سوچتا ہوں تقسیم ہند کے وقت قائد اعظم کے پاس کو ئی ولبھ
بھائی پٹیل جیسا زیرک لیڈر نہیں تھا جو تقسیم کی تلخیوں کو پیدا ہونے سے
پہلے ہی ختم کرا دیتا ایک نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اس پوری لاٹ میں فقط
چودھری رحمت علی نظر آتے ہیں لیکن وہ قائد کے اس نظرئے کے سخت ناقد تھے جو
قائد اعظم فرمایا کرتے کہ اگر رومال کے ٹکڑے کے برابر پاکستان بھی ملا تو
لوں گا۔اور وہی ہوا ایک کٹا پھٹا پاکستان جس کے دریاؤں کے سوتے بھارت کے
ہاتھ جس کی شہ رگ اس کے ہاتھ کہ جو اب سارا کچھ کر کے ہمارے پانیوں کی طرف
بھڑے گا۔ایک ہزار میل دور مشرقی پاکستان کو تو وہ برسوں پہلے الگ کر چکا
باقی کو تڑپا تڑپا کر مارنے کی کوشش میں لگا ہے اسے اس کے لئے کئی مجیب مل
گئے ہیں۔یہ سارا رونا مجھے یاد آیا جب سٹیج سے ایک نوجوان نعرے پے نعرہ لگا
رہا تھا -
بس ایک ہی نعرہ باقی تھا اب راج کرے گا خالصہ۔۔۔۔۔۔چلیں اچھا ہوا آج کا دن
بھی گزر گیا۔نوجت سنگھ سدھو اتنا بھی سدھو نہیں ہے کہ وہ سیدھی بات کر گیا
اس نے عمران خان کی تعریف تو کی لیکن بھارت ماتا کے فرزند کا کردار ادا
کرنا نہیں بھولا کسی کو یاد ہے کہ جب اس نے کہا ایک جپھی لگائی تھی تو
دربار بنوا دیا اور دوسری میں مطالبہ ہے کہ ہم لوگ آپس میں کاروبار کریں
اور تاجکستان تک آئیں جائیں۔قارئین میں ایک ایسا شخص ہوں جو ذہنوں کو پڑھنے
کی کوشش کرتا ہوں۔یہ میری اپنی سوچ ہے اسے خالصتا ذاتی سوچ کہہ لیجئے ویسے
بھی کالم نویس اپنی ذاتی سوچ کا اظہار کرتا ہے میں سمجھتا ہوں جناب وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی بھول گئے جب انہوں نے اسے دیوار برلن کا گرنا کہا تو
مجھے یاد آیا اس خونی لکیر اور اس دیوار کے پیچھے دس لاکھ شہیدوں کا خون
پچپن ہزار جوان عورتوں کی قربانیاں جو خالصوں کے حرم میں زبر دستی چلی گئیں
اور اتنی ہی پنجاب کے اندھے کنووں میں بھائیوں اور باپوں نے پھینک دیں کہ
سکھ جتھے انہیں قبضے میں نہ لے لیں۔شائد اس سمے کوئی نجوت سنگھ سدھو نہیں
تھا اور نہ ہی عمران خان جو دوستی کے رشتوں کی بات کرتا ایک ہی زبان بولنے
والوں نے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں میں یہ نہیں کہتا کہ صرف مسلمان مرے
ہندو بھی قتل ہوئے اور سکھ بھی لیکن غالب تعداد مسلمانوں کی تھی اور ان میں
مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی تھی جو ایک قادیانی سر ظفراﷲ خان کی اور ریڈ
کلف کی ملی بھگت کے سبب خونی داستان میں بدلی قہ قادیانی ڈسکہ کا جاٹ ساہی
تھا گرداس پور تین دن پاکستان کا حصہ بنا رہا اور بعد میں جب اعلان ہوا کہ
یہ بھارت کا حصہ ہے تو پھر جو قیامت ٹوٹی اس نے ایک تاریخ لکھی۔مت بھولئے
ان کی قربانیوں کو مجھے کرتار پور لانگے کا کھلنے میں خوشی سے زیادہ فکر ہے
کہ انڈیا بڑی چالاکی سے سکھوں کو استعمال کر رہا ہے ۱۹۴۷ میں مسٹر تارا
سنگھ استعمال ہوا تھا اور ۲۰۱۹ میں نجوت سنگھ سدھو استعمال ہو رہا ہے۔ہم
سمجھتے ہیں کہ نے یہ کرتار پور کا راستہ دے کر سکھوں کو اپنے ساتھ ملا لیا
ہے لیکن رکئے حضور بنیا کبھی گھاٹے کا سودہ نہیں کرتا اس نے سکھوں کی مانگ
کو مان تو لیا ہے لیکن اس نے ساتھ ہی سدھو کے ذریعے اپنی پرانی چال چلی ہے
کہ مشرقی پنجاب سے تجارتی راستے کھولے جائیں اور اسے روسی ریاستوں تک رسائی
ملے۔وہ کشمیر کی بات سننے کے لئے تیار بھی نہیں اور نہ ہی کرفیو ختم کر رہا
ہے اس کی اعلی عدالت عین لانگے کی تقریب والے روز بابری مسجد کے انہدام کو
جائز اور مسلمانوں کو چند ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ دیا ہے یعنی آٹھ ایکڑ لے
لو اور جاؤ جان چھوڑو ہم ہیں کہ ادھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ ہم نے بھارت کو
مشکل میں ڈال دی ہے۔
حضور اس بندے کی بات بھی سنئے جو وسطی پنجاب میں مدتوں رہا ہے یہاں کے
جاٹوں کے مزاج سے بخوبی آشناء ہے ارائیوں میں عمر گزاری ہے انہیں ضیاء الحق
کے دور سے ایک لولی پاپ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان بھارت کو آزاد خالصتان
تحریککے ذریعے نقصان پہنچانے جا رہا ہے چودھری ظہور الہی اس تحریک کو آگے
بڑھانے میں جتے رہے ضیاء بھی جالندھرئے تھے انہوں نے اس چیز کو آگے بڑھایا
جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کیس ہوا وہ گولڈن ٹمپل میں مارا گیا اس تحریک کو
آگے بڑھانے میں پاکستان سے جو ہو سکا اس نے کیا۔
قارئین تاریخ میں قوموں سے غلطیاں ہوتی ہیں قومیں کرتی ہیں لیکن اس کا
ازالہ معافی مانگ کر کیا جاتا ہے ۔کیا نجوت سنگھ بہتر سال پہلے کے لگائے
گئے زخموں کی بات کر کے دل جوئی کریں گے۔آج دن تھا کہ ان شہداء کی بات کی
جاتی اور کہا جاتا کہ وہ ماضی تھا آؤ اسے بھلا کر ایک نئی صبح کا آغاز کرتے
ہیں جو بولے نہال نوجان فیصل جاوید کو بتانا چاہوں گا جب یہ نعرہ لگتا تھا
تو لوگ گنے کے کھیت میں سہم کے رہ جاتے تھے جتھے جب مسلمانوں کے تعاقب میں
آتے تو یہی نعرہ لگایا کرتے تھے اس وقت برسات کو موسم تھا مکئی کی فصلیں
جوان تھیں مسلمان ڈر کے مارے دبے سہمے خاموش چھپ کر بیٹھے جب اس نعرے کو
سنتے تو قلیجہ منہ کو آ جاتا پھر جب مشکلات بڑھیں راتوں کو سفر کرتے جوان
بیٹیاں سامنے آتیں اور سکھوں کی درندگی کا سامانا ہونے کا منظر دکھائی دیتا
تو باپ اور بھائی اپنے ہاتھوں سے ماتھے چومتے اور انہیں کنویں میں پھینک
دیتے یہ اکا دکا واعات نہیں یہ پچاس ہزار سے زائد بیٹیاں تھیں
سینے دے وچ انہھیوں وجیاں سر ہوئے قلم قلماں کٹیاں عزت دی ٹہنی نالوں عذرہ
بانو سلمی کٹیاں فیر اے جا کے موقع بنیا پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟یہ سوال
کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ رہے گا۔
مجھے کہنے دیجئے اب تو ایک جانب سدھو ہے اور دوسری جانب عمران اور ادھر ایک
باجوہ ہیں جو آرمی چیف۔ان کی ذہنی ہم آہنگی ہے
کل کو ادھر کوئی اجیت سنگھ اروڑہ اور مانک شاہ پھر سے آیا تو ہم کس کی ماں
کو ماسی کہیں گے۔کرتار پور لانگا ضرور کھولئے لیکن کوئی ایسا معاہدہ جو
لانگ ٹرم ہو وہ نہ کیجئے۔ہم اسے کھوکھرا پار کی طرح طور خم کی مانند ضرور
رکھیں گے لیکن پروین شاکر کی طرح دیوار نہیں گرائیں گے کہ جو چاہے لنگ آوے۔
آئیے مجھے سمجھائیے کہ کل کلاں گریٹر پنجاب کا نعرہ لگتا ہے جاگ پنجابی جاگ
کے نعرے کو مزید تقیت ملتی ہے تو کیا کریں گے۔کیا سکھوں کے ساتھ پنجابی
مسلمان گزارہ کر لیں گے ۔جسٹس شریف کمیشن کی رپورٹ دیکھئے جس میں سکھوں کی
اولادیں جننے والی پچپن لاکھ عورتوں کا ذکر ہے جو جبری طور پر ان کے حرم
میں چلی گئیں۔اس لانگے کو تریل باڑ نہ بنائیں یہ لاکھوں شہیدوں کے خون سے
بنی دیوار ہے۔بھلے سے سکھ خالصتان حاصل کریں لیکن اتنا بھی سر پر نہ
چڑھائیں کہ کل کہیں کہ ہمارا مکہ اور ہمارا مدینہ ہمیں واپس کرو۔رنجیت سنگھ
کا گھر گجرانوالہ دو تلونڈی ہماری ہے اسے ہمارے حوالے کرو۔
پاکستان نے بہت کچھ کر لیا اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا۔انڈیا کا سرکاری مو ء
قف دیکھ لیجئے اس نے کشمیر پر ظلم عظیم جاری رکھا ہے بابری مسجد پر اپنے مو
ء قف پر قائیم ہے ہم اپنی دھرتی پر گوردوارہ بنا رہے ہیں اور راستہ کھول
رہے ہیں مجھے یہ بتائیں کہ کیا کشمیر میں انڈیا ایک ایسی جگہ بنانے کے لئے
تیار ہے جہاں ادھر کے اور ادھر کے آپس میں مل بیٹھیں دریا کے اس پار کھڑے
لوگ ادھر والوں کو چیخ چیخ کر حال احوال دے رہے ہیں ہمارا راستہ بھی مشروط
ہونا چاہئے تھا-
کہیں ہم فرط جذبات میں گریٹر پنجاب کی طرف تو نہیں جا رہے؟آج شکر گڑھ کل
ننکانہ صاحب پھر پنجہ صاحب گجرانوالہ اور سکھوں کا لاہور۔مجھے سمجھائیے کہ
گجرانوالہ کا شیرانوالہ باغ گھنٹہ گھر آبادی حاکم رائے گورو پورہ امرتا
پریتم کا محلہ یہ جب لانگے کے طفیل آزادانہ طور پر دیکھے جائیں گے تو من تو
للچائے گا ہمیں دلی دکھاؤ سری نگر کی سیر کراؤ آزادانہ آنے جانے دو محکوموں
کو آزاد کرو تو ٹھیک ہے یک طرفہ محبتیں گلے پڑ سکتی ہیں۔پاکستان کو جب تک
کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اس قسم کی لاڈیاں وارا نہیں کھاتی۔آج علی
گیلانی سے پوچھئے اور ان کشمیریوں سے جو کئی عشروں سے مظالم کا شکار ہیں
اگر انہیں یہ راستے پسند ہیں یہ دیواریں گرنا اچھی لگی ہیں تو میں خوش ہو
جاتا ہوں۔میں لکھاری ہوں میں سوچتا ہوں مجھے کل کی فکر ہے اس کل کی جب کسی
گریٹر پنجاب کا نعرہ لگے گا اور چناب سے ستلج کی درمیانی پٹی جو جھنگ تک
گئی ہے میں راج کرے گا خالصہ کی آواز بلند ہو گی۔پھر وہی خون ہو گا پھر وہی
ویرانی راوی کے بیلوں میں میں لاشیں بچھنے کا سماں ہو گا اور وارث شاہ کی
دھرتی پر کش و خون کے تذکرے ہوں گے۔کالم تو میں ے لکھ دیا ہے اس ڈر اور خوف
کے ساتھ کہ موسم اس قسم کی باتوں کا نہیں محفل کا رنگ یہ نہیں ہے لیکن بات
تو کرنا ہو گی بات اگر وقت پر نہ کی جائے تو اس کا کیا فائدہ۔رنگ میں بھنگ
شائد آپ کو بھی اچھا نہ لگے مگر فقیر کہے بغیر رہتا نہیں ۔لانگا اتنا مہنگا
|