وزیراعظم کی جانب سے کرپشن کے مقدمات میں عدالتوں سے سزا
یافتہ اور ضمانت پر رہاسابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو جس اندازمیں انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر علاج معالجہ کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی
ہے اسے بیشتر سیاسی حلقوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھاجارہاہے ،اس سلسلے میں ان
کا نام طبی بنیادوں پر ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیاہے
،وزیراعظم نے اسی انسانی ہمدردی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکومتی ترجمانوں
کو اس معاملے میں نرم رویہ اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے یقینی طورپر یہ
تمام عمل اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جن کیسوں میں شریف خا ندان سزائیں بھگت
رہاہے ان میں حکومت کا زاتی عمل دخل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انتقامی یا
سیاسی کارروائی کا کوئی حصہ ہے، بلکہ یہ معاملہ تین اداوار میں ہونے والی
کرپشن کا ہے جواس وقت عدالتوں میں زیر بحث ہے یقینی طورپر ان سابق حکمرانوں
پر جو مقدمات ہیں وہ ان ہی کے گزشتہ ادوار میں ایک دوسرے پر بنائے گئے تھے
جو آج دونوں ہی جیلوں میں موجود ہوکر ایک دوسرے کے لیے ہمدردیاں پیدا کیئے
ہوئے ہیں،مگر ان تمام باتوں کے باجود جس انداز میں موجودہ حکومت نے سابق
وزیراعظم کی روز بروز بگڑتی ہوئی صحت پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے انہیں ملک
سے باہر جانے کی اجازت دی ہے وہ یقینی طورپر قابل تعریف ہے،اس کے برعکس ایک
محاز حکومت وقت کے خلاف اسلام آباد میں بھی کھلا ہواہے جو سیاسی مبصرین کے
مطابق مولانا فضل الرحمان نے بلاوجہ ہی کھول رکھا ہے ،اپنی گرتی ہوئی سیاسی
ساکھ کو بحال کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمان جمیعت علماء اسلام کے
زیرانتظام مدرسوں کے بچوں اور پیروکاروں کو لیکر اس وقت اسلام آباد میں
اپنی سیاسی دوکان کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں ،وزیراعظم کے استعفیٰ ٰ پربضد
مولانااس وقت اپنے ان الفاظوں کو بھول چکے ہیں جن میں وہ اکثر جمہوریت اور
ان کی بالادستی کا زکر کیا کرتے تھے ،وہ 2018میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی
حیثیت کودرست کرنے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیاربیٹھے ہیں اور اس کے لیے
وہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے سے باز نہیں
آرہے ہیں ،وزیراعظم کے استعفیٰ پر مبنی مولانا کا مطالبہ کسی بھی لحاظ سے
قابل قبول نہیں ہے انہیں اپنے اس مطالبے کو بھول جانا چاہیے ،باقی اگر
انہیں اس ملک میں الیکشن پر کسی قسم کی کوئی شکایات ہے تواس پر انویسٹی
گیشن ہوسکتی ہے جس کی حکومت کی جانب سے بنائی گئی رہبر کمیٹی نے پیشکش بھی
کردی ہے اس سے آئندہ انتخابات کے عمل میں مزید بہتری اور تبدیلیاں لائی
جاسکتی ہیں ،جس سے تمام سیاسی جماعتیں اور فریقین کو تسلی رہے کہ اور وہ یہ
سمجھیں کہ الیکشن درست ہوئے ہیں،میں سمجھتاہوں کہ الیکشن کے نظام کو بہتر
کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے پر طعنے دینے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ لوگ مل کر بیٹھے اور
دیکھیں کہ ان کی شکایات کیاہیں اور کونسی ایسی شکایات ہے جسے مشترکہ انداز
میں دور کیا جاسکتاہے یا واقعی اس شکایات کوملکر ختم کیا جاسکتاہے،مگر ایسا
لگتاہے کہ مولانا اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ہنگامہ آرائی پیدا کرکے کسی
مذموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے ایک ایسا ٹارگٹ جو ملک کو انارکی کی
جانب دھکیل دینا چاہتاہے جو اس وقت مسئلہ کشمیر کے ایشوکو دنیا کے نقشے سے
غائب کرنے کی ایک کوشش ہے وہ کوشش جسے بھارت پوری دنیا میں واویلا کرکے بھی
ختم نہ کرسکا اسے پاکستان میں موجود پاکستان کے نام پر ہی سیاست کرنے والے
ایک شخص نے کامیابی سے ہمکنار کردیاہے ،جس کا مثال بھارتی میڈیا کے وہ
ادارے ہیں جو پاکستان میں ہونے والے اس دھرنے کے بعد جگہ جگہ بھارت میں
ہونے والے شامیانوں کی جھلکیاں دکھارہے ہیں ۔مولانا آج جمہوریت کے تمام
بنیادی اصولوں کو بھلا کر پاکستان کا امن داؤ پر لگارہے ہیں،گو کہ مولانا
کی حمایتی جماعتیں مولانا کو بیچ راستے پر چھوڑ کر فرار ہوچکی ہیں مگر ان
اپوزیشن کی ان تمام سازشوں کے باوجود مولانا اپنی عزت کی بچی کھچی باقیات
کو سمیٹنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں وہ ایک ایسے محفوظ راستے کی تلاش میں
ہیں جس سے ان کے مزموم مقاصد کی تکمیل بھی ہوجائے اور تھوڑا بہت ان کا دال
دلیہ بھی چل پڑے یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، مولانا کے
مطابق یہ دھرنا جمہوریت کو بچانے کے نام پر دیا جارہا ہے ۔مگر شاید وہ یہ
نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی بھی جمہوری نظام اپنے مطالبات کو سڑکوں پر
منوانے کی اجازت تو دے سکتاہے مگر کسی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی اجازت
ہرگز نہیں دے سکتا۔یعنی کسی بھی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا راستہ جمہوری
مقابل میں آئین اور پارلیمنٹ کی راہداریوں سے ہی ہوکر گزرتاہے ۔باقی اس طرح
کی کوئی بھی کوشش ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آجاتی ہے، جہاں تک حکومت کے
بارے میں یہ کہا جائے کہ حکومت ناجائز انداز میں اس ملک کے اقتدار پر قابض
ہے تو تھوڑاسا اس کامطالعہ بھی کرلیتے ہیں۔ اس سال2018 الیکشن پٹیشن 2013کے
انتخابات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے،یعنی کوئی شکایت ہوتو کوئی
پٹیشن کو دائر کریگا ؟اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام میں اب ایک
سیاسی شعورآچکاہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر دھاندلی کا شور مچانا آسان ہے لیکن
عدالت میں جاکر اسے ثابت کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ 2018کے انتخابات میں
پورے پنجاب میں کوئی اسٹیشن ایسا نہیں تھا کہ جس میں کسی قسم کا کوئی دنگا
فساد سامنے آیاہوں ہو جس کی بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوا ہو، اور نہ ہی کسی
اسٹیشن سے کوئی شکایت موصول ہوئی بلکل اسی طرح 2018میں الیکشن کے دن زخمی
ہونے مارکٹائی کے واقعات بھی حیران کن انداز میں نہ ہونے کے برابر تھے ،یہ
عمل یقینی طوپر اسی لیے خوشگوار ہواکہ ان دنوں میں الیکشن کمیشن کے کردارپر
تحریک انصاف نے ایک بہت بڑی تحریک کو جنم دے رکھاتھا جس کا اثر الیکشن کے
روز ایک تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوا۔مگربدقسمتی یہ ہے کہ جہاں یہ کچھ سیاسی
جماعتیں اور ان کے حکمران خود الیکشن جیت جاتے ہیں وہاں سب کچھ اچھا ہوتاہے
اور جہاں کہیں یہ ہار جاتے ہیں وہاں یہ دھاندلی کا شور مچادیتے ہیں اسی وجہ
سے حکومت نے مولانا اوراپوزیشن جماعتوں کو جوڈیشل کمیشن بنانے کی کی پیشکش
کی ہے کہ کیونکہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس عمل سے اپوزیشن جماعتیں اپنی
تسلیاں کرسکتی ہیں اس جوڈیشل کمیشن کی مدد سے آئندہ انتخابات کے عمل کو بھی
مزید بہتر کیا جاسکے گا جس کا فائدہ حکمران جماعت سمیت تمام اپوزیشن
جماعتوں کو بھی ہوگا اور یہ ایک قابل قبول حل ہے ،وہ بھی اس صورت میں کہ
اگر اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کو درست کرنے کی نیت رکھتی ہو تب ؟ وگرنہ
اگر لڑائی جھگڑا ہی کرناہے تومولانا جس مشن پر گامزن ہے وہ اس لحاظ سے بلکل
درست سمت پر گامزن ہیں یعنی ان کا نشانہ بلکل ٹھیک جاکر لگاہے یعنی ملک کو
خون ریزی میں مبتلا کرنے کے لیے مولانا درست پر چل پڑے ہیں۔ختم شد
|