بابری مسجد کا فیصلہ ۱۷ نومبر ۲۰۱۹ سے قبل آجائے گا یہ
تو سبھی جانتے تھے لیکن کس دن آئےگا ؟ اورکیا ہوگا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا
تھا ۔ عدالت کے اندر جس طرح کی بحث ہورہی تھی ۔ جس قسم کے سوالات پوچھے
جارہے تھے اور جو دلائل پیش کیے جارہے تھے اس سے جو قیاس آرائی کی جارہی
تھی مگرباہر کا سیاسی ماحول اس سے متضادتھا لیکن بالآخر ظاہر نے باطن کو
شکست دے دی ۔ جمعہ ۸ نومبر کی دوپہر کو ایک واٹس ایپ پیغام ملا جس کے مطابق
۱۳ سے ۱۷ کے درمیان فیصلے کی پیشن گوئی کی گئی کیونکہ سنیچر سے چار دن کی
تعطیلات تھیں لیکن اچانک رات ساڑھے نو بجے ایک بریکنگ نیوز آئی کہ اگلے دن
صبح ساڑھے دس بجے فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
دانشوران قوم نے اس سے یہ اندازہ لگایا کہ شریر لوگوں کو فتنہ پروری سے
روکنے کی خاطر اچانک چھٹی والا دن فیصلے کے لیے منتخب کیا گیا ۔ اس سے جو
امیدیں بندھیں وہ فیصلے کے بعد ماند پڑ گئیں کیونکہ اگرفیصلہ فسادیوں کے حق
میں سنا دیا جائے تووہ امن میں خلل ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ اس لیے یہ
احتیاط درکار نہیں تھا۔ اس فیصلے کو سننے کے لیے ٹیلی ویژن جب لگایا تو پتہ
چلا کہ جہاں کیمرہ ہے وہاں جج صاحب نہیں ہیں اور جہاں منصف اعظم فیصلہ
سنارہے ہیں وہاں کیمرہ لےجانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے یہ صورت اختیار کی
گئی کہ عدالت کے اندرجہاں کہ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل فیصلے کا خلاصہ
سنایاجارہا تھا ایک رپورٹر سنتا اور واٹس ایپ سے باہر کھڑے اپنے ساتھی کو
بھیجتا۔ کیمرے کے سامنے باہر کھڑا رپورٹر اس کو پڑھ کر سناتا اور اسٹوڈیو
بیٹھا اینکر اس کی وضاحت کرتا ۔
اس بالواسطہ طریقہ کار نے کرکٹ کی ریڈیو کمنٹری کا سماں باندھ دیا ۔ ویسے
فیصلہ بھی کرکٹ میچ کی مانند کروٹ بدلتا رہا۔ مثلاً فیصلے میں جب یہ کہا
گیا کہ اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ بابری مسجد کی زمین (جسے متنازع اراضی
قرار دیا جارہا تھا ) کے نیچے مندر تھا تو ایسا لگا کہ خطرہ ہے لیکن پھریہ
کہا گیا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی
۔ اس کے بعد ہوا کا رخ پھر بدلا اور یہ کہا گیا کہ لیکن مسجد بنجر زمین پر
نہیں بنائی گئی۔ ان سارے مشاہدات سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا تھا کہ یہ
اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟ ایک اور مثال دیکھیں کہ بار بار یہ بات دوہرائی
گئی کہ زمین کی ملکیت زیر بحث ہے۔ عقیدہ انفرادی ہوتا ہے اور یہ عقیدے کا
معاملہ نہیں لیکن پھر ہندو وں کو اسے رام جنم بھومی سمجھنا بھی تسلیم کرلیا
گیا۔ مسجد کے اندر مورتیوں کو رکھنا غیر قانونی قرار دیا گیا ۔ مسجد کو
مسمار کرنا غیر آئینی جرم بتایا گیا اس سے اس مقدمہ میں ماخوذ اڈوانی ،
جوشی اور بھارتی کے لیے مشکلات بڑھا دی گئیں لیکن اسی کے ساتھ جس فریق نے
یہ سب کیا اس کو بابری مسجد کی زمین حبہ کردی گئی۔ ایک اور دلچسپ تضاد یہ
ہے کہ سیاحوں کے سفرناموں سے یہ تو پتہ چلا کہ وہاں پوجا پاٹ ہوتی تھی لیکن
مسجد میں نماز ہوتی تھی اس کا ثبوت نہیں ملا کیونکہ ان لوگوں نے اس کا ذکر
نہیں کیا۔ یعنی آج کے زمانے کا کوئی سیاح لکھے اس نے بنارس سے ایودھیا
جانے والے ریل گاڑی دیکھی اور اس میں بیٹھے مسافروں کا ذکر نہیں کیا تو یہ
سمجھ لیا جائے گا وہ خالی خولی بھاگتی تھیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ مسجد دن
میں پانچ وقت نماز پڑھنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔کیااس حقیقت کا بیان ضروری
ہے؟
اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی وقف بورڈ اس خطۂ اراضی پر اپنا حق ملکیت
ثابت نہیں کرسکا حالانکہ مسجد تو اللہ کی ملکیت ہے۔ مسلمان وہاں عبادت کرتے
ہیں ۔ سنی وقف بورڈ اس کا انتظام و انصرام کرتا ہے اور عدالت کے اندر
مسلمانوں کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ سنی وقف بورڈ اگر اپنی ملکیت ثابت کرنے
میں ناکام بھی رہا ہو تو مسجد کی زمین جنم بھومی نیاس کے حوالے کرنے کا
جواز کہاں سے آگیا ؟ سپریم کورٹ کے فیصلے میں چونکہ ایسی بہت ساری باتیں
درج ہے اس لیے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا عدالت کا احترام کرتے ہوئے اور امن و
امان قائم رکھنے کی اپیل کرنے کے باوجود نظر ثانی کے لیے عدالت عظمیٰ سے
رجوع کرنادرست ہے۔یہ اس کا حق ہے اور بجا طور پر اس کا استعمال ہونا چاہیے۔
کرکٹ میں امپائر کا فیصلہ آخری ہوتا ہے لیکن اس کا درست ہونا ضروری نہیں
ہوتا ۔ ایسا ہی معاملہ عدالت میں بھی ہوتا ہے اس لیے عدالت کے ہرفیصلے کو
قبول تو کیا جاتا ہے لیکن اس کو درست نہیں سمجھا جاسکتا۔ نچلی عدالت کے
فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج بھی کیا جاتا ہے لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے
پر اتمام حجت کے لیے صرف نظر ثانی درخواست دی جاسکتی ہے اور اب یہی ایک
متبادل باقی ہے۔ کرکٹ میں تیسرے امپائر کی جانب میدان کا امپائر رجوع کرتا
ہے عدالت میں غیر مطمئن فریق یہی کام کرتے ہیں۔ ویسے جولوگ کرکٹ دیکھتے ہیں
وہ جانتے ہمیشہ ایک ہی ٹیم فتحیاب نہیں ہوتی ۔ ورلڈ کپ میں سب سے نیچے رہنے
والا بھارت بھی اگلی بار ٹورنامنٹ جیت جاتا ہے۔ ایک مرتبہ جو ہارتا ہے اگلی
بار وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن کو رب
کائنات مختلف لوگوں میں گردش کرتے رہتے ہیں تاکہ انہیں آزمایا جائے۔
اس بار حکومت اور انتظامیہ نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے جو غیر
معمولی احتیاط اور اقدامات کیے وہ قابلِ تعریف ہیں۔مودی سے لے کر یوگی تک
اور سنگھ سے وی ایچ پی تک سب نے کشادہ دلی سے فیصلہ قبول کرنے اور امن و
آشتی بحال رکھنے کی اپیل کی ۔ اس کی وجہ ممکن ہے یہ رہی ہو کہ انہیں فیصلے
کا اندازہ ہوگیا تھا۔ ویسے اگر فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو اصل
امتحان ہوتا لیکن عدلیہ نے انہیں اس آزمائش سے بچالیا ۔ نئے چیف جسٹس ایس
ایس بوبڑے تو پہلے ہی اعتراف کرچکے ہیں کہ حکومت سے ان کے تعلقات اچھے ہیں
اور وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں لیکن جسٹس رنجن گوگوئی
تو ان ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا
۔ ان سے تو کم ازکم یہ امید نہیں تھیاس لیے فیصلے کے بعدبے ساختہ یہ شعر
یاد آگیا ؎
منصف! تِری عدالتوں کی شہرتیں بجا
پر میں اُجڑ گیا ہوں تِرے فیصلوں کے بعد
عدالت میں سیاست کا داخلہ عدل کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ پچھلے دنوں اس
حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے معروف ایڈوکیٹ سنجے ہیگڈے نے
ممبئی کے کسی وکیل کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ عدالت سے لازماً انصاف نہیں
ملتا لیکن جو ملتا ہے اسےعدل کہتے ہیں ۔بابری مسجد پر عدالتِ عظمیٰ کے
فیصلے نے ممبئی کے اس وکیل کی یاد دلا دی۔ سبری مالا کے معاملے میں جب
عدالت عظمیٰ نے قدیم ہندو روایات کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کا سیاسی فائدہ
اٹھانے کی خاطر بی جے پی کے صدر امیت شاہ کیرالہ پہنچ گئے تھےاور انہوں نے
ایک خطاب میں کہا تھاکہ عدالت کو کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس پر
عملدرآمد ممکن نہ ہو یا مشکل ہو۔ عدلیہ کے فیصلوں کو نافذ کرنا حکومت کی
ذمہ داری ہے اس لیے عدالت سے اس طرح کا مطالبہ درست نہیں ہے لیکن ایسا لگتا
ہے کہ حالیہ فیصلے میں اس کا بڑا لحاظ کیا گیا ہے۔
عدالت کا فیصلہ الہام نہیں ہوتا اس لیے غلط بھی ہوسکتا ہے لیکن قبول کرلینا
پڑتا ہے۔ جنگ صفین کے موقع پرحضرت علی ؓ کی زرہ گم ہو گئی، بعد میں آپؓ نے
اس کو ایک یہودی کے پاس دیکھا تو فرمایا: یہ زِرَہ میری ہے، میں نے تمہیں
بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے۔ یہودی نے کہا: یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے
قبضے میں ہے۔ چنانچہوہ دونوں قاضی کے پاس پہنچے ۔قضیہ سننے کے بعدقاضی نے
کہا: اے امیرالمومنین! کیاآپ کے پاس کوئی گواہ ہے؟ فرمایا: ہاں ، حسن ؓ
گواہ ہیں۔ قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں۔ فیصلہ غلط
تھا لیکن حضرت علیؓ نے قبول کرلیا ۔ اس عادلانہ نظام کو دیکھ کر یہودی
ایمان لے آیا ۔ اس پر حضرت علیؓ نے خوش ہو کروہ زِرہ کے ساتھ ایک گھوڑا
بھی اس کو تحفے میں دے دیا۔ اس واقعہ سے یہ سبق تو ملتا ہے کہ انفرادی سطح
پر عدالت کا ناقص فیصلہ بھی قبول کرنا پڑتا ہے اور ایسا کرنے سے جو نقصان
ہوتا ہے اس سے بڑا فائدہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اجتماعی سطح پر غلط فیصلے کو
قبول کرتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کرنا بھی امت کی ذمہ داری ہے۔ مسلم
پرسنل لاء بورڈ فی الحال یہ فرض کفایہ اداکررہا ہے۔
|