روٹی، کپڑا اور مکان، ملے گا جا کے قبرستان

کرایہ پورا دو ورنہ اتر جاؤ”“لسٹ دکھاؤ کہاں ہے؟“ڈیزل میں 10 روپیہ بڑھ گیا وہ نئیں دیکھتا تم؟”“فی سواری 4 روپیہ بڑھانا کہاں کا انصاف ہے؟”“ام کیا کرے؟ ام نے تو ڈیزل پر پیسہ نئیں بڑھایا”“اترو نیچے، اترو!!!!یہ وہ صدائیں ہیں جو گزشتہ دو روز سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کانوں میں گونج رہی ہیں بلکہ کئی بار تو کان پھاڑ قسم کی ہوتی ہیں۔ اور یہ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال اور مطالبات کو تسلیم کیے جانے کے بعد معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔حالانکہ موجودہ حکومت روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر میدان میں آئی ہے اور انتخابات میں گزشتہ حکومت کے جو “مظالم” گنوا کر عوام سے ہمدردی کے ووٹ بٹورے گئے ان میں سرفہرست مہنگائی کا مسئلہ تھا اور اس مسئلے کی بنیادی وجہ گزشتہ دور حکومت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا روز بروز اضافہ تھا لیکن “عوام دوست” حکومت کے انتخابات جیتنے کے بعد سے اب تک 7 مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 61 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ فروری 2008کے اختتام پر پٹرول کی قیمت 53 روپے 70 پیسے تھی جو اب 86 روپے 87 پیسے پر پہنچ چکی ہے۔ اس ریکارڈ قیمت پر پہنچنے کے لیے ریکارڈ قدم اٹھا کر بیک وقت 11 روپے 18 پیسے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ کرایوں میں از خود اضافے نے صورت حال کو خاصا کشیدہ بنا دیا ہے۔کہنے کو تو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی تجاویز کی تیاری کا حکم دے دیا ہے اور ممکن ہے کسی حد تک ان پر عمل بھی ہوجائے لیکن کیا حکومتی اقدام کے نتیجہ میں ہونے والی مہنگائی بھی کم ہوسکے گی؟یہ وہ سوال ہے جو سب سے اہم ہے اور اب تک کی حکومتی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جواب نفی ہی میں ملتا ہے۔

امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، بڑھتی ہوئی گرانی، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ، بے روزگاری اور غربت و افلاس کے ہاتھوں فاقہ کشی کا شکار ہونے والوں میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان، سرمایہ کاری میں کمی اور ملک سے سرمایہ کاروں کے فرار، ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی سرگرمیوں کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی ہر گزرے دن کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے دن بدن تنزلی کا شکار رہی ہے جبکہ ہر دوسرے ہفتے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے کے اقدام نے تو رہا سہا عوامی اعتماد بھی ہڑپ کر لیا ہے۔18 فروری 2008 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پی پی پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا یہ فرض تھا کہ وہ حالات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد ان بحرانوں کا ازالہ کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے اپنے ماہرین کے تعاون سے ٹھوس منصوبہ بندی کرتیں۔حکومت حاصل کرنے کے بعد یہ کہنے سے کہ یہ سارے بحران انہیں ورثے میں ملے ہیں کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔لیکن حکمرانوں نے ایسا ہی کیا، چاہیئے تو یہ تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام رکھنے کے ساتھ ساتھ حکومت عوام کی معاشی مشکلات اور غربت و افلاس کے بڑھتے ہوئے گراف کو سامنے رکھتی تو روزمرہ ضرورت کی اشیاء یہاں تک کہ یوٹیلیٹی سٹوروں پر فروخت ہونے والی چیزوں پر سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ ہرگز نہ کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور عالمی مالیاتی ادراوں کے مرہون منت معاشی پالیسیوں اور انہی کے مطالبات پر درجنوں بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے 17 کروڑ عوام اور پوری قومی معیشت پر ناخوشگوار اثرات مرتب کئے ہیں جن کا اعتراف حکومتی حلقوں کو بھی ہے خاص طور پر پٹرولیم کی مشاورتی کمیٹی میں حکومتی اور صارفین کے نمائندوں کو شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ مالکان پر مشتمل مشاورتی کمیٹی کو یکطرفہ اور ذاتی مفاد پر مبنی فیصلوں سے روکا جا سکے۔

موجودہ حکمران برسراقتدار آنے سے پہلے خود بھی پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں لیکن برسراقتدار آنے کے بعد وہ اس رجحان پر کیوں قابو نہیں پا سکے؟ اس کا جواب شاید ان کے پاس بھی نہیں۔ بقول حکومت و ورثے میں ملنے والے بحرانوں، اشیائے خوردونوش کی گرانی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تقاضا یہ تھا کہ حکومت ان کی قیمتوں میں ہرگز اضافہ نہ کرتی اور سابقہ قیمتوں کو برقرار رکھتی ٹیکسوں کے ڈھانچے کی تشکیل نو کے لئے ماہرین اقتصادیات سے مشاورت کی جاتی۔ بلاشبہ سرکاری محاصل ہی حکومت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں اور ہر حکومت ٹیکس دہندگان کے نیٹ ورک میں توسیع پر زور دیتی رہی ہے لیکن عام مشاہدہ یہ ہے کہ اس نیٹ ورک میں توسیع کے لئے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بڑے بڑے صنعت کاروں ،کاروباری طبقوں اور وسیع تر مالیاتی وسائل رکھنے والوں کی بجائے متوسط طبقے کے افراد اور تنخواہ دار ملازمین تک ٹیکسوں کا دائرہ بڑھایا جاتا رہا اور اس سلسلہ میں پیٹرولیم مصنوعات کو ہتھیار بنایا گیا ،اس اقدام کے نتیجے میں حکومت کی آمدن میں کچھ اضافہ تو ضرور ہوا لیکن عام آدمی آخری نوالے تک سے محروم ہوگیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی امور ٹیکسز ہی کے مرہون منت ہوتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر عام آدمی کے بجائے ایسے متمول عناصر کو اس نیٹ ورک میں لایا جاتا جو کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ٹیکس دینے سے بچ نکلتے ہیں تاکہ حکومتی آمدن میں اضافے کے علاوہ ٹیکسوں کی بنیاد بھی زیادہ مضبوط ہوتی لیکن بدقسمتی سے ایک مخصوص با اثرطبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی جو دانستہ کوشش کی گئی اس سے قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچا۔ ارتکاز زر کے رجحان میں اضافہ ہوا اور حکومت متوقع آمدن حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔اس کے برعکس پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء جن میں بجلی بھی شامل ہے پر دی گئی سبسڈی ختم کر کے قوم کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی جو آج بھی جاری ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کو مہنگا کرنے کا حالیہ اقدام بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے۔

ہماری سمجھ میں تو ایک ہی بات آتی ہے کہ عوامی ہونے کی دعویدار حکومت پر عالمی بنک اور آئی ایم ایف کا دباؤ ہے اور بنیادی ضرورت کی اشیا پر سبسڈی کا خاتمہ اسی دبا کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ تمام یورپی ممالک اور خود امریکہ اشیائے ضروریہ پر اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتے ہیں صرف امریکہ زرعی شعبہ کو4 کھرب ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے صرف یہ کہنا کہ سبسڈی کا خاتمہ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کا نتیجہ ہے، درست نہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت، سری لنکا اور کئی دوسرے ممالک عالمی مارکیٹ کے ان اثرات سے محفوظ ہیں اور نہ انہوں نے سبسڈی ختم کی ہے اور نہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے لئے ہمارے ہاں اختیار کردہ اس موقف کا سہارا لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی اقتصادی اور معاشی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور اپنی شاہ خرچیوں کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دے اگر ایسا ممکن نہیں تو صرف اتنی گزارش ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ”ملے گا جا کے قبرستان“ کا اضافہ کردے۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.