پاکستان میں سیاسی شعور و آگاہی کے ادارے موجود نہیں، اس
کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے عام کارکنان کی تو کیا بات
کرنا، جو لیڈر ہوتے ہیں وہ بھی اپنے مناسب، جائز اور آہم ترین مطالبات کو
بھی شائستہ زبان اور اخلاقی دائرے میں رہ کر پیش نہیں کرپاتے، انتہائی اہم
اور حساس معاملات اور امور کو بھی بھونڈے طریقے سے پیش کرکے بنا بنایا
معاملہ بگاڑ دیا جاتا ہے اور بہت دفعہ جیتا ہوا کیس بھی ہار دیا
جاتاہے.سیاسی اجتماعات میں کارکنوں کی سیاسی تربیت کے بجائے بدبودار زبان
کا استعمال معمول کا حصہ ہے. ٹی وی ٹاک شوز میں بھی سیاست و آگاہی پر بات
کم ذاتیات پر زیادہ ہوجاتی ہے. یہاں سے بھی فکر کی وسعت اور پرواز کی بلندی
اور سیاسی پختگی کا درس حاصل نہیں کیا جاسکتا...عام آدمی کو سیاسی شعور
کیشد کرنے کے لیے صرف پارلیمنٹ کا محترم فورم باقی رہ جاتا ہے. بدقسمتی سے
اس فورم سے بھی ہذیان اور بول زیادہ بکا جاتا ہے اور سیاسی شعور و دانش
کیساتھ دلائل و براہین سے گفتگو کو کم مزین کیا جاتا ہے. ایسے حالات میں
بھی کچھ لوگ بہر صورت پارلیمنٹ میں اپنی گفتگو کے ذریعے ایک دنیا کے دل میں
جگہ بنالیتے ہیں.
2000 سے اب تک پاکستان کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقاریر میں سب سے
زیادہ شگفتہ اور مبرہن گفتگو مولانا فضل الرحمان صاحب نے کی ہے.ایک طویل
عرصہ، میں ان کی تقاریر ڈوان لوڈ کرکے محفوظ کرتا اور اسمبلی میں کی جانے
والی تقاریر بار بارسنتا. میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ موجودہ دور میں
پاکستانی پارلیمنٹ کی تقاریر میں مولانا نے سب سے بلند آہنگ میں انتہائی
مدلل انداز میں اپنا موقف پیش کیا ہے. میں سمجھتا ہوں کہ مولانا ہم عصر
لوگوں میں سب سے زیادہ شگفتہ گفتگو کرنے والے قومی لیڈر ہے. میں نے بارھا
مولانا کو دلیل اور گفتگو کا بے تاج بادشاہ لکھا. گفتگو اور مبرہن و مدلل
تقریر کے باب میں، میں مولانا کا بہت بڑا فین ہوں. میری حسرت اور تمنا رہی
کہ کاش مولانا صاحب کی جماعت کیساتھ جڑے رہنماء اور سیاسی ورکرز ان کی طرح
شائستہ گفتگو کرنا سیکھتے. اب توصورت حال یہ ہے کہ مولانا کی جماعت کے
رہنماء اور عام ورکر ذرا سا معمولی اختلاف پر بھی زہر اگل رہے ہوتے ہیں.
کاش کہ یہ احباب گفتگو کا فن اور مخاطب سے بات کرنے کاطریقہ بالخصوص اختلاف
و تنقید کرنے کا اسلوب مولانا کی اسمبلی والی تقاریر سے ہی سیکھ لیتے. اے
کاش!تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|