بسم اﷲ الرحمن الرحیم
23 ربیع الاوّل یوم وفات
ہندوستان میں گیارھویں صدی ہجری کے مشہور محدث، عارف باﷲ اور ولی کامل
محدث جلیل حضرت شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ ہمارے ماضی قریب کے اُن
نابغہ روزگار محدثین میں سے ایک ہیں جن کی ہندوستان میں حدیث کی محفلیں
مدتوں فروزاں رہی ہیں۔ آپؒ ایک سر بر آوردہ اور ذی وجاہت خاندان کے فرد تھے
اور نسلاً ترک تھے ۔ آپؒ کے آباؤ اجداد کا تعلق ’’ماوراء النہر‘‘ سے تھا۔
سب سے پہلے اِس خاندان کے آغا محمد ترک بخاری ٗ سلطان علاء الدین خلجیؒ کے
زمانہ میں بخارا سے ’’دہلی‘‘ آئے ، وہ اپنے خاندان کے سردار اور سربراہ
تھے، اس لئے اُن کے ہم راہ بہت سے ترک بھی اپنا اصل وطن چھوڑ کر ’’دہلی‘‘
چلے آئے ، جن میں اُن کے اعزہ و اقرباء کے علاوہ مریدین ومتوسلین اور خدام
بھی تھے۔ آپؒ اسی ذی حیثیت اور ممتاز گھرانے کے فردتھے ۔ آپؒ مؤرخہ محرم
الحرام۹۵۸ ھ بمطابق ۱۵۵۱ ء کو ’’دہلی‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ ’آپؒ کا نام نامی
اسم گرامی: عبد الحق، کنیت: ابو المجد، تخلص: حقی، محدث دہلوی :عرف ، والد
کا نام: سیف الدین اور دادا کا نام: سعد اﷲ ہے۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نسب
یہ ہے: ’’عبد الحق بن سیف الدین بن سعد اﷲ بن فیروز بن ملک موسیٰ بن ملک
معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری……الخ۔‘‘ ’شیخ اولیاء‘‘ سے آپؒ کی تاریخ
ولادت بر آمد ہوتی ہے۔ (اخبار الاخیار : ص ۲۷۹ ،۲۸۰ )
آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار کے سایۂ عاطفت میں حاصل کی۔ ،
پڑھاپے میں آپ ؒکے والد ماجد کی ساری توجہ آپؒ ہی کی جانب مرکوز ہوگئی تھی
اور ہر وقت آپؒ کو اپنے ساتھ رکھ کر آپؒ کی تعلیم تربیت میں مشغول رہتے۔آپؒ
نے بارہ تیرہ برس کی عمر میں ’’شرح شمسیہ‘‘ اور ’’شرح عقائد‘‘پڑھیں اور
پندرہ سولہ برس کی عمر میں آپؒ ’’مطول‘‘ اور ’’مختصرالمعانی‘‘ ختم فرماچکے
تھے۔ پھر ایک دو برس کے اندر علوم عقلیہ سے آپؒ نے فراغت حاصل کی، اس کے
بعد آپؒ قرآنِ مجید کے حفظ کرنے میں مشغول ہوگئے، اور تقریباً سال ، سوا
سال میں آپؒ نے پورا قرآن مجید حفظ کرلیا ۔اس طرح تعلیم اور حفظ قرآن مکمل
کرلینے کے وقت آپؒ کی عمر لگ بھگ انیس بیس برس کے قریب ہوگی، جیساکہ عبد
الحمید لاہوریؒ نے بھی لکھا ہے۔ (بادشاہ نامہ: جلد اوّل ص۳۴۱)
آپؒ میں علم کا شوق اور مطالعہ کا ذوق اس قدر زیادہ تھا کہ وہ بچپن ہی سے
راحت و آرام، کھیل کود اور سیر و تفریح کی لذتوں سے نا آشنا رہے۔ چنانچہ وہ
خود لکھتے ہیں:’’روزانہ سخت ٹھنڈی ہوا اور گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں دو بار
دہلی کے مدرسہ میں جاتا تھا، جو غالباً میرے گھر سے دو میل کے فاصلہ پر تھا
، دوپہر کو گھر میں بس چند لقمے کھانے کے لئے رُکتا، تاکہ جسم و جان میں
حرکت و قوت باقی رہے، اِس سے زیادہ اِس وقت گھر پر نہ رہتا ، ایک مدت تک
صبح ہونے سے پہلے ہی مدرسہ پہنچ جاتااور چراغ کی رُوشنی میں ایک جزء لکھ
لیتا، اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ گو سارا وقت مطالعہ اور پڑھی ہوئی
کتابوں کی بحث و تکرار میں گھرا رہتا تھا مگر اس کے باوجود ان شروح و حواشی
کو جو نظر و مطالعہ سے گزرتے تھے لکھ لینا بھی ضروری سمجھتا تھا، رات کا
زیادہ حصہ اور دن کا کچھ حصہ مطالعہ میں صرف ہوتا تھا اور رات کا تھوڑا اور
دن کا بڑا حصہ لکھنے میں گزرتا تھا۔‘‘ ۱ (اخبار الاخیار: ص ۲۹۲ )
آپؒ نے ’’ زاد المتقین ‘‘ ، ’’ اجازات الحدیث في القدیم والحدیث ‘‘اور’’
أسماء الأستاذین ‘‘کے نام سے جو کتابیں لکھی تھیں اُن میں آپؒ کے اساتذہ کا
ذکر موجود ہے۔ غالباً آپؒ کے تذکرہ نگاروں نے آپؒ کے اساتذہ کا اسی لئے
کوئی ذکر نہیں کیا کہ خود آپؒ اُن کے بارے میں مستقل رسالے لکھ چکے ہیں ،
مگرآپؒ کے یہ رسالے اب دست یاب نہیں، اس لئے آپؒ کے عام اساتذہ کا نام
معلوم نہیں ہوسکا،تاہم تفحص و تلاش سے آپؒ کے جن اساتذہ کے نام معلوم ہوئے
ہیں وہ یہ ہیں:(۱)شیخ سیف الدین (۲)محمد مقیم (۳)شیخ عبد الوہاب متقیؒ
(۴)قاضی علی بن جار اﷲ بن ظہیرہ قرشی مخزومی مکیؒ (۵)شیخ احمد بن محمد بن
محمد ابی الحزم مدنیؒ (۶)شیخ حمید الدین بن عبد اﷲ سندھی مہاجرؒ۔ ( تذکرۃ
المحدثین : جلد دوم ص۴۳۱،۴۳۲ )
آپؒ نے ۹۸۵ ھ کے بعد اور اور حجاز کو روانگی سے پہلے درس و تدریس کا کام
بھی سر انجام دیا، گو آپؒ کے عام سوانح نگاروں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں
کیا ، مگر عبد الحمید لاہوریؒ لکھتے ہیں:’’وچوں سنین عمرش بہ عشرین رسید از
پایۂ تحصیل بدرجہ تدریس و چندے ہنگامہ افادہ گرم داشتہ بہ پائے طلب بادیہ
پیمائی سفر حجاز گردید۔‘‘ یعنی جب آپؒ کی عمر بیس برس کی ہوئی اور آپؒ
تحصیل علم سے فارغ ہوگئے تو منصب تدریس پر فائز ہوئے اور کچھ دنوں یہ شغل
اختیار کرنے کے بعد حجازِ مقدس روانہ ہوگئے۔ (باد شاہ نامہ : ۳۴۱/۱)
لیکن جیساکہ آپؒ نے خود ا پنی کتاب ’’اخبار الاخیار ‘‘میں لکھا ہے کہ: ’’
تکمیل علوم کے بعد میں سات آٹھ برس سے زیادہ عرصہ تک دانش ورانِ ماراء
النہر سے استفادہ کرتا رہا ہوں۔‘‘ اس لئے بیس برس ہی کی عمر میں منصب درس و
تدریس پر فائز ہوجانے کی بات محل نظر ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ علمائے
ماوراء النہر سے استفادہ کے بعد ۹۸۶ ھ میں آپؒ درس و تدریس کی مسند پر
متمکن ہوئے ہوں۔ بہرحال اس تفصیل سے اتنا معلوم ہوا کہ شیخ عبد الحق محدث
دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے سفر حجاز کو جانے سے پہلے بھی درس و تدریس کی خدمت
سر انجام دی ہے۔
اس کے بعد آپؒ حج بیت اﷲ اور زیارت مدینہ منورہ کے ارادے سے حجازِ مقدس کی
طرف روانہ ہوگئے ، جہاں آپؒ نے بڑے علمی و رُوحانی مراتب طے کئے ،اور ہرسال
حج و زیارت کعبہ سے مشرف ہوکر بیش از بیش رُوحانی برکتیں اور سعادتیں حاصل
کیں،اور دربارِ رسالت امیں حاضر ہوکر مدینہ منورہ کے انوار و برکات بھی بھر
پور طرح سے سمیٹے۔
کہا جاتا ہے کہ ۹۹۶ ھ میں آپؒ مکہ معظمہ پہنچے اور فریضۂ حج ادا کیا ، پھر
اس کے دس ماہ بعد مؤرخہ ۲۳ربیع الثانی ۹۹۷ ھ کومدینہ منورہ کے لئے روانہ
ہوگئے، اور رجب ۹۹۸ ھ کے اخیر تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد دوبارہ
مکہ معظمہ تشریف لائے اور دوسرا حج کیا ۔ پھر اس کے بعد شعبان ۹۹۹ ھ کے
آخری ایام میں ’’طائف‘‘ تشریف لے گئے اور پھر مکہ معظمہ واپس آکر تھوڑی مدت
تک قیام کرنے کے بعد اسی سال ہندوستان کے لئے واپس روانہ ہوگئے۔ ( نزہۃ
الخواطر : ۲۰۲/۵ ، فوائد جامعۃ : ص ۱۴)
اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو تصنیف و تالیف کا بڑا اچھا ذوق عطافرما رکھا تھا،جس کی
مقبولیت اور حسن قبول کا بعد کے مؤرخین اور تذکرہ نگاروں نے کھلے دل سے
اعتراف کیا ہے ۔ آپؒ کی جملہ تصانیف یہ ہیں:﴿۱﴾اجازۃ الحدیث فی القدیم
والحدیث﴿۲﴾اجوبۃ الاثنا عشر فی توجیہ الصلوٰۃ علیٰ سید البشر﴿۳﴾احوال
الائمۃ الاثنا عشر ﴿۴﴾ اخبار الاخیار ﴿۵﴾ آداب الصالحین ﴿۶﴾ آداب اللباس
﴿۷﴾ آداب المطالقۃ والمناظرۃ﴿۸﴾اسماء الرجال والرواۃ المذکورین فی کتاب
المشکوٰۃ ﴿۹﴾استیناس انوارالقبس فی شرح دعاء انس﴿۱۰﴾افکار الصافیۃ فی ترجمۃ
کتاب الکافیۃ﴿۱۱﴾التعلیق الحاوی علیٰ تفسیر البیضاوی ﴿۱۲﴾ الجواہر المضیہ
فی شرح الدرر البہیۃ ﴿۱۳﴾الفوائد فی الفقہ والعقائد﴿۱۴﴾انتخاب المثنوی
المولوی المعنوی﴿۱۵﴾الانوار الجلیۃ فی احوال المشائخ الشاذلیہ ﴿۱۶﴾ایراد
العبارات لبیان اہل الاشارات﴿۱۷﴾البناء المرفوع فی ترصیص مباحث الموضوع
﴿۱۸﴾ تالیف القلب الالیف بذکر فہرس التوالیف ﴿۱۹﴾ تجلیۃ القلوب القدس
الملکوت بشرح دعاء التضوت﴿۲۰﴾تحصیل البرکات والطیبات ببیان معنی التحیات
﴿۲۱﴾ تحصیل التعریف فی معرفۃ الفقہ والتصوف ﴿۲۲﴾ تحصیل الغنائم والبرکات
بتفسیر سورۃ والعادیات﴿۲۳﴾ تحقیق الاشارۃ الیٰ تعمیم البشارۃ﴿۲۴﴾ ترجمۃ
غنیۃ الطالبین ( فی الفارسیۃ وہو بادر معدوم )﴿۲۵﴾ ترجمۃ مکتوب النبی الامی
فی تعزیۃ ولد معاذ بن جبل ﴿۲۶﴾ترجمۃ منہج السالک الیٰ اشرف
المسالک﴿۲۷﴾ترغیب اہل السعادات علیٰ تکثیر الصلوٰۃ علیٰ سید الکائنات﴿۲۸﴾
تسلیۃ المصاب لنیل الاجر والصواب ( فی الصبر ) ﴿۲۹﴾ تکمیل الایمان وتقویۃ
الایمان ﴿۳۰﴾ تنبیہ العارف بما وقع فی العوارف﴿۳۱﴾ توصیل المرید الیٰ
المراد ببیان احکام الاحزاب والاوراد ﴿۳۲﴾ جامع البرکات ﴿۳۳﴾ جذب القلوب
الیٰ دیار المحبوب﴿۳۴﴾جواب بعض کلمات شیخ احمدسرہندی﴿۳۵﴾حاشیۃ
الفوائدالضیائیۃ ﴿۳۶﴾ الدرۃ البہیۃ فی اختصار الرسالۃ الشمسیۃ ﴿۳۷﴾ الدرۃ
الفرید فی بیان قواعد التجوید ﴿۳۸﴾ دفاتر ﴿۳۹﴾ ذکر سلوک ﴿۴۰﴾ رسالۃ اثبات
توقیت ﴿۴۱﴾ رسالۃ اقسام الحدیث ﴿۴۲﴾ رسالۃ تنبیہ اہل الفکر برعایۃ آداب
الذکر ﴿۴۳﴾ رسالۃ ذکر الاحوال والاقوال بہتہ علیٰ رعایۃ طریق الاستقامۃ
والاعتدال ﴿۴۴﴾ رسالہ شب برأت ﴿۴۵﴾ رسالۃ عقد الانامل ﴿۴۶﴾ رسالۃ فی اسرار
الصلوٰۃ ﴿۴۷﴾ رسالۃ نوریۃسلطانیۃ﴿۴۸﴾رسالۃ وجودیۃ﴿۴۹﴾زاد المتقین ﴿۵۰﴾ زبدۃ
الآثار منتخب بہجۃ الاسرار ﴿۵۱﴾ شرح اسماء الرجال للبخاری﴿۵۲﴾ شرح سفر
السعادۃ﴿۵۳﴾شرح الشمسیۃ﴿۵۴﴾شرح الصدوربتفسیر آیۃ النور﴿۵۵﴾ شرح فتوح الغیب
﴿۵۶﴾ شرح القصیدۃ الجزریۃ ﴿۵۷﴾ صحیفۃ المودۃ ﴿۵۸﴾ فصول الخطب لنیل اعالی
الرتب﴿۵۹﴾کتاب الفوائد والصلوٰۃ﴿۶۰﴾ماثبت بالسنۃ فی احکام السنۃ ﴿۶۱﴾مدارج
النبوۃ﴿۶۲﴾مرج البحرین﴿۶۳﴾ مکتوبات و رسائل ﴿۶۴﴾نکات الحق والحقیقۃ من
معارف الطریقۃ﴿۶۵﴾نکات العشق والمحبۃ فی تطیب قلوب الاحبۃ ﴿۶۶﴾ وصیت
نامہ﴿۶۷﴾ہدایۃ الناسک الیٰ طریق المناسک﴿۶۸﴾اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ (فی
الفارسیۃ)﴿۶۹﴾لمعات التنقیح علیٰ مشکوٰۃ المصابیح ۔
آپؒ کی وفات مؤرخہ ۲۳ ؍ربیع الاوّل ۱۰۵۲ ھ بروزِ دو شنبہ (پیر کے دن) کو
دار السلطنت دہلی میں ہوئی ، اُس وقت آپؒ کی عمر مبارک چورانوے (۹۴) برس
تھی ۔ آپؒ کی وصیت کے مطابق آپؒ کا نمازِ جنازہ آپؒ کے فرزند ارجمند شیخ
نور الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے پڑھائی اور ’’حوضِ شمسی‘‘ کے قریب ایک
قبرستان میں دفن کیے گئے ۔آپؒ نے اپنی قبر پر ایک لوح لگانے کی بھی وصیت
فرمائی تھی جو آپؒ کے صاحب زادے شیخ شاہ نور الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ
نے لگائی اور اُس پر تاریخ وفات اور مختصر حالات بھی جامعیت کے ساتھ تحریر
فرمائے ۔ آپؒ کی قبر مبارک آج بھی زیارت گاہِ خلائق ہے۔
|