پاکستان کی تاریخ کی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں آج تک ملک و
قوم غیر جانب دار شفاف انتخابات سے محروم رہی ہے۔اس کی جہاں ذمے داری
سیاستدانوں پر ہے وہاں بڑی حد تک اداروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔بدقسمتی سے
72برسوں میں چار بار جمہوریت کو کچلا گیا اور مارشل لاء لگا دیا گیا۔ایک
بار پھر جمہوریت پر شب خون مارنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔اس سازش میں حزب
اقتدار اور حزب اختلاف برابر کے شریک لگتے ہیں۔
2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں
آئی،لیکن اس وقت کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں؛ بل خصوص تحریک انصاف نے
انتخابات کی شفافیت اور اداروں پر اپنے تحفظات کا شدّت سے اظہار ہی نہیں بل
کہ شور مچا کر عوامی توجہ حاصل کی۔عمران خان نے تمام اداروں میں ایک سال کی
طبع آزمائی کے بعد عوام کے ساتھ سڑکوں پر آنے کا پروگرام بنایا۔عمران خان
نے اداروں پر بھر پور دباؤ ڈالا،اس کے لئے انہوں نے ایوانوں کا تقدس پامال
کیا،نازیبا زبان،سول نا فرمانی،اداروں کی تذلیل اور یہاں تک کہ ڈیوٹی پر
معمول پولیس آفیسرز،اہلکاروں کو سر عام دھمکیاں دیں۔ان کا دھرنا عوامی
مسائل کے لئے نہیں بل کہ اقتدار کی شدید خواہش پر دیا گیا تھا۔دھرنا سابق
وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفا یا ان کی حکومت ختم کرنے میں نا کام
رہا،مگر اس دھرنے کا خمیازہ ملک و قوم کو بڑے نقصان کی صورت میں بھگتنا
پڑا۔چناں چہ 2018ء کے انتخابات اپنے وقت کے مطابق ہوئے،لیکن یہ بھی پچھلے
انتخابات سے بڑھ کر دھاندلی زدہ تھے ۔حزب اختلاف مایوس ہوئی اور پہلے دن سے
مولانا فضل الرحمان سمیت تمام پارٹیوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔مسلم لیگ
(ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنا راستہ ایوانوں میں حلف لینے کا چنا۔مولانا فضل
الرحمان انہیں قائل کرنا چاہتے تھے کہ منتخب نمائندے دھاندلی زدہ انتخابات
کے احتجاج میں حلف نہ اٹھائیں ۔جیسے مسترد کر دیا گیا۔مولانا فضل الرحمان
کا مؤقف شروع سے واضح رہا ہے ،انہوں نے ملک بھر میں15 ملین مارچ کیے،پھر
آزادی مارچ کا قصد کیا،جو ابھی تک جاری ہے ۔مولانا ملک کی دو بڑی سیاسی
پارٹیوں کا ساتھ حاصل کرنے کے لئے بھر پور تگ ودو کرتے رہے ہیں،لیکن عملاً
دونوں سیاسی پارٹیوں نے صرف اخلاقی حمایت کے بیانات کے علاوہ کوئی عملی
اقدام نہیں کیے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اس سوچ نے آزادی مارچ کو شدید نقصان
پہنچایا،لیکن آزادی مارچ سے دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین کو ضرور فائدہ ہوا
ہے۔ان کے اپنے سیاسی مفادات کا حصول عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔شاید
مولانا فضل الرحمان عمران خان کی غلطیوں کو دھرا کر میاں نواز شریف کا بدلہ
اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں،جو کسی طور پر ملک و قوم کے بہتر مفاد میں نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان مجبوری میں سڑکوں پر آئے
ہیں۔کیوں کہ ایوانوں میں بیٹھے حزب اختلاف کی پارٹیاں آئینی راستے سے
تبدیلی میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جمہوریت کی دعوے
دار ضرور ہیں ،مگر استعفوں کے معاملے میں اپنا آئینی حق استعمال کے موڈ میں
نہیں ہے۔اس میں ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔پیپلز پارٹی ایسا قدم اٹھا
کر سندھ حکومت خطرے میں نہیں ڈال سکتی اور مسلم لیگ(ن) اداروں سے ریلیف
لینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ۔کیوں کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک غیر
سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اوراس رویہ سے حالات دن بہ دن خرابی کی طرف جا
رہے ہیں۔حکومت کے ڈیڑھ سال میں ہی عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں ۔مہنگائی
سونامی کا روپ دھار چکی ہے،معیشت سنبھلنا درکنار بحرانی صورت اختیار کر چکی
ہے۔
ایسی صورت حال میں مسائل کا حل منتخب حکومت ہے۔جو صاف اور شفاف طریقے سے
منتخب ہوئی ہو۔اس کے لئے غیر جانب دار انتخابات کی ضرورت ہے۔چناں چہ مولانا
فضل الرحمان نے حکومت کو پیش کردہ چار نکات میں ایک نکتہ یہ بھی شامل کیا
ہے کہ؛’’آئندہ انتخابات فوج کی موجودگی کے بغیر ہوں‘‘۔اب سیاست دان جواب دہ
ہیں ۔اگر واقعی سب کی خواہش غیر جانب دارانہ انتخابات ہیں تو قانون سازی
درکار ہے ،لیکن سیاست دان تو خود ’’بوٹ پالیش ‘‘کرنے کو فخر محسوس کرتے
ہیں۔پارلیمان کا تقدس پامال کرنے میں موجودہ حکومت نے انتہا کر دی ہے ۔گزشتہ
روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی صدارت میں نئے سیشن کے پہلے روز
ہی گیارہ بل پاس کروا لیے گئے۔یہ عجیب و غریب قانون سازی کا انداز تھا۔جس
پر حزب اختلاف نے خوب شور شرابا کیا ،مگر یہاں کون کسی کی سن رہا ہے ۔حزب
اختلاف ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد لانے کا کہنا شروع ہو گئی ہے،مگر
انہیں کی نیت خراب ہونے کی وجہ سے چیئرمین سینٹ کے عدم اعتماد کی تحریک نا
کام ہوئی۔مولانا فضل الرحمان نے اپنے آپ کو جہاں دیدہ سیاست دان منوا لیا
ہے ۔وہ جو سوال اٹھا رہے ہیں،وہ اہم ہیں کہ عمران خان نے ایمنسٹی اسکیم کے
ذریعے اپنی بہن کی منی لانڈرنگ چھپائی ۔وزیر اعظم کی ہمشیرہ نے 60ارب روپے
دبئی کے بینکوں میں کیسے رکھے؟غیر ملکی فنڈنگ کا کیس جو پانچ سالوں سے جان
بوجھ کر لٹکایا جا رہا ہے۔قانون سب کے لئے برابر ہے ۔پی ٹی آئی کے فارن
فنڈنگ کے کیس پر فیصلہ جلد کیا جانا چاہیے ۔اشتعال کے راستے سے اعتدال کا
راستہ بہترین ہے۔جس کی مثال آزادی مارچ سے مل چکی ہے ۔2014پی ٹی آئی اور
آزادی مارچ کا موازنہ کرنے سے عوام با خوبی سمجھ گئے ہیں کہ جنہیں اشتعال
پسند مشہور کرنے کی سازش کی گئی تھی ۔ان کا عملی ردِ عمل کیا ہے اور جو
اپنے آپ کو پُر امن اور سیکولر کہتے ہیں ان کی اشتعال انگیزی کیا ہے ۔عمران
خان جیسے تیسے اقتدار تک تو پہنچ گئے ،مگر عوام سے کیے تمام وعدے بھول گئے
،اگر عوام کے لئے پچاس فیصد بھی کام کیا ہوتا تو عوام عمران خان کا بھر پور
ساتھ دیتی ۔
وزیر اعظم کا استعفا مانگا جا رہا ہے ۔یہ روایت درست نہیں ہے ۔اس کا آئینی
طریقہ ہے کہ نئے انتخابات کروائے جائیں اور جس میں فوجی ادارے کا رول ختم
کر دیا جائے ۔الیکشن کمیشن کو طاقت ور بنا کر جمہوری طریقے سے شفاف انتخاب
ہو ،جس کے نتجے میں جو بھی حکومت آئے ۔اس کا ساتھ تمام ادارے اور عوام مل
کر دیں ۔اگر ایس نہیں کیا جاتا ،پھر ملک میں افراتفری ہو گی،جبر سے جانوں
کا نقصان ضرور ہوتا ہے ،جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت کا فوج کتنا
اور ساتھ دے گی ․․․اپنی نا اہلی اور غیر سنجیدہ رویوں سے ملک و قوم کو جتنا
نقصان ہوا ہے اس کو کوئی ادارہ قبول نہیں کر سکتا ۔اس لئے آزادی مارچ والوں
کو حکومت کی جانب سے ہری جھنڈی دکھانی پڑے گی،ویسے جان چھڑائی مشکل ہے ۔
|