ یرزد -------------------بہ دانایے کہ چشمش راہ
بیں است
(عقل ذوقِ یقین سے مالامال نہیں ہو سکتی چونکہ یہ منطق و فلسفہ کی بری
صحبتِ میں رہتی ہے – دو سو غزالی اور رازی مل کر بھی وہ مقام حاصل نہیں کر
سکتے جو راہِ حق کا شناسا ایک بے علم حاصل کر لیتا ہے ۔ اقبال بار بار ہمیں
شناسایانِ راہِ حق کی جانب لے جانا چاہتے ہیں اور ہم صحبتِ بد میں جا
بیٹھتے ہیں-
مشاہدہ فکر کو جنم دیتا ہے ۔ فکر کی کوکھ سے شعور پیدا ہوتا ہے لیکن شعور
کو تدبر میں بدلنے کیلئے تین چیزیں درکار ہیں – پہلی یہ کہ انسان اپنے زمان
سے وابستہ ہو – دوسری یہ کہ وہ اپنے مکان کو سمجھتا ہو اور تیسری یہ کہ وہ
اپنےشعور کو مقصدیت کا پابند کرلے - اقبال اپنے زمان و مکان سے خوب واقف
تھے اور ان کا شعور ایک عظیم مقصد سے جڑا ہوا تھا ۔ وہ اسلام اور مسلمانوں
کو غالب دیکھنا چاہتے تھے چونکہ وہ حکمتِ قرآن سے آشنا تھے اور قرآن مسلما
نوں کو ترقی نہیں غلبے کے لئے تیار کر تا ہے ۔ہمارا حال یہ ہے کہ زمان کی
بات ہو تو ہم فخر زمان کی بات کرتے ہیں – مکان کی بات ہو تو ہم کو ملک ریاض
یاد آتا ہے اور شعور کی بات ہو تو ہمیں مارننگ شوز میں بٹھا دیا جاتا ہے -
اقبال کے حوالے سے زمان یعنی وقت کی بات کرتے ہیں -قوموں کا آج ان کے ماضی
سے شروع ہوتا ہے اور ان کے مستقبل سے جا ملتا ہے ماضی کو بھول جائیں تو
مستقبل بھول بھلیّوں میں کھو جاتا ہے ۔ اقبال یہی بتاتے ہیں آئیے سمجھنے کی
کوشش کر تے ہیں -
آج کسے یاد ہے کہ کابل پر 1839 میں قبضہ کرنے والی فو ج میں گورے اور سکھ
فوجی شامل تھے ۔ کسے یاد ہے کہ پورے ایشیا میں انگریز فوج کی سب سے پہلی
اور سب سے بڑی شکست 1842 میں افغان عوام کے ہاتھوں ہوئی تھی ۔ - راٰے ونڈ
میں بیٹھ کر مائے ونڈ کسی کو یاد نہیں آتا مائے ونڈ میں ملالہ نے نہیں بلکہ
ملالئی نامی مجاہدہ نے دورانِ جنگ اپنے چہرے سے نقاب اتر کر تلوار کھینچی
تو انگریز فوج کو اپنی تاریخ کی دوسری بد ترین شکست ہوئی ۔اس کے بعد
انگریزوں نے افغان بادشاہ پر ڈورے ڈالے اور 1857 کی جنگِ آزادی میں شریک ہو
نے کیلئے جب افغان عوام کابل سے نکلے تو بادشاہ کے ایماء پر سرکاری مولویوں
اور شاہ کے حواریوں کی ایک انجمن نے افغانوں کو سمجھایا کہ دہلی میں جہاد
نہیں ہورہا ۔ اگر افغان 1857 کے جہاد میں شامل ہوجاتے تو تاریخ بدل سکتی
تھی ۔خیر اس موقعہ پر گوروں کا بھلا ہو گیا اور انھیں بادشاہ، جمعیتِ علماء
اور مدرسوں کی افادیت کا اندازہ ہوگیا –سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ 1867 میں
مدرسہ دعوبند اور 1896 میں مدرسہ بریلی وجود میں آگئے - اب پوری اسلامی
دنیا میں ب سے بادشاہ، م سے مولوی اور م سے مدرسے کثرت سے پائے جاتے ہیں-
اقبال نے توجہ دلاتے ہو ئے کہا تھا:
--گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا ---- کہاں سے آئے صدا لا الہ اللہ -
ماضی فراموشی کایہ حال ہے کہ آج ہم مشرقی بارڈر سکھوں اور دیگر دشمنانِ
پاکستان کیلئے کھولنے پر مجبور ہیں اور وارثانِ جذبہء شہیدِ ملالائی آف
مائے ونڈ کیلئے مغربی بارڈر پر باڑ لگا رہے ہیں – ملالا پر فلمیں دکھا رہے
ہیں اور ملالئی کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں - ماضی اور مستقبل دونوں نظر
آگئے ہونگے آپ کو – مگر وہ جو ہمیشہ مجبور ہو جاتے ہیں انھیں اقبال نے تویہ
بتایا تھا کہ افغان باقی کہسار باقی --------- الحکم لللہ الملک لللہ
حاجت سے مجبور مردا نِ آزاد ---------- کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ ۔
مکان کی بات کریں تو افغان مزاحمت سے مار کھانے کے بعد مغرب نے افغانستان
کو تہذیبوں کا قبرستان قرار دیا اور ہم نے افغانستان کو قبرستان بنانے کی
ہر کو شش کا ساتھ دیا ۔ فکرِ اقبال کے وارث مختلف تھے جنھوں نے 1978 میں
روسی مداخلت کے خلاف جہاد شروع کیا مگر 1991 میں روس کی واپسی کے بعد جب
افغانستان کو قبرستان بنانے کا عمل شروع ہوا تو یہ لوگ ہتھیار رکھ کر گھر
واپس آ گئے – وارثانِ فکرِ اقبال نے توجہاد اس لئے کیا تھا کہ روس کی واپسی
کے بعد افغانستان کو تہذیبوں کا سنگم اور مشرق و مغرب کا دو طرفہ راستہ
بنایا جائے گا مگر زمان و مکان سے بے خبر حکمرانوں کے مددگار جبہ رنگ دار
اور دستار طرح دار نے غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کو قبرستان بنا دیا ۔
یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ قبرستان کے برابر والے گھر کو بھی قبرستان ہی
بنا دیا جا تا ہے - آج ہم دباؤ میں ہیں اور اپنے مجاہدین تو کیا اپنی فوج
کی موجودگی کا بھی دفاع کر نے پر مجبور ہیں –کشمیر کا دفاع تو چھوڑیں ہمیں
ڈرا یا جا رہا ہے کہ پاکستان بھی خطرے میں ہے -
اقبال نے اور فکرِ اقبال کے وارثوں نےافغانستان کو تہذیبوں کا قبرستان نہیں
سمجھا بلکہ اسے تہذیبوں کا سنگم اور انسانیت کے سر کا تاج سمجھا ہے ۔ بقول
اقبال رح
آسیا اک پیکرِ آب و گل است ------ملتِ افغاں درآں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا -------از کشادِ او کشادِ آسیا۔
مگر ہم بار بار افغانستان کو قبرستان بنانے والوں سے جا ملے -
اور شعور کو مقصدیت کے تابع کرنے کی بات کریں تو ہمارا حال یہ ہے کہ آج
سرمایہ دارانہ نظام کی نوکری سے نکالے گئے تو درِ اشترا کیت پر کاسہ لئے
نمودار ہو گئے ۔ نہ کبھی سر اٹھایا نہ کوئی نظریہ اپنایا نہ کسی منزل کی
طرف بڑھے- ۔ بھیک اور غلامی کو مقدر سمجھ کر کبھی اس در کبھی اس در ۔ آج
پھر نیلے ستاروں والی سرکار نے مسکرا کر دیکھا تو جبہ و دستار کا آذادی
مارچ حاضر کر دیا-
افغانوں نے بارہا سامراجی فوجوں کو شکست دی اور ان کی غلامی کے عیوض حاصل
ہو نے والی ترقی کو جو تے کی نوک پر رکھا - منظومات بہ عنوان محراب گل
افغان کے افکار میں اقبال نے پوچھا تھا ۔
اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا ---- خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک –
افغانوں نےاور ایرانیوں نے بھی پیرہنِ چاک چاک گوارا کی مگر سر نہیں جھکا
یا -اگر شعور کو مقصدیت کے تابع کرلیتے توسر اٹھائے ہم سارے ایشیائی ممالک
کی آنکھوں کا تارہ ہو تے، مشرق و مغرب کا سنگم ہو تے اور ہماری وسعتیں
کراچی سے ترکستان تک پھیل چکی ہو تیں – مگر ہم نے بار بار ایجنٹ کی تنخواہ
پر اکتفا کرلیا – کاش ہم نے اقبال کو سنا ہو تا-
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا --ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں
بھی ہے-
حضرتِ اقبال رح قدم قدم پر رہنما ئی کر تے ہیں مگر ہم کم کم دیکھتے ہیں--
رازی اور غزالی کی نقالی کرنے والے امامت بے ثمر کرتے ہیں اور سجدہِ طولٰی
سے اوپر نہیں اٹھ پاتے – تحریر اور تقریر تو پرانی بات ہے اب تو ہم رہنما
کے انتخاب میں تصویر اور تنویر کو پیشِ نظر رکھتے ہیں – لیڈر جیسا بھی ہو
ہینڈ سم ہو - اقبال نے لیڈر کی شناخت بتائی تھی مگر ہم کب سنتے ہیں- اقبال
کی زبان میں اقبال کے مطلوبہ لیڈر کا تعارف کروا کر آپ سے اجازت چا ہونگا-
--- تو نے پو چھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے ---- حق تجھے میری طرح صا حبِ
اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ حاضر ---- جو تجھے حاضر و مو جود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست ---- زندگی تیرے لئے اور بھی
دشوار کرے
موت سے محبت سکھا کر غلبے کی بات کرنے والوں سے بھاگتے ہوئے ہم ترقی کے
جھوٹے خوابوں کی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں -حضرتِ اقبال رح قدم قدم پر رہنما
ئی کر تے ہیں مگر ہم کم کم دیکھتے ہیں- ---- بہت شکریہ -
|