چین کی سفارت کاری کے چھ بنیادی پہلو

چین کی سفارت کاری کے چھ بنیادی پہلو
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

عصرِ حاضر میں عالمی سفارتی حرکیات غیر معمولی تیزی سے بدل رہی ہیں، اور ایسے حالات میں یہ سوال خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ دنیا کو کس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے اور اس کی تشکیل کس اصولی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ چین نے اس سوال کا واضح جواب "بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر" کے تصور کی صورت میں پیش کیا ہے، جو چینی صدر شی جن پھنگ کے سفارتی نظریات کا مرکزی ستون اور چین کی نئی عہد کی بڑی طاقت کی سفارت کاری کا بنیادی ہدف قرار دیا جاتا ہے۔

یہ تصور سب سے پہلے نومبر 2014 میں مرکزی کانفرنس برائے اُمورِ خارجہ میں سامنے آیا، جہاں اس بات پر زور دیا گیا کہ چین کو اپنے بلند تشخص، تاریخی کردار اور عالمی ذمہ داریوں کے مطابق ایک منفرد سفارتی طرزِ عمل تشکیل دینا ہوگا۔ اسی کے تحت چینی سفارت کاری میں چینی خصوصیات، چینی مزاج اور چینی اعتماد کو بنیادی عنصر کے طور پر شامل کیا گیا۔

چین کی سفارت کاری کے چھ کلیدی پہلوؤں کو سمجھنا لازم ہے جو اس سفارتی ماڈل کی عملی تشکیل کو سمجھنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

کثیر قطبی دنیا اور اشتراکی عالمی معیشت کا فروغ

چین عالمی گورننس کے لیے ایک ایسی کثیر قطبی ساخت کا علمبردار ہے جو برابری، توازن اور ذمہ دارانہ اشتراکِ عمل پر مبنی ہو۔ بیجنگ کا مؤقف ہے کہ کوئی ملک دوسروں کی قیمت پر غالب نہ آئے اور نہ ہی عالمی فیصلہ سازی چند ممالک تک محدود رہے۔ اسی اصول کے تحت چین اقوامِ متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر زور دیتا ہے۔

اقتصادی میدان میں چین ایسے عالمی نظام کی حمایت کرتا ہے جو سب کے لیے مفید، شفاف، منصفانہ اور اشتراکی ہو۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ عالمی ترقی کا پھل زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے اور ممالک کو اپنی قومی ضروریات کے مطابق ترقی کے راستے اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہو۔

ہمسایہ ممالک، سفارت کاری میں اولین ترجیح

جغرافیائی وسعت اور طویل سرحدی پٹی کے باعث علاقائی ہمسائیگی، چین کی سفارتی اولیت قرار پاتی ہے۔ چین نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد "مخلصانہ تعاون، باہمی مفاد، ہم آہنگی اور فراخ دلی" کے اصولوں پر رکھی ہے۔

یہی پالیسی آگے بڑھتے ہوئے ایشیا میں ہم نصیب سماج کے قیام کے تصور میں ڈھل چکی ہے۔ چین اب تک 17 ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس تصور پر مختلف سطحوں پر اتفاقِ رائے حاصل کر چکا ہے ۔

اپریل 2025 میں منعقدہ پڑوسی ممالک سے متعلق مرکزی کانفرنس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ چین اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کی بہترین تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے، اور مستقبل میں ایشیائی سکیورٹی کے ایسے ماڈل کو فروغ دیا جائے گا جو مکالمے، اشتراک اور باہمی اعتماد پر مبنی ہو۔

بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن اور مستحکم تعلقات

عالمی اسٹریٹجک استحکام براہ راست بڑی طاقتوں کے تعلقات سے جڑا ہے۔ اسی لیے چین اس دائرے میں کشیدگی کے بجائے توازن، امن اور تعاون پر مبنی ماحول کو بنیادی ترجیح دیتا ہے۔

چین اور روس کے مابین جامع تزویراتی شراکت داری کو نئے دور کی بلندیوں تک لے جایا گیا ہے۔ دوسری جانب، چین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے استحکام کے لیے رکاوٹوں اور غلط فہمیوں کو کم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

چین یورپی یونین کے ساتھ بھی عالمی اثر و نفوذ کی حامل شراکت داری کے فروغ کا خواہاں ہے، جبکہ ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں کے ساتھ تعاون کے وسیع دائرے قائم کیے جا رہے ہیں۔

ترقی پذیر دنیا کے ساتھ اتحاد اور تعاون

گلوبل ساوتھ چین کی سفارت کاری کا بنیادی ستون ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ترقی پذیر ریاست ہونے کے ناتے چین نے ہمیشہ "خلوص، عملی تعاون، دوستی اور نیک نیتی" کے اصولوں کو اپنایا ہے۔

افریقہ کے ساتھ مشترکہ جدیدیت، لاطینی امریکہ کے ساتھ یکجہتی اور ترقی پر مبنی فریم ورک، عرب ممالک کے ساتھ آٹھ بڑے تعاون اقدامات، اور بحرالکاہل جزائر کے ساتھ سات نمایاں تعاون پلیٹ فارمز ، یہ تمام چین کی ترقی پذیر دنیا میں متحرک سفارتی موجودگی کی مثالیں ہیں۔

چار گلوبل انیشی ایٹوز کا فروغ

چین نے عالمی سطح پر چار اہم گلوبل انیشی ایٹوز کو "انٹرنیشنل پبلک گڈز " کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ ان میں گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو پائیدار ترقی اور ترقیاتی شراکت داری کو فروغ دیتا ہے ،گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو تنازعات کے حل کے لیے مکالمے، سلامتی کے لیے وسیع البنیاد نقطۂ نظر کا حامی ہے ،گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو تہذیبی تبادلوں اور باہمی سیکھنے کا علمبردار ہے اور گلوبل گورننس انیشی ایٹو عالمی طرزِ حکمرانی میں اصلاحات کا جامع فریم ورک ، پیش کرتا ہے،

یہ انیشی ایٹوز عالمی حکمرانی کے نظام کو زیادہ منصفانہ، متوازن اور شفاف بنانے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل

چین کی نئی عہد کی سفارت کاری کا بلند ترین ہدف "مشترکہ مستقبل کے حامل انسانی معاشرے" کی تشکیل ہے۔ یہ تصور اب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں شامل ہو چکا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک اور خطّوں نے مختلف سطحوں پر اس وژن کی حمایت کی ہے۔یہ تصور سائبر اسپیس، صحت، نیوکلیائی تحفظ، آبی ماحولیات، انسانیت اور فطرت، اور بحر و جہازرانی جیسے مختلف شعبوں میں عملی شکل اختیار کر رہا ہے۔

سو ،مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ چینی سفارت کاری گزشتہ دہائی میں نہ صرف ایک مربوط نظریاتی فریم ورک کے ساتھ سامنے آئی ہے، بلکہ عالمی سطح پر اس کے عملی اثرات بھی بتدریج نمایاں ہو رہے ہیں۔ 
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1705 Articles with 975623 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More