مولانا فضل الرحمان محفوظ راستے کی تلاش میں

مولانا فضل الرحمان کے ’’آزادی مارچ‘‘ کا جو سفر27اکتوبر2019 ء کوکراچی سے اپنی خود ساختہ آب وتاب کے ساتھ طلوع ہواتھا،اب اسلام آباد میں اپنے چند گنتی کے دن گزار نے کے بعد سے ہی زمانے بھر کی ذلت و رسوائیاں سمیٹے غروب ہونے والاہے بلکہ یوں سمجھاجائے کہ غروب ہوچکا تو بے جاء نہ ہوگا اِس لیے کہ اِس ’’آزادی مارچ‘‘کے تلوں میں شروع سے ہی تیل نہ تھا،اب جاکر کیا ہوناتھا۔مولانافضل الرحمان کا یہ ’’آزادی مارچ‘‘شروع دن سے ہی اپنے واضح ایجنڈا نہ رکھنے،مشکوک حرکات وسکنات کے حوالے سے ملک کے نازک حالات میں وطن عزیز کے ہر شہری و ادارے کوکھٹکتاتھا،وہ مولانا کے’’ آزادی مارچ‘‘کو ملک وقوم کے لیے ایک اچھا شگون تصور نہ کرتے تھے،اُن کے مولانا کے ’’آزادی مارچ‘‘ کے حوالے سے کافی تحفظات و خدشات پائے جاتے ہیں۔ملک عزیز کے ادارے اِن کو ’’آزادی مارچ‘‘کی اجازت دینے سے انکاری تھے مگر پھر کافی غوروخوض کے بعد اِن کوآزادی رائے سب کا حق سمجھ کر مارچ کرنے کی مشروط اجازت دے بیٹھے،اوپر سے سپریم کورٹ کے دھرنا کو نہ روکنے کے احکامات کی پاسداری بھی مقصودتھی،پھر کیاہے کہ فضل الرحمان پہلے سے متوقع صورتحال کے مطابق مگر حد سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی سلامتی کے اداروں پرخوب گرجے برسے،ملکی وقار کے حامل باوقار اداروں کو بین الاقوامی سطح پر متنازعہ بنانے پر تل گئے،اُن کو ہدف تنقید بناتے اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان چھوڑتے اُن کو بے وقار کیے متنازعہ بناتے مسلسل اپنی باتوں ،خباثتوں کے نشتر چبھوتے نظر آئے، حکومت و فوج کو رگیدتے اور آڑے ہاتھوں لیتے اُن کے خلاف عامیانہ اور سطحی زبان کا ستعمال کرتے نظر آٓئے، ختم نبوت ایشوز ،قادیانی فتنہ کے پھر سے سر اٹھانے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسی باتوں پر خوامخواہ جھوٹ کا پلندہ بنے اپنے مرے ہوئے ’’آزادی مارچ‘‘ کو زندہ کرنے کی غرض سے اِس حوالے سے بند ابواب کو ہوا دیتے نظر آئے،اپنے طرزعمل سے ملک دشمن قوتوں کو راحت وسکون میں محسوس کرکے محض اپنی ذہنی خراب حالت کو ٹھیک ہونے کا تاثر دینے کے لیے حکومت و اُس کے اداروں کی طرف سے مسلسل شٹ اپ کال کے بعد دھرتی پاکستان پر بھارت ،اسرائیل اور امریکہ مخالف نعرے لگواکر اپنی مشکوک حب الوطنی کو ’’چاروناچار‘‘ حالت مجبوری میں اسفندیارولی اور محموداچکزئی جیسے لوگوں کے پہلومیں بیٹھے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیتے رہے،ملک کی نازک صورتحال کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچائے،پاکستان کا سافٹ امیج خراب کیے ، اِس کو عدم استحکام کی حالت تک پھر سے پہنچانے کے لیے اوربھارت و اُس کے حواریوں کی مشکلات کو آسان بنائے بھارت،اسرائیل اور امریکہ مخالف نعرے لگواکر پاکستان کو کشمیر کی موجودہ پریشان کن صورتحال میں دوسرے ممالک کے لیے نفرت وکدورت کاٹیکہ لگاکرآبیل مجھے مار کا مظاہرہ کرکے پاکستان کا خودساختہ ٹھیکیدار بنے پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کے پرامن ،بہتر پاکستان کے لیے کی گئی کوششوں کی راہوں کو مسدور کرنے کی حد تک گئے،پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی پاکستان کو سب کے لیے اچھا ملک ہونے کے تاثر کو خراب اور ملیامیٹ کرنے کاسبب بنے،ایک تہہ شدہ منصوبے کے تحت اغیار کوگالیاں دے کر ،اُن کے خلاف تعصب کا اظہارکرکے اپنے خطرناک ،غیر واضح ا یجنڈے پر ہوتے ہوئے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرتے نظر آئے،پاکستان کا سافٹ امیج برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست و اُس کے اداروں کا مورال ڈون کرکے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی جانب بڑھے،پاکستان کی نازک صورتحال ،خطے میں جلتے ہوئے کشمیر اور بھارت کے قبضے میں وادی جنت نظیر سے بے نیاز ہوکر،پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کا خیال نہ رکھتے ہوئے پاکستان ناموافق ایجنڈے پر عمل کرکے پاکستان کو بہت دور لے جانے لگے بلکہ اِس حد تک لے گئے کہ پاکستان کے ابھرتے ہوئے سافٹ امیج اور مستحکم پاکستان کی دھجیاں تک بکھیر کے رکھ دی،مولانا کی جانب سے آزادی رائے کے اظہار کی آزادی کے نام پر اداروں پر بے سروپاالزامات کا سلسلہ جاری تھاکہ اداروں کے بروقت نوٹس لینے اور شٹ اپ کال دینے پر کسی حد تک ہوش میں آئے اب اپنی پتلی سی حالت اور سب کچھ عیاں ہونے پر جو اِن کی پٹاری میں تھاکے بعد اب اپنا منہ سکوڑے ،چہرہ بگاڑے،ناراض سے ہوئے دکھائی دیتے اسلام آباد کی کسی بھی پتلی گلی سے نکلنے کے لیے صرف اورصرف اپنی خیریت چاہتے اور مدرسے کے بچوں اور اِن کے نام پر گلی گلی ،نگر نگر،کوچے کوچے سے اکٹھے کیے گئے چندہ کے سہارے پلنے والے نام نہادعلما کے سامنے میں نہ مانوں پر حیل و حجت کا مظاہرہ کیے صرف اپنا بھرم رہ جانے کے لیے اُسی حکومت و اُس کے اداروں سے اب اپنی گھر باعزت واپسی کے لیے پشاور موڑ پربری طرح پھنسے آہ و بکاکی کیفیت میں مبتلا ہوئے حکومت اور اُس کو اداروں کو دن وشام میں گھوریاں بھی دیتے اور رات کے پچھلے پہرپس پردہ سکرین منتیں بھی کرتے ہیں ۔دو بڑی پارٹیوں کے سربراہان کے اپنے مفادات کے لیے یوں پیچھے والی گلی سے انہیں چھوڑکر کھسک جانے پر اپنے لیے اب ’’باعزت گھر واپسی ‘‘راستہ مانگے بطور مطالبہ کھڑے ہیں۔جس کے لیے محفوظ اور بھرم والا راستہ بنانے کے لیے حکومتی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے درمیان کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے مطابق صلاح ومشورہ جاری ہے۔اُمید ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک دو روز میں فضل الرحمان کی باعزت گھر واپسی کا سامان ہوجائے گااور یہ کہ فضل الرحمان کو بھی مصیبتوں ماری حالت اور موسم کی بے وفائی کے تازیانے سہتی صورتحال میں تمام تر ذلالتوں پر مبنی مارچ سے بھی چھٹکارہ حاصل کرنے پر کچھ آرام وسکون آجائے گا۔تھکے اور مرجھائے اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے فضل الرحمان ’’ڈوبتے کو تنکے کاسہارا‘‘کی تلاش میں اب تو مارے مارے بھٹکے پھر رہے ہیں شکست خوردہ سے ہوئے،متمنی و خواہشمند کہ اب عمران کا استعفیٰ اور نئے انتخابات نہ سہی ،اب کچھ تو خیر ملے،’’آزادی مارچ‘‘میں بپھرے ہوئے ہاتھی کی طرح لمبی اورتیز زبان چلائے آؤٹ آف کنٹرول سونڈ ہلائے کچھ دو کچھ لو کے اعلان کے منتظر اپنا بوریابستر قدرت خداوندی کی طرف سے خود بخود ہی سمیٹے اور لپیٹے جانے پراب گھر جانے کے لیے تیار اور بے تاب بیٹھے ہیں ۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.