غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے

دیوندر فردنویس کے استعفی ٰ کا سہرہ مختلف لوگوں کے سرباندھا جارہا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ یہ شیوسینا کے اڑیل رویہ کے سبب ہوا۔ اس لیے ادھو ٹھاکرے اس کے لیے ذمہ دار ہیں ۔ بہت سارے لوگ اس کو سنجے راوت کی زبردست وکالت کا کارنامہ مانتے ہیں جنہوں نے اپنے جارحانہ انداز سے ہوا کا رخ بدل دیا اور میڈیا کے ذریعہ شیوسینا پر دباو بنانے کی ساری کوششوں کو ناکام بنادیا۔ کسی کی نظر شرد پوار کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے اس لیے کہ وہ اس بار بھی اگر بی جے پی کی بلاواسطہ مدد کرتے یا شیوسینا کی حمایت نہیں کرتے تو یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا کہ ۱۰۵ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والے وزیراعلیٰ کومستعفی ہونا پڑتا۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر ابتداء میں جبکہ خود شرد پوار حزب اختلاف میں بیٹھنے کی بات نہیں کررہے تھے اگر کانگریسی رہنما پرتھوی راج چوہان اگر ہمت کرکے تجویز پر غور کرنے کی یقین دہانی نہیں کرتے تو بات آگے ہی نہیں بڑھتی ۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر مودی اور شاہ کی جوڑی جس نے پچیس مقامات پر انتخابی خطاب کیا تھا ۔ وہ لوگ بی جے پی کو ۱۴۴ مقامات پر کامیابی دلا دیتے تو یہ سارے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ جاتے اور بڑے آرام سے دیویندر فردنویس دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جاتے ۔

اس بات کو میڈیا جان بوجھ کر نظر انداز کررہا ہے کہ یہ بی جے پی کے پردھان پرچارک کی ناکامی ہے۔ سیاسی رہنما جب انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہیں تو بے ساختہ ’’گرے بھی تو ٹانگ اونچی‘‘ والا محاورہ یاد آتا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر نشستوں کا موازنہ کرتے ہیں جب اس میں کمی دکھائی دیتی ہے تو ووٹ کے تناسب کا موازنہ کرکے اپنے رائے دہندگان کی ڈھارس بندھاتے ہیں ۔ موازنہ بھی کبھی قریب کے پارلیمانی انتخاب سے تو کبھی دور کے اسمبلی الیکشن سے کیا جاتا ہے لیکن اس بار مہاراشٹر کے اندر بی جے پی ہر لحاظ سے نیچے اتر گئی۔ اس کی نشستیں اور ووٹ کا تناسب پچھلے صوبائی و حالیہ قومی انتخاب سے بھی کم ہوگیا اس لیے وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نے ( جن کو ممکن ہے بہت سابق کے لقب سے نواز دیا جائے) ایک نیا پیمانہ ایجاد کیا یعنی اسٹرائیک ریٹ ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ مرتبہ کے مقابلے ہم نے ہدف کو پانے اپنی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے ۔ دیویندر فردنویس جس وقت یہ اعلان کررہے تھے انہیں احساس نہیں ہوا ہوگا کہ وہ اپنی چمڑی بچانے کے چکر میں وزیر اعظم دیویندر فردنویس کو مشکل میں ڈال رہے ہیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد سیاسی گھمسان کے بعد فردنویس کے استعفیٰ تک کی صورتحال پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے
ظہیرؔ اب وہ زمانے حسب نسب کے گئے

دیویندر فردنویس کے مطابق گوکہ ان کے ارکان اسمبلی کی تعداد ۱۲۲ سے گھٹ کر ۱۰۵ پر آگئی اور پچھلی مرتبہ کے ۲۸ فیصد کے مقابلے صرف ۲۶ فیصد ووٹ ملے لیکن ۲۰۱۴؁ میں بی جے پی نے ۲۶۰ مقامات پر الیکشن لڑا تھا اور اس بار صرف ۱۶۴ حلقوں میں انتخاب لڑا۔ اس طرح کامیابی کا تناسب ۴۷ فیصد سے بڑھ کر ۶۴فیصد تک پہنچ گیا ۔ ویسے وزیر اعلیٰ کو کس ماہر ہندسہ نے بتا دیا کہ وہ ۷۰ فیصد یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ خیر اگر ان کی بات مان لی جائے تو بی جے پی کے پرچار منتری شری نریندر مودی کا اسٹرائیک ریٹ اس سے بہتر ہونا چاہیے ۔مودی نے اس انتخابی مہم میں ۹ مقامات پر تقریر کی ۔ ان میں پانچ مقامات یعنی اوسا، جلگاوں ، اکولہ ، پرتور اور پنویل میں بی جے پی کامیاب رہی لیکن چار مقامات پر اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ساکولی میں کانگریس سے بی جے پی جاکر گھر واپسی کرنے والے نانا پاٹولے کو ہرانے کے لیے گئے تھے لیکن ناکام ہوکر لوٹے ۔

پرلی میں لگاتار دو مرتبہ کامیاب ہونے والی پنکجا منڈے کو شکست دینے کے لیے جانے والے مودی جی کو راشٹر وادی کے دھننجئے منڈے نے ہرا دیا۔ یہ دونوں روایتی حریف ہیں ۔ ان میں سے پنکجا کا صرف پانچ ہزار ووٹ کا نقصان ہوا مگر دھننجئے نے اپنے پینتالیس ہزار ووٹ بڑھا لیے اور تیس ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئےبھنڈارہ میں بی جے پی نے کانگریس کے دو مرتبہ منتخب ہونے والے امیدوار گوپال داس اگروال کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ دے دیا ۔ اس کے خلاف ونود اگروال نام کا ایک آزاد میدوار کھڑا ہوگیا ۔ ونود اگروال نے ابن الوقت گوپال داس کو ۲۸ ہزار ووٹ سے ہرا دیا۔ اس طرح جہاں بی جے پی عام پرچارکوں نے ۶۴ فیصد کامیابی درج کرائی وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کا اسٹرائیک ریٹ صرف ۵۵ فیصد رہا۔ وہ دانشور جو یہ سوال کررہے ہیں کہ سونیا اور پرینکا انتخابی مہم میں کیوں شامل نہیں ہوےانہیں مودی جی سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیوں آئے اور انہوں نے کون سا کارنامہ انجام دیا۔

اسمبلی انتخاب کے ساتھ ساتھ اس بار ستارہ کے ضمنی پارلیمانی انتخاب بھی ہوئے۔ اس انتخاب کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ۵ ماہ قبل این سی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ادین راجے بھونسلے وزیر بننے کے چکر میں راشٹروادی کو چھوڑ کر بی جے پی میں چلے آئے تھے۔بی جے پی شیواجی کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے بھونسلے کو بڑے شوق سے ٹکٹ دے دیا۔ اپنے سابقہ ریکارڈ اور شیواجی سے تعلق کے سبب بڑے آرام سے جیت جانا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم کو زحمت دی گئی۔بھونسلے نے شیواجی کا تاج مودی جی کے سر پر رکھا ۔ مودی جی نے خود غرضی کی خاطر بی جے پی سے نکل این سی پی آنے والے اور وہاں سے غداری کرکے بی جے پی میں لوٹنے والے ادین راجے بھونسلے کی حمایت میں کہا یہاں بی جے پی قوت عمل (کاریہ شکتی) اور حزب اختلاف کے خوغرضانہ رویہ (سوارتھ شکتی ) کی جنگ ہے۔ مودی جی کے کہنے پر ستارہ کے رائے دہندگان نے خود غرض ادین راجے بھونسلے کو ہرا دیا۔ مودی جی نے کہا تھا تاریخ کبھی دفع ۳۷۰ کی مخالفت کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی لیکن ہوا یہ کہ عوام نے ادین راجے کو معاف نہیں کیا بلکہ خود انہیں کو دفع کردیا ۔

پانچ مہینے پہلے جو ایوان پارلیمان کا انتخاب ہوا تھا اس میں این سی پی کے امیدوار کی حیثیت سے ادین راجے بھونسلے کو پانچ لاکھ انیاسی ہزار یعنی ۵۲ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ ان کا مقابلہ کرنے والے شیوسینا امیدوار نے چار لاکھ باون ہزار یعنی اکتالیس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے ۔ اس بار ادین راجے کو مودی جی نے کمل تھمایا اور ادین راجے نےمودی کے سر پر شیواجی کے مماثل تاج رکھ دیا لیکن صرف ٹوپی پہن لینے سے کوئی چھترپتی تھوڑی نا ہوجاتا ہے۔ مودی جی کا بھاشن ادین راجے بھونسلے کو اپنے پرانے ووٹ نہیں دلا سکا اور ان کا رتھ اکتیس ہزار کم ووٹوں پر رک گیا ۔ اس خسارے کے لیے اگر مودی نہیں تو کون ذمہ دار ہے؟ اس کے برعکس این سی پی کے امیدوار شری نواس پاٹل نے ادین راجے کی بہ نسبت ۵۷ ہزار زیادہ ووٹ حاصل کیے اور اپنے حریف کو ستیاسی ہزار سات سو ووٹ سے ہرایا ۔ اس نتیجے کو دیکھ کر ہندوستان اور بنگلا دیش کے درمیان دہلی میں کھیلے جانے والے ٹی ۲۰ میچ کی یاد آتی ہے جس میں کپتان روہت شرما کی نااہلی کے سبب ٹیم ہار گئی اسی طرح مہاپرچارک کی ناکامی نے بی جے پی شکست سے دوچار کردیا۔

ستارہ میں مودی نے نہ صرف ساورکر کا شوشہ چھوڑا بلکہ شرد پوار کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ شرد راو تو شرد راو ہیں۔ وہ ہوا کے رخ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ( ستارہ میں لڑنے سے ) صاف صاف انکار کردیا‘‘۔ شرد پوار کے بارے میں وزیر اعظم کی حقیقت بیانی سچ نکلی کیونکہ پوار کی پارٹی کو بی جے پی نے پھوڑ کر بیالیس سے ۱۷ تک پہنچایا مگر وہ اس کو دوبارہ ۵۲ پر لے گئے۔ مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ پرتھوی راج چوہان کے کسی انٹرویو کا حوالہ دے مودی جی نے کہا تھاکہ ’’وہاں پارٹیوں کے درمیان بھی دنگل ہے اور دونوں جماعتوں کے رہنما و کارکنان میں بھی زوروں پر دنگل چل رہا ہے۔ وہ دونوں کو ایک دوسرے کی حیثیت دکھانے کے لیے بساط بچھا رہے ہیں‘‘۔

انتخابی نتائج کے بعد خود وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نے تسلیم کیا کہ ہمیں اپنے باغیوں سے زک پہنچی۔ الیکشن سے پہلے بی جے پی کے اندر دنگل لگا ہوا تھا اور بعد میں وہ اپنے حلیف شیوسینا کے ساتھ گتھم گتھا ہوگئے ۔ مودی جی کی تقریر کا ایک ایک لفظ خود ان کی جماعت اور ان کی حامی ہندوتواوادی شیوسینا پر صادق آگیا ہے۔ ایسے میں رام مادھو کا وہ بیان یاد آتا ہے کہ جو انہوں سنتوش کمار کی کتاب ’دیش کیسے ہوا مودی مئے‘ کے رسم رونمائی پر دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھاکمزور رہنما کے سبب حکومتیں چند ماہ میں گر چکی ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے انتخاب لڑنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ ایسا تو نہیں ہوا لیکن یہ ضرور پہلی بار ہوا ہے کہ اپنی ساجھی دار کے ساتھ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کوئی پارٹی یا حکومت بنانے میں ناکام رہی اور وزیراعلیٰ کو استعفیٰ دینا پڑا ۔ دوہفتوں کے اندر الیکشن جیت کر حکومت سازی میں ناکام و نامراد رہنے والی لیڈر شپ کو رام مادھو کیا نام دیں گے؟سچ تو یہ ہے دیویندر فردنویس کے استعفیٰ نے مہاپرچارک کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا بقول شاعر؎ ؎
انجام ہے تباہی تکبر ہو یا غرور
ہر شخص بن گیا ہے خدا، دیکھتے رہو
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449499 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.