مہاراشٹر میں جمہوریت کا قتل

مہاراشٹر میں بی جے پی نے گھبرا کر صدر راج لگوا دیا ۔ اس نے ایسی حماقت کیوں کی ؟ اس بات کا پتہ لگا نے کے لیے یہ جانناضروری ہے کہ اگر صدر راج نہیں لگایا جاتا تو کیا ہوتا؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ادیتیہ ٹھاکرے کو جس دن گورنر سے مل کر اپنا دعویٰ پیش کرنا تھا اس دن اچانک ایک چونکا نے والی خبر اخبارات کے پورٹل اور ٹیلی ویژن کے چینلس پر گردش کرنے لگی۔ یہ میدان ِابلاغ میں برسرِ پیکار شیوسینا کے سینا پتی (سپہ سالار) سنجے راوت کو دل کا دورہ پڑنے کے سبب اسپتال میں داخل کیے جانے کی خبر تھی۔ پہلے تو اس کو اسی طرح اتفاق سمجھ لیا جیسا کہ بابری مسجد کا فیصلہ سننے کے لیے جب پورا ہندوستان ٹیلی ویژن سے چپکا ہوا تھا تو اچانک وزیراعظم نمودار ہوگئے اور کرتاپور کوریڈور پر ان کی تقریر نشر ہونے لگی ۔ ایسے اتفاقات انہیں لوگوں کے ساتھ کیوں ہوتے ہیں؟ اور یہ اتفاقات ہوتے ہیں یا منصوبہ بندی کا حصہ ؟ ان سوالات پر غور کرنا لاحاصل ہے ۔ اس لیے کہ دو سال سے رکی ہوئی کسانوں کی خودکشی کی رپورٹ جس دن یہ مژدۂ جانکاہ لے کر نمودار ہوتی ہے کہ اوسطاً ہر روز تیس کسان خودکشی کررہے ہیں اسی دن میڈیا کو رام جنم بھومی اور کرتارپور میں الجھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح ذرائع ابلاغ کے توسط سے عوام کی توجہ ان تلخ حقائق کی جانب سے ہٹا دی جاتی ہے۔ لگتا ہے سرکار دربار میں بیٹھا ہی جیوتش ان سب کاموں کے شبھ مہورت نکال کر دینے کی بیش قیمت ( لفظی معنیٰ میں ) خدمات انجام دے رہا ہے۔

سنجے راوت کو دل کا دورہ پڑنے کا راز اس وقت کھل گیا جب ادیتیہ ٹھاکرے نے کانگریس اور این سی پی کی حمایت کا خط گورنر کو دینے کے بجائے مزیدتین دن کی مہلت مانگ لی ۔ یہ آخری مغل بہادر شاہ ظفر کی کی ’عمر دراز کے جملہ چار دن ‘ کی مانند خواہش تھی جس کو بی جے پی کے سابق وزیراعلیٰ نے ٹھکرا دیا۔ ان سے کسی اور بات کی توقع ہی نہیں تھی۔ کانگریس نے اپنا جو خط پریس کے حوالے کیا اس میں شیوسینا کا نام و نشان نہیں تھا۔ این سی پی سے بات چیت جاری رکھنے کی بات کی گئی تھی۔ کسے خبر تھی کہ گفتگو کا اگلا دن جب آئے گا تو این سی پی کے ہاتھوں میں گورنر کی پیشکش کا خط ہوگا ۔ یہ بات عوام یا شیوسینا تو نہیں جانتے تھے لیکن اس کا اندازہ بی جے پی کو بھی نہیں تھا ۔ اس نے ٹھیک ساڑھے سات بجے پریس کانفرنس رکھی تھی۔ اس کو پہلے تو ملتوی کیا گیا اور منسوخ کردیا گیا۔ اس طرح پھر سے وزیراعلیٰ کی کرسی پر لوٹ کر آنے کا نعرہ لگانے والا دیویندر فڈنویس پریس کانفرنس میں بھی نہیں آسکا۔

ادیتیہ ٹھاکرے اور دیویندر فڈنویس دراصل شردپوار اور سونیا گاندھی کے سامنے سیاست میں اور ویسے بھی بچے ہیں۔ اس مائی باپ نے شیوسینا کو بلی کا بکرا بنا لیا ۔ پہلے تو اسے وزیراعلیٰ کی کرسی کا خواب دکھایا ۔ اس کے بعد بی جے پی سے اپنے رشتے توڑنے پر آمادہ کیا ۔ ان دونوں کے درمیان تلخی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا یہاں تک شیوسینا کے وزیر اروند ساونت نے مرکزی حکومت سے استعفیٰ دے دیا اور این ڈی اے کی سینک باہر نکل آئے ۔ یہ مرکزی حکومت کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا لیکن چونکہ بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل ہے اس لیے این ڈی اے ۵ فیصد نقصان کو نظر انداز کردیا گیا ۔ ویسے بھی اس طرح کی خبر اچھالنے والوں کے پر سونے کی قینچی سے کترے جاچکے ہیں ۔

زعفرانی طوطے کو پوری طرح اپنے پنجرے میں بند کرلینے کے بعد امید تھی کہ اسے حمایت کا امرود چکھا دیا جائے گا لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ گورنر کے پاس جانے کا وقت آیا تو ادیتیہ کے پاس نہ تو این سی پی اور نہ کانگریس کی حمایت کا خط تھا۔ چھپن انچ کے سینے والا ہندوستان کا وزیراعظم تو بن سکتا ہے لیکن ۵۶ ارکان اسمبلی کے ساتھ ۲۸۸ رکنی ودھان سبھا کو وزیراعلیٰ نہیں بناجاسکتا۔ یہ مجبوری اگر بی جے پی کی ہوتی تو گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اس کو تین دن کیا تیس دن کی مہلت عطا فرما دیتے ۔ اس لیے کہ اپنا آدمی تو آخر اپنا آدمی ہوتا ہے لیکن شیوسینا کی بغاوت اس قدر تازہ تھی کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کے چانکیہ کو اگر اس کا اندازہ ہوتا تو حکومت سازی سے معذرت نہیں کرتے لیکن اس بار امیت شاہ کے نہلے پر شرد پوار نے دہلا ڈال دیااور ناقابلِ تسخیر سمجھا جانے والا گجرات کیسری جو اپنے آپ کو رستم زماں سمجھنے لگا ہے چاروں خانے چت ہوگیا۔ شیوسینا بیچاری اب نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی ۔ وہ ایک بند گلی میں کھڑی ہے جس کے سامنے والے سرے پر اجیت پوار اور پچھلے سرے پر دیویندر فڈنویس کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔ اجیت پوار کی حمایت کرنا اس کی مجبوری بن گئی ہے۔ بصورتِ دیگر شیوسینا ٹوٹ جائے گی اور بی جے پی اس کے باغیوں کی مدد سے حکومت بنالے گی ۔

مہاراشٹر کا جو سیاسی منظر نامہ فی الحال نظر آرہا ہے اس میںایک دن قبل شام تک جواجیت پوار کے نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کی امید باندھے کھڑا تھا وہ وزیراعلیٰ کی کرسی کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ادیتیہ ٹھاکرے جن کے وزیراعلیٰ بن جانے کے روشن امکانات تھے انہیں ممکن ہے نائب وزیراعلیٰ کی کرسی پر اکتفاء کرنا پڑے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے فی الحال ڈھائی ڈھائی سال والے فارمولے کو تسلیم کرلیا جائے تاکہ شیوسینا اپنے حامیوں کو مطمئن کرسکے۔ اس معاملے میں سب سے بڑی مشکل کانگریس کی تھی۔ اس کے لیے شیوسینا کی حمایت کرنا بہت مشکل تھا لیکن این سی پی کی حمایت کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ ہم نظریہ بھی ہیں اور انہوں نے آپس میں الحاق کرکے انتخاب بھی لڑا ہے۔ کانگریس یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ شیوسینا کی حمایت اس نے نہیں این سی پی نے لی ہے۔ ڈھائی سال تک ساتھ میں حکومت کرنے کے بعد ضرورت پڑنے پر شیوسینا کے وزیر اعلیٰ کی حمایت بھی کانگریس کے لیے آسان ہوجائے گی ۔

ایسے میں بی جے پی کے پاس سی بی آئی وغیرہ کی مدد سے اجیت پوار کو جیل بھجوا نے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوتا اور ایسا کرنے سے مہاراشٹر میں اس کا بیڑہ غرق ہوجاتا۔ شرد پوار کی سیاسی حکمت عملی نے بی جے پی کو ایک ایسی حالت میں پہنچا دیا جہاں اس کے ایک جانب آگ اور دوسری طرف کھائی تھی۔ اس سے وہ ڈر گئی اور گھبرا کر صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کردی ۔ بہت ممکن ہے کہ اسے اس حماقت کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے ۔ عوام جمہوریت کے اس قتل کی سزا بی جے پی کو ضرور دیں گے اور دوبارہ اس کو ووٹ دینے کی غلطی نہیں کریں گے اس لیے کہ وہ حکومت سازی میں ناکام ہوچکی ہے۔ دیویندر فڈنویس اپنے سارے ساتھیوں کا اثر و رسوخ پہلے ہی ختم کرچکے ہیں ۔ شیوسینا سے ان کا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ باہر سے جن لوگوں کو انہوں ن جن لوگوں کو ے بی جے پی میں درآمد کیا ہے وہ ایک ایک کرکے بھاگ جائیں گے ۔ کانگریس اور این سی پی اتحاد کے خلاف دیویندر فڈنویس کے لیے شیوسینا کی مددکے بغیر ۵۰ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ اس طرح امکان یہی ہے کہ بی جے پی پھر سے مہاراشٹر کے اندر پہلے سے چوتھے مقام پر پہنچ جائے گی ۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.