وفا جن کی وراثت ہو
حصہ اول
تحریر : سید شازل شاہ گیلانی
شام کے دھندلکے بڑھ رہے تھے, یہاں سارا سال ہی موسم بہت اچھا رہتا ہے مگر
آج خنکی کچھ زیادہ ہی تھی, شمال سے آنے والی سرد ہوائیں بہت تیزی سے درجہ
حرارت کو نقطہ انجماد کی طرف لے جا رہی تھیں, چائے کا کپ ہاتھ میں لیے وہ
باہر نکلا اور کرسی پہ جا بیٹھا, چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے اس کا ذہن ماضی
کی طرف لوٹ گیا جب وہ یونٹ میں نیا نیا پوسٹ ہوا تھا ...
***********************************************
اکیڈمی اور اس کے بعد انفنٹری سکول کی تھکا دینے والی ٹریننگ کا خاتمہ ہو
چکا تھا اور اسے اپنی یونٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم ملا, آج بہت خوش تھا وہ
کہ بالاخر عملی طور پر وہ اپنے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے قابل ہو چکا ہے,
سکول سے نکلتے ہی بابا کو کال کر کے بتایا کہ سیدھا یونٹ جاؤنگا اس کے بعد
گھر آؤنگا دعا کیجیے گا کہ سب ٹھیک رہے, سنا ہے کہ نئے آنے والے کے ساتھ
بہت مذاق کیا جاتا ہے , بابا بھی چونکہ آرمی سے ریٹائرڈ تھے یہ سن کر بہت
ہنسے کہ کچھ نہیں ہوتا خیریت سے پہنچو اور انٹرویو کے بعد جلدی آنے کی کوشش
کرنا, ڈھیر ساری دعائیں دینے کے بعد کال بند ہوئی ۔
وہ سامان اٹھا کر اپنی منزل کی جانب نکل پڑا اور یونٹ میں کال کر دی کہ
جیسے ہی وہ شہر کے قریب پہنچے گا گاڑی بھجوا دیجیے گا .....
***********************************************
بابا آج خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ ان کا خواب پورا ہو رہا
تھا, بابا کی خواہش تھی کہ انکا بیٹا پاک آرمی۔ جوائن کرے, بیٹے نے پہلے تو
انکار کر دیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے اور سپیس اینڈ
ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کرنا چاہتا ہے مگر بابا نے اسے سمجھایا کہ "بیٹا بہت
کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی اس یونیفارم سے نوازتے ہیں اور اس پاک
وطن کی حفاظت کا فریضہ سونپتے ہیں, کفران نعمت مت کرو اور جوائن کرلو, میری
خواہش تھی کہ میں اپنے وطن پہ اپنی جان قربان کرتا مگر اللہ نے یہ خواہش
پوری نہیں کی , اب چاہتا ہوں کہ میں اپنے بیٹے کو شہید کے روپ میں دیکھوں
اور فخر سے کہہ سکوں کہ میں ایک شہید کا والد ہوں" اپنے بابا کی شدید ترین
خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا لمحہ آ پہنچا تھا ۔ ان کا بیٹا انکی خواہش پہ
سر تسلیم خم کرتے ہوئے ٹریننگ مکمل کر کے اپنی یونٹ کی طرف رواں دواں تھا
....
سردی بڑھ رہی تھی وہ شال سنبھالتا ہوا کمرے میں آ گیا , ذہن میں مسلسل ماضی
کے وہی لمحات ایک فلم کی صورت چل رہے تھے , کمرے کی لائٹ بند کی شال اتاری
اور کمبل اوڑھ کر بستر پہ دراز ہوگیا , اچانک دروازے پہ دستک ہوئی اور
پوچھا گیا, " سر ؟ موسم بہت سرد ہو چکا ہے کسی چیز کی طلب ہو تو پلیز
انٹرکام پہ بتا دیجیے گا لڑکا لے آئے گا"
اس نے جواب دیا " نہیں یار، آرام کرو تم سب لوگ اور اپنا خیال رکھنا۔ اوپر
پوسٹ والے سنتری کو چائے بھجوا دینا اور اسے الرٹ رہنے کا بول دینا " دستک
دینے والا ۔ "جی سر " کہتے ہوئے واپس پلٹ گیا اور وہ دوبارہ اپنے ماضی کی
یادوں میں گم ہو گیا..........
وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا, گھر کیا تھا جنت کا ایک ٹکڑا تھا جہاں
ماں بابا نے اپنی محبت اور سلوک سے ایسا ماحول ترتیب دیا تھا کہ باہمی محبت
اور ااحترام حد سے سوا تھا ، دو بڑی بہنیں تھیں اور دو اس سے چھوٹی, بابا
آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کر رہے تھے اور
ماما شہر کے گرلز کالج میں پروفیسر تھیں ، بہنیں اپنی اپنی تعلیم مکمل کر
رہی تھیں، بابا نے گھر میں سب کو بتادیا کہ "زین اپنی یونٹ پہنچ چکا ہے ۔
کچھ دن میں گھر آ جائے گا"
رمشاء بولی "بابا، بھیا یونٹ کیوں گئے ہیں ؟ عید سر پہ ہے ہم تو انتظار کر
رہے تھے کہ وہ سیدھا گھر آئیں گے، اتنا عرصہ ہو گیا ہے ان کو دیکھے" وہ
روہانسی ہو رہی تھی۔ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، وہ اسے دیکھ کر ہی
ججیتی تھیں۔ اسے دیکھ کر آنکھوں کی جوت بڑھ جاتی تھی۔ بابا نے مسکرا کر اس
کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے " بیٹا اس نے کہا ہےکہ وہ ایک بار یونٹ سے ہو
آئے تو پھر ہی گھر آئے گا، دعا کیا کرو اپنے بھائی کے لیے کہ اللہ تعالی
اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے ....." بابا نے آنکھوں کی نمی اس سے چھپائی۔
جس میں فخر سا جھانک رہا تھا۔
وہ جیسے ہی شہر کے قریب پہنچا, صوبیدار عامر صاحب کی کال موصول ہوئی " کب
تک پہنچنے والے ہیں آپ، ہم کافی دیر سے بس اسٹینڈ پہ آپکا انتظار کر رہے
ہیں"
اس نے انہیں بتایا " بس پانچ منٹ اور لگیں گے سر"
کچھ ہی دیر میں وہ اپنے سٹاف کے سامنے تھا، عامر صاحب نے آگے بڑھ کر اسے
گلے سے لگایا اور ایک لڑکے سے سامان لینے کو کہا, سامان گاڑی میں رکھ کر
یونٹ کی طرف رواں دواں ہوئے تو راستے میں عامر صاحب نے یونٹ سٹاف اور
لوکیشن کا تعارف کروایا اور باتوں باتوں میں ہلکا پھلکا انٹرویو بھی کر
لیا۔
کچھ دیر میں گاڑی یونٹ کے گیٹ سے ہوتی ہوئی کار پارکنگ میں جا رکی, سامنے
ایڈجوٹینٹ کیپٹن فواد اور کوارٹر ماسٹر لیفٹیننٹ بلال استقبال کے لیے کھڑے
تھے, سلام دعا کے بعد وہ ایڈجوٹینٹ آفس میں جا بیٹھے، ٹی بریک تھا ،ویٹر ٹی
لے آیا، فواد سرکی مذاق کی عادت تھی۔ بولے ،" یار زین تجھے مرنے کے لیے
کوئی اور جگہ نہی ملی جو سیدھا یہاں آ گیا ہے ؟ اللہ کے بندے پہلے گھر
والوں سے تو مل آتا اتنی جلدی بھی کیا تھی؟" اس پہ سب کا زوردار قہقہہ بلند
ہوا۔
بلال بولا "سر میرا خیال ہے اب چلا جائے کافی سفر کر کے آیا ہے، تھکا ہوا
ہوگا اب اسے کمرہ دکھا دیتے ہیں تاکہ فریش ہو جائے۔ کل تو ویسے بھی اس نے
بَلی کا بکرا بن جانا ہے ... " ساتھ ہی منہ نیچے کر کے ہنسنے لگا۔ جیسے
اپنے ہی مذاق سے لطف اندوز ہورہا ہو۔
فواد سر بولے" ایسے تو مت کہویار بلال ، کیوں بچے کو ڈرا رہے ہو؟ چلو اب
چلتے ہیں باتیں تو ہوتی رہیں گی......"
رات پرسکون نیند لینے کے بعد صبح نماز کے وقت اٹھ کر اس نے غسل کیا اور
نماز ادا کر کے تلاوت کی, یونیفارم استری ہو کر آچکی تھی۔ وہ زیب تن کی ,
ناشتہ کیا اور یونٹ کی طرف چل پڑا، راستے میں دعا کرتا رہا کہ اللہ کرے سی
او سر سے پہلی ملاقات بہت اچھی ہو, سنا تھا بہت ڈسپلنڈ آدمی ہیں اور کوئی
بھی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔
یونٹ پہنچا تو رَنر پیغام لیے کھڑا تھا کہ سی او( کمانڈر آفیسر) سر آپ کو
یاد کر رہے ہیں , جل تُو جلال تُو کا ورد کرتا ہوا سی او سر کے آفس میں
داخل ہوا تو وہ اپنے سامنے بچھی میز پر ایک نقشہ پھیلائےاس کو دیکھ رہے تھے
،اس کی آواز سن کر سیدھے ہوئےاور سلیوٹ کا جواب سر ہلا کر دیا
اور آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
بولے "زین مجھے تمہاری کورس رپورٹ مل چکی ہے خوشی ہے کہ تم جیسا ہونہار
آدمی اب میرے سٹاف کا حصہ ہے امید ہے تم میری امیدوں پر پورا اترو گے, یاد
رکھو جوان کہ یہ یونیفارم ہم نے وطن کی بقاء اور اسکی حرمت کے لیے پہنی ہے
سب سے پہلے اپنا وطن، باقی سب کچھ بعد میں ، جانتا ہوں کہ کافی عرصہ ہو گیا
ہے تم گھر نہیں گئے مگر حالات ایسے ہیں کہ شاید تم ابھی بھی کچھ عرصہ گھر
نہ جا سکو،لیکن پریشان نہیں ہونا۔ یونٹ اس وقت آپریشنل ایریا میں ڈیپلائے
ہے اور بہت اہم کام ہمارے ذمہ لگائے گئے ہیں , سرحد پار سے دراندازی روکنا
اور اپنے ایریا آف رسپانسبلٹی کو محفوظ رکھنا ہمارا کام ہے , یہاں تمہیں
بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا امید ہے تم مجھے مایوس نہیں کرو گے, جوان تمہارا
مشن ابھی اور اسی وقت شروع ہوتا ہے صوبیدار عامر تمہیں مزید بریف کر دیں
گے۔
" سر انشاء اللہ ، آپ کو مایوسی نہیں ہوگی " زین نے پر اعتماد لہجے میں
جواب دیا۔
" مجھے معلوم ہے. . . . " انہوں نے دھیمی سی مسکراہٹ سے جواب دیا، جس نے
زین کا اعتماد کئی گنا بڑھا دیا۔ اس کے بعد وہ اسے کچھ دیر نقشے پر سٹک کی
مدد سے کچھ ضروری نقاط سمجھاتے رہے۔
بالآخر کچھ باتوں کے بعد فارغ ہوکر زین سے بولے " جاؤ جوان ، اللہ کی پناہ
میں رہو ......." زین سیلیوٹ کرکے باہر آگیا۔ سی او صاحب سے پہلی ملاقات
بہت اچھی رہی تھی۔
وہ سی او سر کو سلام کر کے باہر نکلا تو عامر صاحب اور طارق اس کا انتظار
کر رہے تھے اسے لیکر بریفنگ روم میں داخل ہوئے وائٹ بورڈ پہ عامر صاحب نے
اسے اور اس کے دوسرے ٹیم ممبران کو مشن کی تفصیلات سے آگاہ کرنا شروع کر
دیا, انہوں نے تمام پوائنٹس اس کے سامنے رکھے اور بتلایا کہ جس ایریا میں
ہم ڈیپلائے ہیں یہ علاقہ دہشت گردوں کا گڑھ ہے مقامی لوگوں کے علاوہ،
بیرونی علاقوں اور خاص طور پر سرحد پار سے ان کو مدد ملتی رہتی ہے جس کی
وجہ سے یہ لوگ انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہیں, ہمیں اطلاع ملی ہے کہ عید
الاضحٰی کے موقع پر ان کا ایک گروپ دہشت گردی کی بہت بڑی کاروائی کرنے جا
رہا ہے ۔جسے سبوتاژکرنے کے لیے ہمیں ہیڈکوارٹر کی جانب سے احکامات ملے ہیں,
کیپٹن علیم اس آپریشن کو لیڈ کریں گے اور آپ ان کے نائب کے طور پر اپنا کام
کریں گے, کب اور کہاں جانا ہے یہ سر علیم فائنل کریں گے, آئیے یونٹ کے جوان
آپکو ویلکم کہنے کے لیے بے تاب ہیں ،ان سے مل لیں اور ٹی بریک کر لی جائے,
یہ کہہ کر وہ سب اٹھے اور یونٹ لائن کی طرف نکل پڑے
جوانوں نے اپنے نئے آفیسر کا بہترین استقبال کیا، تمام لوگ فرداً فرداًزین
سے ملے اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے، چائے کا دور شروع ہوا تو باتوں
کا سلسلہ یہاں بھی نہ رکا, عامر صاحب بولے
" سر، اس یونٹ نے اپنے کام اور اپنی مہارت میں ہمیشہ ہر جگہ اپنا لوہا
منوایا ہے یہاں ہر جوان ہر آفیسر ایک سے بڑھ کر ایک ہے یہاں وہی لوگ بھیجے
جاتے ہیں جو زندگی کے بجائے شہادت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں , سب لوگ
بہت خوش ہیں کہ کورس کا ٹاپ سنائپر ہمارے پاس پوسٹ ہوا ہے ہم سب پوری کوشش
کریں گے کہ آپکو کوئی مسئلہ نہ ہو اور ہم سب مل جل کر اپنا کام کرتے رہیں
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھی کہ پتہ چلا سر علیم بھی پہنچ چکے ہیں اور میس کی
طرف ہی آ رہے ہیں ........
"بابا, بھائی کب تک آئیں گے کچھ بتایا انہوں نے ؟" نہیں بیٹا آج کال کر کے
پوچھتا ہوں, خیر تو ہے تم لوگ کیوں بار بار پوچھ رہے ہو ؟"
بابا نے رمشاء سے پوچھا۔ " بابا ! آپکو پتا ہے نا وہ سب سے زیادہ مجھ سے
پیار کرتے ہیں اب عید آ رہی اور بھائی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ڈھیر
ساری شاپنگ کروائیں گے"
بابا ہنسے کہ تم صرف اپنی شاپنگ کے لیے بھائی کو مس کر رہی ہو؟؟ "نہیں نہیں
بابا ،میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا، بس وہ خیر سے آجائیں
ان کے ساتھ تو ہر دن عید ہوتا ہے"
"جی میری جان دعا کیا کرو اپنے بھائی کے لیے. بابا یہ کہہ کر مسجد کی طرف
چل دیے جہاں موذن ربِ کبریا کی بڑائی بیان کر رہا تھا
سر علیم نے میس پہ آتے ہی پوچھا۔ "ارے بھئ کہاں ہے ہمارا نیا شہزادہ کوئی
خدمت سیوا بھی کی ہے یا نہیں ؟؟ زین کیسے ہو کورس کیسا رہا اور یہاں کا
ماحول اور سٹاف کیسا لگا ؟؟"
" جی سر سب کچھ بہت اچھا ہے آپکی بہت تعریف سنی ہے ماشاء اللہ" زین نے جواب
دیا۔
"چلو بھئ اگر ٹی بریک کر لی ہو تو چلیں ،ابھی کچھ دیر میں نکلنا ہے ہم نے ،
تو کچھ چیزیں ڈسکس کر لیں. . . عامر صاحب آپ زین, حوالدار طارق ,نائیک
اسماعیل اور باقی لڑکوں کو لے کر کانفرنس روم میں آ جائیں " سر علیم اتنا
کہہ کر باہر نکل گئے.....
کچھ دیر میں سب کانفرنس روم میں جمع تھے, سر علیم نے تفصیل بتانا شروع کی.
. . "جوانو، جیسا کہ تم سب جانتے ہو کہ اس ایریا میں ہمارا کام کیا ہے بہت
بھاری ذمہ داری ہم سب پہ ڈالی گئ ہے یہاں سے چالیس کلومیٹر دور بارڈر کے
بالکل پاس تورا توغہ کے پہاڑی علاقے میں موومنٹ دیکھی گئ ہے. یہ بھی اطلاع
ملی ہے کہ انکی تعداد کافی زیادہ ہے اور ہتھیاروں کی مسلسل سپلائی جاری ہے,
ہمیں انکی تعداد یا ہتھیاروں کی کوئی پرواہ نہی, ہم اس وطن کے محافظ ہیں
اور یہ وطن ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے . ہم تیرہ لوگ ہونگے 6
لوگوں کی ایک ٹُکڑی جس میں نائب صوبیدار عصمت حوالدار طارق, لانس نائیک
بابر, لانس نائیک وقار اور سپاہی ارشد ہونگے انکو لیڈ لیفٹیننٹ زین کریں گے
، جبکہ میرے ساتھ صوبیدار عامر, حوالدار اللہ بخش, نائیک اسماعیل, لانس
نائیک سلطان اور سپاہی توقیر ہونگے, حوالدار شوکت ہمیں وائرلیس کمیونیکیشن
بیک اپ دیں گے, عامر صاحب فٹافٹ تمام ہتھیار ایمونیشن گاڑیاں اور باقی
سامان چیک کروالیں, تمام لوگ سٹینڈ بائی ہونگے اور موو کا آرڈر ملتے ہی ایک
منٹ میں نکلنا ہوگا... کوئ شک ؟؟؟" " نو سر" کی فلک شگاف آواز سے کانفرنس
روم گونج اٹھا........
"چلیں اللہ کا نام لیکر اپنا اپنا سامان دیکھ لیں اور اپنا آووِر سِک (
راستے کا کھانا ) پیک کروا لیں, اللہ پاک ہم سب کو اپنی عافیت میں پناہ دے
" انہی الفاظ کے ساتھ سر علیم نے بریفنگ کا اختتام کیا اور زین کو باہر آنے
کا اشارہ کیا, وہ انکے ساتھ چلتا ہوا روم سے باہر آگیا, سر علیم اسے لیکر
اپنے آفس میں آ بیٹھے.. " یار زین ،سوری کہ میں تمہیں اچھی طرح ویلکم نہیں
کر سکا ،حالات و واقعات تمہارے سامنے ہی ہیں، دل میں مت رکھنا"
" نہیں نہیں سر کوئی بات نہیں ہے ..."
اچھا بتاؤ تمہارے بابا کیسے ہیں؟ He is Such a Great Person یار, اکیڈمی
میں وہ میرے انسٹرکٹر رہ چکے ہیں, بہت کچھ سیکھا ہے میں نے ان سے "
" جی سر ماشاء اللہ بہت بہتر ہیں، آپکی بہت تعریف کرتے ہیں زین نے جواب دیا
,,, ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ انٹرکام بج اٹھا, سر علیم نے کال ریسیو
کی اور کچھ دیر بات کرنے کے بعد ریسیور رکھ دیا اور بولے, "زین چلو بھئی
کام کا وقت آ پہنچا ہے تم اپنے ساتھ PSR-90 رکھو گے آج دیکھتے ہیں کہ ٹاپر
کا نشانہ کیسا ہے؟" انہوں نے خوشگوار لہجے میں جواب دیا۔
"جی سر، آپ انشاء اللہ نا امید نہیں ہوں گے"
سر علیم اور وہ پارکنگ کی جانب نکلے تو عامر صاحب تمام جوانوں اور ہتھیاروں
کے ساتھ وہاں موجود تھے, موو کا آرڈر ملتے ہی سب گاڑیوں کی طرف لپکے اور
سوار ہوتے ہی گاڑیاں اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگیں.........
زین تم درے کے سامنے ٹاپ پہ اپنی پوزیشن سنبھال لو۔ عصمت صاحب تمہیں اسسٹ
کریں گے اور باقی تم دونوں کو کور بیک اپ دیں گے, ایسی جگہ منتخب کرنا جہاں
تمہیں ڈھونڈنا ناممکن ہو, شوکت تمہیں کمیونیکشن دے گا کوئی بھی مسئلہ ہوتا
ہے تو تمہیں اختیار ہے کہ سچویشن کے مطابق فیصلہ لے لو اور یاد رہے اس
ایریا میں جا بجا آئی ای ڈیز بکھری پڑی ہیں ان سے بچ کر رہنا,,,, میں یہاں
نیچے رہوں گا اور گراونڈ پہ ٹارگٹ اِنگیج کروں گا اور جب تک میں تمہیں سگنل
نہ دوں تم فائر نہی کرو گے, یاد رہے کسی بھی حالت میں تم اپنی پوزیشن نہی
چھوڑو گے چاہے یہاں سب کے سب کیوں نہ مارے جائیں ,,, کوئی شک؟"
"نو سر " کہتے ہوئے زین نے اپنا ہتھیار اٹھایا اور باقی لوگوں کے ساتھ ٹاپ
کی طرف چل پڑا .....
سر علیم نے اپنے گروپ کو آدھے چاند کی شکل میں کور لینے کو کہا اور ٹیلی
سکوپ آنکھوں پہ لگائے اس پہاڑی درّے پہ نگاہیں جما لیں جو دونوں سرحدوں کو
جوڑتا تھا , اس تنگ و تاریک درّے سے ہی دہشت گرد وطن عزیز میں داخل ہو کر
بزدلانہ کاروائیاں کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ آج اس گروپ کو یہ مشن دیا گیا
کہ کچھ بھی کر کے آج داخل ہونے والے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے اور اس
کے بعد اس جگہ کو پاٹ دیا جائے تاکہ یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکے ....
آہستہ آہستہ اندھیرے نے روشنی کو نگلنا شروع کر دیا, گہرا گھپ اندھیرا ہر
سو پھیلتا چلا گیا. تمام لوگ دم سادھے اپنی اپنی پوزیشن سنبھالے دشمن کے
آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ یکایک فضا ٹریسر راؤنڈ کی روشنی سے منور ہو
گئ. سر علیم نے فوری سب سے زمین لیٹ جانے کو کہا "عامر صاحب لگتا ہے بھائ
لوگ آ رہے ہیں ؟؟
جی سر راؤنڈ شاید اسی لیے فائر کیا گیا ہے کہ وہ درہ پار کرنے سے پہلے دیکھ
لیں کہ یہاں کوئ خطرہ تو نہیں. عامر صاحب گویا ہوئے.....
وائر لیس پہ سرگوشی گونجی. تمام لوگ تیار رہیں کسی بھی وقت وہ لوگ درہ پار
کر اس طرف آ نکلیں گے کوئ آواز یا شور نہیں ہونا چاہیے. ہم کسی بھی صورت
انکو واپس نہی جانے دے سکتے, انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید پاسبانِ وطن سو
رہے ہیں مگر آج انکو کوئ موقعہ نہیں دیا جائے گا. تمام لوگ فائر پوزیشن پہ
آ جائیں اور ہتھیاروں پہ سائلینسرز فِٹ کر لیں. ہر فائرر پوزیشن بدل کر
فائر کرے گا تاکہ ہم کہاں ہیں یہ انکو واضح نا ہو. زین تم اپنا فوکس درے پہ
رکھو گے ہم انکو یہاں انگیج کریں گے کوئ بھی آدمی زندہ سلامت درے کے پار
نہیں جانا چاہیے. میرے شیرو اس امتحان میں اللہ تبارک و تعالی ہمیں سرخرو
فرمائے ......
ﻭﻓﺎ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﮨﻮ
ﺣﺼﮧ ﭼﮩﺎﺭﻡ
ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺳﮯ ﭘﯿﻮﺳﺘﮧ
ﺗﺤﺮﯾﺮ : ﺳﯿﺪ ﺷﺎﺯﻝ ﺷﺎﮦ ﮔﯿﻼﻧﯽ
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺩﺭّﮮ ﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔئیں, کچھ لوگ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ
کر رہے تھے جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں، ان کے
ﻗﮩﻘﮩﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﺩﻭﺵ ﭘﮧ ﺑﮑﮭﺮ
ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ, ﺍِﺩﮬﺮ ﺗﻤﺎﻡ لوگوں نے ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻓﺎﺋﺮ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ تھے,ان کی انگلیاں ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﻘﺮﺍﺭ , ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻥ ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ تھے ﮐﮧ ﮐﺐ مخصوص ﺳﮕﻨﻞ ﺩﯾﺎ
,ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺩﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﻤﺮ ﭘﮧ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺑﯿﮓ , ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺷﻨﮑﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﺁﺭ ﭘﯽ
ﺟﯽ ﺳﯿﻮﻥ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺩﺭﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺁﮔﮯ
...ﮐﮭﻠﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ
ﺍن لوگوں کی ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺍﺏ بالکل ﺻﺎﻑ سنائی دےﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﮔﻼ
ﭘﻼﻥ ﻓﺎﺋﻨﻞ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮎ ﮐﺮ
ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻋﻠﯽ الصبح ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ, ﺍﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮓ کاندھوﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺟﮭﯿﻨﮕﺮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ
ﺳﻨﺎئی ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﺪﻭﺯ ﭼﯿﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﮐﺎ
ﺳﯿﻨﮧ ﭼﯿﺮ ﺩﯾﺎ, ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﻔﻞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﻮﻟﯽ
ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﺳﺮ ﺩﻭ ﭨﮑﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ہم نے انہیں سنبھلنے کا موقع
دیے بغیر ان پر یلغار کردی تھی۔
ﺍﺱ کے ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ خون و ﺁﺗﺶ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔
ﭘﮩﻼ ﻓﺎﺋﺮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﮯ, ﻭﮦ جگہ
ﺟﮩﺎﮞ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﻮﺕ کا ﺳﺎ ﺳﻨﺎﭨﺎ چھایا ﺗﮭﺎ، ﺍﺏ وہاں
ﮔﻮﻟﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮍﺗﮍﺍﮨﭧ کی گونج ﺗﮭﯽ, ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ
ﭨﺮﯾﺴﺮ ﺭﺍﺅﻧڈ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﻈﺮ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ, ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﮕﮧ ﻣﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ
ﺳﻨﺒﮭﺎل ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ " ﻋﺼﻤﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﮨﻮﺍ
ﮐﺎ ﺭﺥ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﯿڈ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺩﻧﮯ ﮐﺎ
ﻭﻗﺖ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ" ﺯﯾﻦ ﻧﮯ ﻋﺼﻤﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﯿﺎ
"ﺟﯽ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺩﺑﺎﺅ بالکل ﻧﺎﺭﻣﻞ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺷﻤﺎﻻً ﺟﻨﻮﺑﺎً ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﻣﺪﺩ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﺳﻤﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮕﯿﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
... ﺁﺳﺎﻧﯽ ﮨﻮﮔﯽ, ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﺭﮔﭧ ﺳﻠﯿﮑﭧ ﮐﺮﯾﮟ"
ﺳﻌﺪﯾﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﻋﻠﯿﻢ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺐ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ؟؟ ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ
ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻮ ﺳﮯ ﺍستفساﺭ ﮐﯿﺎ " جی ﺍﻣﯽ، وہ ﮐﮩﮧ
ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻋﯿﺪ ﭘﮧ ﺁﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽﮫ
ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺅﮞ" ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎئی ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﭼﻠﯽ ﺟﺎؤ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺪ ﮐﯽ ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﺮ ﺁﺅ بلکہ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﻠﯿﻢ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺳﺐ ﻣﻞ ﮐﺮ ﭼﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺏ ﻭﮦ نہیں
ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ کوئی ﻓﺎﺋﺪﮦ نہیں ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ" امی نے پر سوچ انداز میں
کہا۔
" ﺟﯽ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎ ﺁﺅﮞ ﮔﯽ
ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﭼﺎﮨﯿﮯ ہو ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺠﯿﮯ ﮔﺎ" ایک پھیکی سی مسکراہٹ سعدیہ کے ہونٹوں
پر ابھری۔ " یہ انتظار کا موسم جانے کب بیتے گا؟" اس نے سرجھکا کر سوچا۔
.**********************************************
" سر ﺁﭖ ﺳﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺩﻭﺭ 45 ڈگری پر ایک
,ﺷﺨﺺ ﺁﺭ ﭘﯽ ﺟﯽ ﻟﻮڈ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮕﯿﺞ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺳﮯ"
ﻋﺼﻤﺖ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺯﯾﻦ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﯽ, ﺯﯾﻦ
ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﭨﯿﻠﯽ ﺳﮑﻮﭖ ﮔﮭﻤﺎئی ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﯿﺎ, ﻭﮦ ﮐﻨﺪﮬﮯ
ﭘﮧ ﺁﺭ ﭘﯽ ﺟﯽ ﺭﮐﮭﮯ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﺮﻧﮯ ہی ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺯﯾﻦ ﮐﯽ
ﺍﻧﮕﻠﯽ کی ﺣﺮﮐﺖ سے ﺍﮔﻠﮯ ﭘﻞ ہی ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﯾﮩﮧ ﺁﻭﺍﺯ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺯﻣﯿﻦ ﺑﻮﺱ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ, ﮔﻮﻟﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺍﺩﮬﯿﮍ
ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ, ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ
ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﺎﺋﭧ
ﻭﯾژﻥ ﭨﯿﻠﯽ ﺳﮑﻮﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﻼ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ, ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮨﺮ
نشانہ بازوں ﺳﮯ انتہائی ﻣﮩﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﮨﻨﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ
ﺧﺎﺻﮧ ﺗﮭﺎ, ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺘﺎئی ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ڈﺍﺋﺮﯾﮑﺸﻨﺰ ﭘﮧ
ﮐﺎﺭﮔﺮ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ, ﺩﺷﻤﻦ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘر ﺑﺮﺳﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﺁ ﮐﮩﺎﮞ
ﺳﮯ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ , ﻭﮦ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﺩﮬﻨﺪ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ
..... ﻟﻮﮒ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺪﺣﻮﺍﺳﯽ ﮐﺎ ﺧﻮﺏ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ.
**********************************************
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ
ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺎﺕ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ, ﺯﺧﻤﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ
ﻭ ﭘﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﮭﻦ ﮔﺮﺝ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ
ﻭﺣﺸﺖ ﻧﺎﮎ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ, ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺍﺏ ڈﯾﻔﻨﺲ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ
ﭘﮧ ﺁ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﭩﺮﯾﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﺭﮮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﮍﮪ
ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ, ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﻧﮯ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ " ﺷﯿﺮﻭ کوئی
ﺑﮭﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﺩﺭﮮ ﺗﮏ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﭘﺎﺋﮯ ، ان ﭘر ﮔﮭﯿﺮﺍ ﺗﻨﮓ
ﮐﺮ ﻟﻮ" ﮔﺮﻭﭖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮔﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
بڑھنے ﻟﮕﮯ, ﺍﯾﮏ ﮔﻮﻟﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﻧﺼﺐ
ﺍﻟﻌﯿﻦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﭘﮧ ﻋﻤﻞ ﭘﯿﺮﺍ ﺗﮭﮯ, ﺍﭼﺎﻧﮏ ﻓﻀﺎ
,ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﭨﺮﯾﺴﺮ ﺭﺍﺅﻧڈ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﭘﮭﯿﻞ گئی۔
ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮔﺮﻭﭖ ﮐﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﭨﺮﯾﺴﺮ ﺭﺍﺅﻧڈ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﻧﯿﭽﮯ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﮐﺎ
ﻋﻼﻗﮧ ﻣﻨﻮﺭ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ
ﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﻭﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺑﮭﯽ ہوا ﮐﮧ
ﺳﺮ ﻋﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﺎ ﮔﺮﻭﭖ ﺍﺏ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺭﯾﻨﺞ ﻣﯿﮟ ﺁ ﭼﮑﺎ
ﺗﮭﺎ, ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮔﻮلیوں ﮐﯽ ﺑﺎﮌ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ
ﺗﮭﺎ
"بیٹا شاپنگ کر لی مکمل ؟ " ماں جی نے لاؤنج کے صوفے پر بیٹھتی ہوئی سعدیہ
سے پوچھا جو تھکی تھکی سی دکھائی دے رہی تھیں۔ انہوں نے نظر کی عینک اتار
کر ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا اور کتاب بند کر دی۔
"جی ماں جی تمام سامان لے لیا ہے، کاش علیم بھی عید کے موقع پر ہمارے ساتھ
ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا نا, ان کے سب دوست چھٹی لیکر گھر پہنچ رہے ہیں لیکن
صرف وہی نہیں آ رہے " سعدیہ روہانسی ہو رہی تھیں ۔
"بیٹا اداس مت ہو اس کی جاب ایسی ہے اور پھر تم جانتی تو ہو کہ وہ اپنے فرض
پہ کسی بھی چیز کو مقدم نہیں مانتا, آجائے گا عید کے بعد پھر تم اس کے ساتھ
اپنی امی کے ہاں ہو آنا کافی عرصے سے تم نہیں گئ ہو ان کو اچھا لگے گا"ماں
جی نے محبت بھرے انداز میں نہ صرف سعدیہ کو تسلی دی بلکہ اسے مستقبل کے کچھ
حسین لمحوں کی امید بھی تھمادی۔ یہی تو ہمارے بزرگوں کا خاصا ہے کہ وہ غیر
محسوس انداز میں تسلی دینے کے ہنر سے واقف ہیں۔
"جی امی میں بھی یہی سوچ رہی تھی" سعدیہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل
گئی۔
سر علیم کسی بھی نتیجے کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے. دوسری
طرف زین اپنا کام بہت عمدگی سے سر انجام دیتا چلا جا رہا تھا,
" سر آج تو PSR-90 بھی سوچ رہی ہوگی کہ کس کے ہاتھ آ گئی ہوں "
عصمت صاحب دبی سی ہنسی ہنسے .
"یار یہ میرا فیورٹ ہتھیار ہے دشمن کی پوزیشن اور اینگل بتاتے رہیں میں
دیکھ لیتا ہوں ان کو" انہوں نے ٹھنڈے انداز میں جواب دیا۔
حکمتِ عملی کے مطابق وہ لوگ سمٹتے سمٹتے اب درّے کے پاس پہنچ چکے تھے میدان
میں جا بجا زخمی اور لاشیں بکھری ہوئی تھی. جیسے ہی ان کو اوٹ میسر ہوئی
انہوں نے آر پی جی لوڈ کرنا شروع کر دئیے
" سر وہ اوٹ کی طرف ہیں اور میرا اندازہ ہے اب آر پی جی کا فائر ہوگا"
حوالدار اللہ بخش نے کہا جو سر علیم کے شانہ بشانہ آگے بڑھ رہا تھا۔
"تم مجھے کور فائر دو اور زین کو پاس کرو کہ درّے سے کوئی نہ نکلے، اپنی
تمام طاقت وہاں پہ لگا دے ایک بھی زندہ نہ بچ کے جانے پائے.
"جی سر میں پاس کروا رہا ہوں" حوالدار اللہ بخش نے جواب دیا
وہ ہدایات دیتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک سنسناتی ہوئی گولی
نے حوالدار اللہ بخش کا شکار کر لیا, وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے نیچے جھکتا چلا
گیا۔
" اللہ بخش کیا ہوا تمہیں؟ تم رک کیوں گئے ؟؟" انہوں نے مڑے بغیر پوچھا۔
"کچھ نہیں سر آپ دھیان سے آگے بڑھیں، میں ٹھیک ہوں" یہ کہہ کر وہ جیسے ہی
سیدھا ہوا ایک اور گولی اس کی چھاتی میں گھستی چلی گئ اور وہ الٹ کر زمین
پر گرا۔
"اللہ بخش .........." سر علیم نے اس بار اسے گرتے دیکھ لیا تھا۔ سینے اور
پیٹ سے خون بھل بھل نکل کر اس کی وردی کو سرخ کر رہا تھا سر علیم کے گلے سے
غراہٹ نکلی " اللہ بخش؟" وہ پکارتے ہوئے تیزی سے بھاگ کر اسکی طرف آئے, وہ
سانس لے رہا تھا اٹکتی سانسوں میں جواب دیا۔
" سر مجھے چھوڑیں آپ انکو دیکھیں اگر ایک اور ٹریسر فائر فائر ہوا
تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا ۔ہمارے گرد دشمن کا گھیرا تنگ ہو چکا ہے
کچھ ہی دیر میں ہم سب انکے نشانے پہ ہوں گے ، آپ میری فکر نہ کریں ، اور
وقت ضائع نہ کریں" اللہ بخش پھنسی پھنسی سی آواز میں بمشکل بولا۔
" اللہ بخش حوصلہ رکھو تمہیں کچھ نہیں ہوگا" میرے شیر انہوں نے اسکا ہاتھ
پکڑ کر کہا۔وہ اس وقت کرب کے عظیم تر احساس سے گزر رہے تھے۔ اپنے سامنے
اپنے ہی ہاتھوں میں اپنے ساتھی کو شہادت دیتے دیکھنا ان کے لیے آسان نہیں
تھا۔
" اپنی کوئی آخری خواہش بتاؤ اللہ بخش؟" انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ
بخش کے پاس وقت کم ہے۔ضبط سے ان کی آنکھوں کی لالی گہری ہوتی جارہی تھی۔
" سر . . . میری بیٹی ہمیشہ مجھے کہتی تھی کہ بابا آپ نے اپنے سینے پہ گولی
کھانی ہے، اس کو بتا دینا . . . . کہ تیرے بابا نے تجھ سے کیا وعدہ وفا کر
دیا ہے۔ . . . . . سر. . . میں نے اپنا فرض اور وعدہ پورا کر دیا اللہ نے
چاہا تو جنت میں ملاقات ہوگی . . . . اَشہَدُ اَن لَا اِلٰہ اِلّا اَللّہ"
ساتھ ہی اس کا سر ڈھلک گیا
علیم سر نے اسکی آنکھوں پہ ہاتھ پھیر کر انہیں بند کیا اور آواز دی
" عامر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ان سے کچھ ہی دور اپنی پوزیشن سنبھالے فائر کر
رہے تھے۔ " جی سر کیا ہوا ؟؟"
" اللہ بخش شہید ہو گیا ہے باقیوں کا پتہ کریں کہ ہمارا کتنا نقصان ہوا ہے
؟ " اچانک سے ایک ناقابلِ برداشت تھکن ان کے وجود کو چیرنے لگی تھی۔
" یس سر " ابھی یہ گونج تھمی نہ تھی کہ آر پی جی کا فائر ہوا راکٹ سیدھا
وہاں آیا جہاں عامر صاحب اور دوسرے لڑکے موجود تھے, انہوں نے دھماکے کی
روشنی میں عامر صاحب , نائیک اسماعیل اور توقیر کو تنکوں کی طرح ہوا میں
بکھرتے دیکھا ۔ " صاحب........... ان کے حلق سے ایک چیخ نکلی ،جو فضا میں
بازگشت کی صورت ابھری ۔
************************************************
" سر عامر صاحب سے کمیونیکیشن نہیں ہو پا رہا, آر پی جی فائر ہوا ہے۔ اللہ
خیر کرے، اس گروپ کی طرف سے فائر ریٹ بھی بہت سلو ہو گیا ہے ۔ میں ایل ایم
جی کھول رہا ہوں۔ آپ کے سامنے اب جو بھی آتا ہے اس کا صفایا کرتے جائیں "
عصمت صاحب نے زین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
" ہاں عصمت صاحب میں سنبھالتا ہوں، آپ پوزیشن پہ فائر گرائیں" زین نے جواب
دیا
اب بھی انکی تعداد انیس بیس کے لگ بھگ تھی ۔ انہوں نے خود کو دو گروپس میں
تقسیم کر لیا، ایک گروپ درّے کی جانب بڑھنے لگا جبکہ دوسرا انہیں کور فائر
دینے لگا ۔
***
سر علیم نے محسوس کیا کہ دشمن کا فائر ریٹ کم ہو رہا ہے اور وہ اب اکاّ
دکاّ فائر کر رہے ہیں، اس سے وہ سمجھ گئے کہ یہ کور فائر ہو رہا ہے ، وہ
تیزی سے آگے بڑھے۔
زین مہارت سے ٹارگٹ انگیج کرنے میں مصرف تھا۔ دوسری طرف LMG دھاڑ رہی تھی۔
دشمن حیران تھا کہ آخر یہ کتنے لوگ ہیں جو ہمارا صفایا کرتے چلے جا رہے ہیں
۔ کہاں کہاں سے فائر آ رہا ہے ان کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ زین کی پوری توجہ
درّے پر تھی ۔
جیسے ہی کوئی سر اٹھتا نظر آتا انگلی جنبش کرتی اور وہ سر چیتھڑوں میں
تبدیل ہو جاتا ۔ درّے سے تین سو میٹر دور اونچائی پہ لگی LMG گراؤنڈ لیول
پر موجود دشمنوں کا صفایا کرنے میں مصروفِ عمل تھی۔
****
سر علیم خطرناک حد تک آگے آ چکے تھے کہ اچانک ایک دشمن کی نظر ان پر پڑ گئی
, انہوں نے اپنے بازو میں آگ داخل ہوتی ہوئی محسوس کی ۔ درد کی پرواہ کیے
بنا وہ فائر کرتے رہے کہ ایکدم میگزین خالی ہوگیا, ایک جھاڑی کی اوٹ میں
بیٹھ کر وہ میگزین تبدیل کرنے لگے کہ اچانک سنسناتی ہوئی گولیوں کی بوچھاڑ
نے انکی ٹانگیں چھلنی کر دیں
وفا جن کی وراثت ہو
اس کہانی کا ششم آخری حصہ
تحریر : سید شازل شاہ گیلانی
وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگے مگر ٹانگیں اب جواب دے چکی تھیں وہ ایک دم سے
زمین پہ گرے. دل سے دعا نکلی" یا اللہ ہم سب کو اتنی ہمت دےکہ آج ان میں سے
کوئی بچ کر نہ جاسکے۔ میرے مالک مجھے حوصلہ عطا کر کہ میں اپنا فرض ادا کر
سکوں , یا اللہ بس ایک بار"
"صاحب لگتا ہے سر علیم گرے ہیں اللہ کرے یہ میرا وہم ہی ہو" زین نے عصمت
صاحب کو مخاطب کیا.
" سر آپ درے پہ توجہ دیں میں انکو دیکھتا ہوں" یہ کہہ کر انہوں نے LMG ہاتھ
میں اٹھائی اور فائر کرتے ہوئے نیچے کی طرف اترنے لگے . دشمن کو اندازہ ہو
گیا تھا کہ اس نے اپنا ٹارگٹ انگیج کر لیا ہے وہ ابھی بھی اسی سمت نظریں
جمائے بیٹھا تھا . سر علیم ہمت جمع کر کے اٹھے جیسے ہی وہ زمین سے تھوڑا
اوپر ہوئے ایک گولی ان کے دائیں گال سے رگڑ کھاتی ہوئی گزر گئی۔ ایک لمحے
کو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے دہکتی ہوئی سلاخ ان کے گال سے مٙس کردی ہو۔ رگ
و پے میں آگ سی بھر گئ ، وہ پھر سے گرے . درد بھری سِسکی ان کے لبوں سے
برآمد ہوئی.
ذہن میں خیال آیا کہ "دو دِن بعد عید ہے. لوگ اللہ کے حضور جانوروں کی
قربانی پیش کریں گے اور میں کتنا خوش نصیب کہ اپنی جان اس پاک وطن کے نام
پہ قربان کر رہا ہوں . سعدیہ اور اماں جان کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ گئے
کہ جو لوگ میرے معمولی سر درد پہ تڑپ جاتے ہیں جب میری نعش دیکھیں گے تو
کیا کریں گے ؟ " ایک لحظے کے بعد دوبارہ اٹھنے لگے جوں ہی سیدھے ہوئے
گولیوں کی بوچھاڑ نے انکا سینہ چھلنی کر دیا. . . . . . . . .
اتنے میں زین اس آدمی کو دیکھ چکا تھا جو سر علیم کو نشانہ بنا رہا تھا اس
نے ہیڈ شاٹ فوکس کیا اور ٹرائیگر دبا دیا گولی ٹارگٹ کا سر اڑاتی ہوئی نکل
گئ اور وہ بنا کوئی آواز نکالے اوندھے منہ نیچے جا گرا
"جوانو! دشمن کے اب دو چار لوگ ہی رہ گئے ہیں کوئی بھاگنے نہ پائے مجھے وہ
ہر حال میں چاہیئں زندہ یا مردہ، یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہتھیار اٹھایا
اور اندھا دھند اس سمت بھاگا جہاں اس نے سر علیم کو گرتے دیکھا تھا. اس کے
پہنچنے سے قبل عصمت صاحب وہاں پہنچ چکے تھے اور باقی گنے چنے لوگوں کو
نشانہ بنا رہے تھے . اس نے ہتھیار ایک طرف پھینکا اور سر علیم کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے لیا. ان کا ہاتھ برف کی مانند سرد ہو رہا تھا, وہ مسکرائے ان
کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک در آئی تھی ، جیسے انہوں نے کسی ایسی منزل
کو پالیا ہو جس کا نعم البدل اس دنیا کی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی تھی۔
زین کے کانوں میں ان کے وہ الفاظ گونج رہے تھے جو کچھ عرصہ پہلے انہوں نے
کہے تھے۔
"زین ، فوجی جب وردی پہنتا ہے نا ۔ تو اپنی جان اپنے رب اور اپنےوطن کو
سونپ دیتا ہے تب سب سے پہلے اپنے جذبات کو مارنا سیکھتا ہے۔ اس کی وردی اس
سے قربانی مانگتی ہے۔ پہلی قربانی ماں باپ ، بہن بھائی اور بیوی بچوں سے
دور ہونا ہوتی ہے . دوسری قربانی، چوٹ روح پر لگے مگر آنکھ میں آنسو نہ
آئیں ، فوجی بھی انسان ہوتا ہے زین ، اس جذباتی کشمکش میں وہ جذبات سے عاری
ہونے لگتا ہے اسے وطن کا سوچنا ہوتا ہے ،اس کے دل میں صرف شہادت کی تمنا
ہوتی ہے ، دنیا کی محبت کو دل سے نکال پھینکتا ہے، روتا بھی ہے تو پہلے سے
زیادہ مضبوط ہونے کے لیے،
ایسا نہیں کہ انسان پتھر ہوجاتا ہے، وہ خوشی قربان کرنا سیکھ چکا ہوتا ہے
جو کسی اور کے بس میں نہیں ہوتا ،یوں وہ ایک مکمل فوجی بن جاتا ہے ۔ پھر
ایسا ہوتا ہے کہ ایک لڑکی اس کی زندگی میں اس کا ہم سفر بن کر آتی ہے وہ
لڑکی اپنی خوشیاں ،اپنا ساتھ اس فوجی کے نام کرتی ہے, وہ کبھی نہ ٹوٹنے
والا فوجی جب اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا ہے تو پھر وہ موم بن جاتا
ہے وہ اس کے دُکھ کے احساس سے ٹوٹنے لگتا ہے. . . . . . " زین نے ان سے
مضبوط ہونا سیکھا تھا۔ وہ حال میں پلٹ آیا۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہے
تھے۔
" زین نے محسوس کیا کہ ان کی سانس اکھڑ رہی ہے۔ اس کے لیے ان لمحات کو
برداشت کرنا مشکل ترین ہوگیا تھا.اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی
زندگی کے بدلے ان کی موت کو اپنے گلے لگا لے۔
" زین میری ماں اور میری سعدیہ کو سلام کہنا اور کہنا. . . . . کہ اپنے
آخری وقت میں بھی میں. . . . ان لوگوں کو یاد کر رہا تھا. . . انہیں بتانا
کہ میں ان سے بہت محبت کرتا تھا. . . . ہاں میں نے کبھی اظہار نہیں کیا ،
شاید میں انہیں کبھی نہیں بتا سکاکہ وہ میرے لیے کیا ہیں؟
اسی اثناء میں تمام لڑکے دشمنوں کا صفایا کر کے ان کے پاس پہنچ چکے
تھے.فضاء دکھ اور تکلیف کے احساس سے بوجھل ہو رہی تھی.ان کا بہت پیارا ان
کے سر علیم انہیں چھوڑ کر جا رہے تھے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے. اپنوں
کو خدا حافظ کہنا کہاں آسان ہوتا ہے. ان کے حوصلوں سے پہاڑ بھی ٹکرائیں تو
پاش ہاش ہوجائیں مگر اس لمحے وہ سب خود کو ریت کی دیوار جیسا کمزور محسوس
کر رہے تھے۔ ضبط سے آنکھیں اور کانوں کی لوئیں سرخ ہورہی تھیں۔
"سر ! خدا کے لیے ایسا مت کہیں, آپ کو کچھ نہیں ہوگا"امدادی ہیلی کاپٹر آتے
ہی ہوں گے , زین روہانسا ہوگیا مگر اس کی امید نے ابھی دم نہیں توڑا تھا۔
"نہیں یار میں جانتا ہوں میرے پاس اب وقت نہیں ہے مجھے خوشی ہے کہ ہم نے
اپنا فرض ادا کر دیا ہے. ہم نے دشمن کو بتا دیا ہے کہ ہم جاگ رہے ہیں وہ اب
ہمارے وطن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے سے قبل ہزار بار سوچے گا , تم نے
ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے . . . . . . اپنے بابا کو میرا سلام دینا . . . . .
. ہاں سنو. . کوئی بھی روئے گا نہیں. . روتے ہمیشہ بزدل ہیں. . . . ہم بزدل
نہیں ہیں ہمیں فخر ہے کہ ہم پاسبانِ وطن ہیں اس وطن کی مٹی سے وفا ہماری
وراثت ہے, اور ہاں میری موت کی اطلاع عید کے بعد میرے گھر دینا, سعدیہ کی
شادی کے بعد پہلی عید ہے . . . . میں نہیں چاہتا کہ اس کی عید خراب ہو
جائے. اتنا کہہ کر انکی سانس اکھڑنے لگی اور وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے
اَشہَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَا
عَبدُہُ وَ رَسُوُلُہُ"
’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اور زین کے کانوں میں اپنے بابا سے سنے چند اشعار گونجنے لگے جہد ان کی
وراثت ہے سخا انکی وراثت ہے وطن کے ہیں یہ رکھوالے وفا انکی وراثت ہے
وطن کے دشمنوں کو یہ کبھی چھوڑا نہیں کرتے کفر کے بت گرا دینا سدا انکی
وراثت ہے
بہت معصوم ہیں دِکھتے ، مگر کردار کے غازی ہے جنت منتظر انکی حیا ان کی
وراثت ہے
یہ شب ہے خادمہ انکی سویرا ان کا نوکر ہے یہ جب چاہیں اثر کردیں ضیا انکی
وراثت ہے
لگا کر حیدری نعرہ جھپٹ پڑتے یہ دشمن پر مقدر کے سکندر ہیں بقا ان کی وراثت
ہے
( ختم شد )
|