خالی ہاتھ واپسی؟

 سناہے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ دھرنے میں تبدیل ہوگیاہے سیاسی مبصرین تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ آزادی مارچ کی ٹائمنگ درست نہیں اور مقاصد بھی واضح نہیں ،یہ دھرنے کے مقاصدتو سیاسی تھے لیکن شرکاء غیرسیاسی، ۔پھر آسمان نامہربان ہونے سے اسلام آباد میں بارش اور تیز ہوائیں چلنے کے باعث سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا اور کئی عارضی خیمے بھی تیز ہواؤں کی وجہ سے اڑ گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے سی ڈی اے کو ہدایت کی ہے کہ فوراً دھرنے کے مقام کا دورہ کر کے بارش اور بدلتے موسم کے باعث شرکاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے۔ جس کے بعد سی ڈی اے کا عملہ نے دھرنے کے شرکاء کو متعدد سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اقدامات شروع کردیئے اس طرح دھرنا دینے والوں کو ہلکی بارش اور تیز ہواؤں کے باعث سرد موسم سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کئی خیمے بھی اکھڑ گئے اپوزیشن جماعتوں کے ’’دھرنے‘‘ کے شرکا حکومت کے ساتھ ساتھ موسمی چیلنج کا مقابلہ کرتے رہے۔ گرج چمک کے ساتھ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ تیز ہوائیں چلنے سے کچھ لوگوں نے پولیس کے کنٹینرز میں پناہ لی تو متعدد شرکاء نے رات میٹرو سٹیشن میں گزاری۔ بارش کے باعث جلسہ گاہ میں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہو گیا وزیر ِ اعظم کی پیشکش پر ردعمل دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تعاون اپنے پاس رکھیں جیب میں رکھیں، ہمارے جیالے اپنا انتظام کر کے آئے ہیں۔ بارش اﷲ کی رحمت جبکہ یہ حکمران زحمت ہیں۔ وزیراعظم کے استعفیٰ تک تحریک جاری رہے گی عمران خان کی رعایت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ دھرنا اگر ہوا تو ڈی چوک پر ہو گا ۔ کچھ لوگوں کا کہناہے کہ ہ لیڈر کو دھرنا لیڈ کرنا ہوتا ہے۔ فضل الرحمن نے خود کمروں میں بیٹھ کر عوام کو بارش میں چھوڑ دیا، انکو اب واپس جانا چاہیے، مدرسے کے طلبا کو دھرنے میں لایا گیا ہے، مولانا صاحب ہر حکومت میں رہے ہیں، اب کال کرتے ہیں تو جواب آتا ہے مطلوبہ نمبر سے رابطہ ممکن نہیں، برائے مہربانی چار سال بعد رابطہ کریں ایک رائے یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے دلبرداشتہ ہوکر مایوس ہوگئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی تاریخی تقریر نے مولانا کے مذہبی کارڈ بیانیہ کو پنکچر اور دھرنے کے مقاصد کو زمین بوس کردیا ہے ان حالات میں مولانا خود فریبی سے نکلیں، عوام کو تنگ نہ کریں کیونکہ عام انتخابات میں ریجیکٹ ہونے والے جتھے کی صورت حقیقی عوامی مینڈیٹ کی توہین اور جمہوری نظام پر حملہ آور ہوکرجمہوریت کی بساط پر اپنی من مرضی کرناچاہتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے جبکہ آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمن کی طرف سے الیکشن میں فوج کی مداخلت کے بارے میں عائد کئے الزام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ی میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ دھرنا یا آزادی مارچ ایک سیاسی سرگرمی ہے۔ دھرنے کافی عرصہ سے ہو رہے ہیں جن سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ایسے الزامات کے بارے میں پہلے بھی مناسب انداز میں جواب دئیے گئے ہیں۔ فوج ملکی دفاع اور سلامتی کے امور دیکھ رہی ہے۔ یہ صورتحال ہمیں اجازت نہیں دیتی ہم اس نوعیت کی باتوں میں ملوث ہوں۔ یہ ایک جمہوری اور سیاسی سرگرمی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے دائرہ کار میں یہ معاملہ آتا ہے وہ اسے کیسے لے کر چلتے ہیں۔ فوج بطور ادارہ، اس معاملہ میں کسی طور ملوث نہیں ہے۔ فوج نے بطور ادارہ 2014 کے دھرنے میں بھی اس وقت کی منتخب حکومت کا ساتھ دیا تھا اور سکیورٹی کیلئے دئیے گئے تمام ٹاسک پورے کئے۔ فوج حکومت کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ الیکشن میں فوج کو نہیں ہونا چاہیے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا الیکشن، فوج صرف اس وقت آتی ہے جب دستور میں دئیے گئے طریقہ کار کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے اسے طلب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں آنے کی ہماری کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تحت آتے ہیں۔ فوج کو نہ بلایا جائے تو فوج نہیں آئے گی۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں میں سیاسی جماعتوں کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ آرمی چیف اپنی ملاقاتوں کے دوران کم ازکم دو موقع پر یہ رائے دے چکے ہیں کی ایسی تجاویز لائی جائیں، یا پولیس کی استعداد بڑھا لی جائے جس کے تحت الیکشن میں فوج کا کردار صفر ہو جائے۔اس تناظرمیں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت گرانے کیلئے جتھے داخل کرنے کا حربہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ 2014ء میں عمران خان کی طرف سے دیئے گئے دھرنے کا اقدام غلط تھا، اور آج جے یو آئی ف کی طرف سے دیا جانے والا دھرنا بھی غلط ہے، اتنی بڑی تعداد میں جب عوام ایک جگہ اکٹھی ہوجائے، تو پھر انہیں اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے، اسی لیئے عمران خان کے دھرنے کی بھی مخالفت کی تھی۔ سیاسی میدان میں ہوں، اور رہونگا، وقت آنے پر فیصلہ کرونگا کہ ملکی سیاست میں کس فورم کا انتخاب کرنا ہے آج کچھ لوگ کہتے ہیں تو شایڈ وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ مولانا کے آزادی مرچ کا سب سے زیادہ فائدہ مودی سرکارکو ہوا دھرنے کے باعث دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم سے ہٹ گئی ہے یہ امت ِ مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے بہرحال تمام حالات و واقعات کا بغورجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ نما دھرنا چندہی دنوں تک ٹھس ہوجائے گا پیپلزپارٹی کی عدم دلچسپی اور میاں نوازشریف اور مریم نوازکی ضمانت منطورہونے کے بعدمسلم لیگ ن کا شرکت سے گریز ظاہرکرتاہے کہ مولانا فضل الرحمن خالی ہاتھ لوٹ جائیں گے لگتاہے مولانا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر بھروسہ کرکے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کرچکے ہیں انہیں یہ تو سوچنا چاہیے تھامیاں نوازشریف،آصف زرداری اور میاں شہبازشریف تینوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں وہ اس حدتک ساتھ دے سکتے تھے جہاں ان کے مفادات متاثرنہ ہوں پھر یہ بھی پیش ِ نظر رکھنے کی ضرورت تھیJUI-Fایک علاقائی جماعت ہے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ان کے پاس کوئی خاص سیاسی قوت نہیں ہے آجاکر خیبرپی کے ہی ہے جہاں کبھی ماضی میں ان کی حکومت تھی لیکن عمران خان کیPTIنے یہ راج سنگھاس بھی چھین لیاہے اس لئے آزادی مارچ نے مولانا کا رہاسہا بھرم بھی ختم ہوگیاہے انہیں سوچناہوگا اب کیا بنے گا؟
 

Ilyas Muhammad Hussain
About the Author: Ilyas Muhammad Hussain Read More Articles by Ilyas Muhammad Hussain: 474 Articles with 399872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.