تحریر:ڈاکٹرعاشق ظفر بھٹی
پاکستان بیک وقت آئینی،سیاسی،معاشی اورمعاشرتی بحرانوں میں گھراہوایہ بحران
ابتدائے آفرینس سے موجود ہے ا ن کوحل کرنے کی کوشش نے ان بحرانوں میں شدت
پیداکی ہے اورآج سنگین صورتحال اختیارکیے ہوئے ہے۔پاکستان کاآئنی مسئلہ
دراصل مرکزاوراصولوں کے درمیان کشمکش کا ہے اس کا پہلاحل 1956کے آئین میں
کوشش کی گئی ہے مسلم لیگ حکومت نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کاایک صوبہ
مغربی پاکستان بنادیا اس کا شدیدردعمل سندھ ،بلوچستان میں ہوا یہ بھی ایک
جابرقوم کی طرف سے ایک مفاداتی اقدام تھا آسان الفاظ میں یہ کہ اس
طاقتورقوم کو اپنی بیروزگاری ختم کرکے دیگرصوبوں کے وسائل پرقبضہ کرناتھا
جس سے ان صوبوں نے ون یونٹ کو توڑکرازسرنوصوبہ جات بنانے کا مطالبہ کیایحیٰ
خان پرجب سراقتدارآیا تواس نے ون یونٹ توڑکرچاروں صوبوں کوتوبحال کیا چونکہ
وہ ایک فوجی ڈیکٹیٹرتھاجس کے قریب جو لوگ تھے ان کی سن کروہی کیا جواسے
DICTATEکیا گیا۔اس دوران سرائیکی لوگوں کی آرزوجوابھی توانانہ تھی ان کے
مطالبے کوکسی نے گھاس تک نہ ڈالاحالانکہ ان لوگوں کو1961-62میں اپنی
کسمپرسی کا احساس ہوگیاتھااورانہوں نے مولانانواحمدخان فریدی،دلشادکلانچوی
اوردوسرے رہنماؤں کی طرف سے متعددباراجلاسوں کی قراردادوں پرتوجہ تک نہ
دی۔1970کے الیکشن کے بعدآئین سازی کاکام شروع ہواتواس مئلے پرتیزی سے
جدوجہدجاری تھی بالآخرذوالفقارعلی بھٹونے مرکزاورصوبوں کے درمیان اختیارات
تقسیم کردیے گئے اور1973کے آئین میں اس تقسیم کودرج کردیاگیااس دوران
بلوچستان میں صوبائی حکومت توڑی گئی جس پربلوچوں نے احتجاج کیاتوبلوچستان
پراس وقت سول حکومت نے فوج کشی کردی بھٹونے آئین میں طے شدہ اصولوں کوپامال
کردیا جب ضیاء کامارشل لاآیا تواس نے اس نے یہ آئین ہی معطل کردیا۔اوریہ
مسئلہ سنگین صورتحال اختیارکرگیااس پرولی خان نے موقف اختیارکیاکہ بھٹونے
بلوچستان میں منتخب حکومت توڑکرآئینی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس آئین
کومستردکردیا۔اس لیے اب نئی آئین ساز اسمبلی نے پشتون ،بلوچ اور سندھ محاذ
بناکرکہا کہ یہ فیڈریشن نہیں چل سکتی۔کیونکہ پاکستان میں پنجاب 62فیصدہے اس
لیے مرکز میں اس کی بالادستی رہے گی اورویسے بھی زیادہ فوج پنجاب کے لوگوں
کی ہے اس لیے مارشل لا لگتارہے گاجس نے کنفیڈریشن کا نعرہ لگایااس پرمیرغوث
بخش بزنجومطالبہ کیا کہپاکستان میں آئین کو1940قراردادپاکستان کے مطابق وضع
کیا جائے۔کئی برسوں سے صوبوں کے کے اختیارات کی بات چلی تھی مگران آوازوں
کوعلیحدگی پسندکہہ کردبادیاگیالیکن اب ایساممکن نہیں رہااسی لیے
طاقتورقوتوں اوراسٹیبلیشمنٹ کواس مسئلے کی سنگینی کوتسلیم کرنا چاہیے کہ وہ
خودمختیاری کے اصول کومانتے ہوئے نئے صوبہ جات طے شدہ قومیتوں کی بنیاد
پربننے چاہیں اوریہ ایسی تقسیم ہوکہ پنجاب ،سرائیکستان،سندھ،بلوچستان
اورپختونخواہ،کے لیڈروں کومطمئین کرنا چاہیے اس کے علاوہ کوئی اورطریقہ
آئینی بحران کوحل نہیں کرے گا۔پاکستان کا دوسرابحران سیاسی ہے آج میڈیا کی
آزادی کے دورمیں ملک کی آزادی کااستحصال ملک کی معاشی ترقی ،ملک کے عوام کی
خوشخالی،اورملک میں جمہوری اداروں اورجمہوری اقدارکے فروغ کا انحصار اس بات
پر ہے کہ ملک کی عوام کو اپنی مرضی کی سسی جماعت بنانے ملک کی ترقی کا
پروگرام وضع کرنے اوراس پروگرام کی بنیاد پرلوگوں کے پاس جانے اورحکومت
بنانے اوراقتدارہیں آکراپنے پروگرام پرعمل کرنے کی آزادی ہو۔طلباء،کسان
اورمحنت کشوں کواپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اپنے مطالبات حاصل کرنے کیلئے
تنظیمیں بنانے کا حق دیا جائے ۔جتنی بھی فوجی حکومتیں قائم ہوئی ہیں انہوں
نے بحڑان پیدانہیں کیابلکہ فوجی حکومتوں کا نفاذ خود اس بحران کے نتیجے میں
نافذہواہے یہ بحران اس لیے حل نہیں ہواہے کیونکہ ملک کی اسیاسی پارٹیاں
آزاد سیاسی عمل پریقین نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ فوجی حکومتوں کوخودموقع
فراہم کرتے ہیں۔ایک عرصہ سے سیاست کے اندرجوکرپشن شروع ہوگئی ہے وہ بھی اس
بحران کواورزیادہ تیزکررہی ہے پہلے توسیاسی کشمکش ہوتی تھی اب توکرپشن کرکے
سیاستدان جوازفراہم کررہے ہیں کہ وہ اس لائق نہیں ۔بحرحال ملک کی قوتیں
قومی اسمبلی،سیاسی ڈھانچہ وضع کرنا چاہتے ہیں جس میں قومی اسمبلی اکے
ممبران ان کی ساسی جماعتوں اوراسٹیبلیشمنٹ جوتینوں قابل قبول ہوتی ہیں یہی
وجہ ہے کہ وہ اس اصول کو سب سیاسی جماعتوں پرسیاسی عمل کرتے ہیں آزادہوں
اورایساقانون وضع کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف نہیں اورنہ ہی سیاسی
کاروائیاں کام کرسکیں ۔بہرحال آزادی اس کا نام ہے کہ وہ جس جماعت کے سیاسی
ورکرہوان کی سرگرمیوں پرکسی قسم کی پابندی نہ ہویہ عوام کا کام ہے کہ وہ کس
کوسندقبولیت عطاکرتے ہیں کس سیاسی جماعت کواپناتے ہیں کس سیاسی جماعت کو
نااہل سمجھتے ہیں اس ملک کاتیسرابحران سماجی ہے کہ اس سماج میں
کرپشن،رشوت،بدعنوانی،بدکراری،ریاکاری،منافقت،سود جیسی لعنت اورجھوٹ زندگی
کا حصہ بن گئے ہیں۔دولت کی حوس نے انسان کودرندہ بنادیا ہے انسان کے درمیان
مقدس رشتے خاک میں ملادیے گئے ہیں لوگوں کے دلوں میں خوف خدانکل گیا ہے اس
لیے تذکرہ بالابرائیاں پائی جاتی ہیں جسے لوگ مذہب کہتے ہیں اسی سے
دورہوگئے ہیں اوراس کی سزااورجزاکوبھلابیٹھا ہے اب کیسے لوگوں کے دلوں میں
خوف خداڈالا جائے انہیں مذہب کی تعلیم کیسے دی جائے کیونکہ انہوں نے نیک
توبننا نہیں کیونکہ جوسودلیتا دیتا ہے وہ اﷲ اوراس کے رسولﷺ سے کھلی جنگ
کرتا ہے انہیں کیاسمجھانامگرپھربھی ذرائع ابلاغ نے درس گاہوں کواس کام
پرلگارکھا ہے لاکھوں کے دعوت اسلامی اورتبلیغی اجتماعات ہوتے ہیں سالانہ
کروڑوں مسلمان حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں لیکن سماج کی برائیاں کم نہیں
ہورہی۔
پاکستان کا چوتھا بحران نہایت سنگین ترہورہا ہے پاکستان کی زرعی پیداوارمیں
کمی آرہی ہے ۔پاکستان میں سرمایہ کاری کاعمل بہترنہیں اورجدیدصنعتوں میں
اضافہ نہیں ہورہاپاکستانی تجارت خسارے میں جارہی ہے اوربے روزگاری میں
اضافہ ہورہا جس کیلئے نئے طریقے اور پراجیکٹ لانچ ہورہے ہیں جس میں آمدنی
زیادہ ہو۔اشیاء ضروریات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اورلوگوں کامعیارزندگی
گررہاہے ۔
پانچواں بحران تعلیم اورثقافت کا ہے پاکستان میں درسگاہوں کی مقدارمیں
اضافہ توہورہا ہے مگردوردراز کے علاقہ کے لوگوں کوجن کی استدعا بھی نہیں وہ
اس سے استفادہ نہیں حاصل کرسکتے اوراکثرتعلیمی ادارے تجارت زیادہ اورعلم کم
پھیلارہے ہیں اورآج تک ڈاکٹرعبدالقدیراوردیگرسائنسدانوں جیساسائنسدان
پیدانہیں ہوا۔یہ سب بحران معاشی بحران نے پیداکیے ہیں اورجب تک معاشی بحران
کوحل نہیں کیاجائے گاتب تک کوئی بحران حل نہیں کیاجاسکتا۔پاکستان کا معاشی
نظام جاگیراروں سرمایہ داروں اورامریکی سامراج کے اثرات سے عبارت ہے
جاگیرارا زرعی نظام کوجب تک توڑانہیں جاتااوراصل کاشتکارکوزمین تقسیم نہیں
ہوتی اس وقت تک ترقی کا راستہ شروع نہیں ہوگا۔پاکستان کا معاشی نظام
جاگیرداروں اورنودولتیے سرمایہ دارون کی وجہ سے ہے پاکستان کے اندرفرسودہ
جاگیرداری نظام ہیں جب تک اکثریتی آبادی زمینوں سے محروم اوراکثریتی رقبہ
اقلیت کے پاس ہے تب تک معاشی نظام حل نہیں ہوگا زمینوں کی ازسرنوتقسیم بہت
ضروری ہے جب زمین اوراس کی پیداوارحاصل نہیں ہونگی اوردیہات کے کسانوں کی
تخلیقی محنت آزارنہیں ہوگی اوردیہات کے لوگ باروزگارخوش حال بلندنظرنہیں
ہونگے جب انہیں سائنس اورجدیدٹیکنالوجی ملے گی تووہ تھیوکریسی کی گرفت سے
آزادہوجائیں گے وہ روایت پرستی اورقدامت پسندی اورمعاشی نظریات کوچھوڑدیں
گے وہ پھرجمہوری قوت بن جائیں گے ۔جاگیرداروں اوروڈیروں کی معاشی غلامی سے
آزاد ہوگروہ جدیداورآزاد انسان بن جائیں گے اوراکثرسماجی برائیاں جوان میں
پائی جاتی ہیں وہ دورہوجائیں گی پاکستان کی معشیت اورامریکی سامراج اوران
کے حوارین کے قرضوں پرپلی ہے اس لیے وہ امریکی سامراج کے ہم نوا ہیں اوراس
کی گرفت میں پھنسے ہوئے ہیں امریکی سامراج اوراسکے بنائے ہوئے اداروں کا
بوجھ اس لیے بڑھ رہا ہے اوران قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی تجارت سرمایہ
دارکی منڈی سے وابسطہ ہے اس وابطگی سے پاکستان کو ہرسال اربوں ڈالرکا
تجارتی خسارہ ہوتا ہے امریکی سامراج ان قرضوں کی مددسے پاکستان کی صنعتی
تجارت اورخارجہ پالیسی کوکنٹرول کرتا ہے پاکستان کی صنعت تجارت اورخارجہ
پالیسی اوراندرونی سیاست کوآزادکرنے کیلئے امریکی سامراجی قرضوں سے نجات
اوراس کے قرضوں پرانحصار ختم کرنا ہوگا۔
امریکی سامراج اورانڈیاپاکستان کے تعلیمی نظام اورثقافت پربہت زیادہ
اثراندازہورہا ہے اورہرقسم کا انسان دشمن فحش قسم کا مخرب اخلاق
لیٹریچراورگندی فلموں کی یلغارکردی گئی ہے اورنئی نسل کوبربادکرنے کے درپئے
ہیں امریکہ نے منصوبہ بندی کے تحت 1978کے بعدضیاالحق کی حکومت کے ذریعے
ہیروئین ،اوردیگرمنشیات اوراسلحہ کا کلچرپیداکردیاجسے پاکستان کے لوگوں نے
آہستہ آہستہ رشتہ ہوااپنے جوبن پرہے پاکستان کی ساری خرابیوں کا باعث
سامراجی اوراستحصالی اورمعاشی نظام ہے جو بھوک بے کاری بیماری اورناخواندگی
اورجہالت پھیلارہا ہے پاکستان میں جمہوریت کے قاتل امریکی
سامراج،جاگیردار،وڈیرے اورتھیوکریسی اورفرقہ واریت ہے ۔جب تک پاکستان میں
یہ بااثرہیں ملک کی معاشی ترقی کاہونا محال ہے اورقرضوں کابوجھ جوں جوں بڑھ
رہا ہے اورجمہوریت بھی مفقودرہے گی بداخلاقی بدکرداری اورکرپشن میں روز
بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ملک کے اندرغریب دوست معاشی نظام لانا ہوگااس کے
بغیرہرگزہرگزگزارانہیں۔
|