دنیا کی تاریخ ریاستی عملداری کی بڑی دلپذیر داستان ہے جس
میں ریاست اپنے شہریوں کو تحفظ دینے کیلئے قوانین مدون کرتی اور پا لیسیاں
بناتی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ان اہداف کے حصول کی عملداری کو یقینی بناتی ہے
تا کہ اس کے شہری بلا خوف و خطر سکھ چین اور خوشخالی کی زنندگی بسر کر سکیں
۔ یہ قوانین حالات کی منا سبت اور وقت کے جبر کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ایک
حکمران آتا ہے کچھ پالیسیاں تشکیل دیتا ہے لیکن بعد میں آنے والا حکمران ان
قوانین اور پالیسیوں سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔وہ سابقہ حکمرانوں کی
پالیسیوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنی پالیسیاں نافذ کر دیتا ہے۔۔جنرل
ضیا الحق کے دورِ حکومت میں سکھوں کے ساتھ ایک خاص قسم کی انسیت کا اظہار
کیا گیا اور انھیں علیحدہ قوم کے مطالبہ کے لئے ابھارا گیا۔ جرنیل سنگھ
بھنڈرا والا کا خالصتان کا نعرہ کئی سالوں تک بھارت میں انتشار اور بد امنی
کا استعارہ بنا رہالیکن جب اندرا گاندھی نے ۱۹۸۲ میں گولڈن ٹمپل میں بلو
اپریشن کا فیصلہ کیا تو خالصتان کا نعرہ اپنی موت آپ مر گیا اور پاکستان
ایک تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہا۔جھنیں تھپکی دے کر میدان میں اتارا گیا
تھا ان کی خبر تک نہ لی چنانچہ ہزاروں سکھوں کو گولڈن ٹمپل میں بڑی بے رحمی
سے قتل کر دیا گیا ۔ گولڈن ٹمپل کا فرش اور درو دیوار باغیوں کے خو ن سے
رنگین ہو گے ۔سکھوں کو زندہ آگ کے شعلوں کے حوالے کیا گیا اور ان کے ساتھ
ایسی سفاکیت اور ظلم و جبر کو ہوا دی گئی جس سے انسانیت کا دل بھی کانپ
اٹھا ۔باعثِ حیرت ہے کہ ابتلاؤ آزمائش کے ان سفاک ترین لمحا ت میں کوئی ان
کی مدد کو نہ پہنچا ۔شائد ریاست کی رٹ کے لئے ایسا نا گزیر ہو تا
ہے۔خالصتان کے نعرے کا شعلہ بلو اپریشن کے بعد ایسے گل ہوا کہ اس کا کوئی
نام لیواباقی نہ رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دسمبر ۱۹۸۸ میں بر سرِ اقتدار
آئیں تو انھوں نے خا لصتان کو کمک پہنچانے کی حکو متی پالیسی پر نظر ثانی
کر کے سکھوں کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیا۔دائیں بازو کی جماعتوں اور مقتدر
حلقوں کو بی بی شہید کی یہ پالیسی ایک آنکھ نہ بھائی لیکن ریاستی پالیسی
بنانا وزیرِ اعظم کا استحقاق ہوتا ہے اس لئے سب کو اپنے ہونٹ سینے پڑے۔یہ
وہی دور ہے جس میں جنرل حمید گل نے بیرسٹر اعتزاز احسن پر سکھ باغیوں کی
فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کا جھوٹا الزام لگایا ۔ اس بات کا اعتراف کئی
سالوں کے بعد خود جنرل حمید گل نے ایک انٹرویو میں کیا کہ بیرسٹر اعتزاز
احسن پر جھوٹا الزام لگانے کا مقصد بے نظیر بھٹو کی حکومت کو عوام کی
نگاہوں میں بے وقعت،بدنام اور بے توقیر کرنا تھا تا کہ اس کی رخصتی کو
یقینی بنایا جا سکے ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن پر الزام کے اسی پسِ منظر میں
اسحاق خان نے اگست ۱۹۹۰ میں پی پی پی کی حکو مت تحلیل کر دی ۔ ،۔
آج کل ایک دفعہ پھر سکھوں کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں اور
سکھوں سے پاکستان کے رومانس کے چرچے پورا عالم دیکھ رہا ہے۔اس وقت عمران
خان پر سکھوں کی حمائت کا بھوت سوار ہے لہذا وہ بر سرِ عام ان کی دوستی کا
راگ الاپ رہے ہیں ۔ کرکٹ میں ان کے دیرینہ دوست نجونت سنگھ سدھو ان کے دست
و بازو بنے ہوئے ہیں اور اپنے دوست عمران خان کو شیشے میں اتارنے کی کوشش
کر رہے ہیں تا کہ سکھوں کے بارے میں پاکستانی عوام کے دلوں میں نرم گوشہ
پیدا کیا جائے۔ عمران خان کے حکم پر پاکستان سکھوں کو اپنی پلکوں پر بٹھائے
ہو ئے ہے اور انھیں خصوصی سٹیٹس مہیا کر رہا ہے۔ان کی پا کستان آمد پر
پاسپورٹ کی شرط بھی اسی تناظر میں ہٹا ئی گئی تھی جسے بعد میں بھارتی حکومت
کے احتجاج پر واپس لینا پڑا۔ سکھوں کی خو شنودی کی خاطر نو نومبر کو بابا
گورو نانک کے ۵۵۰ ویں جنم دن پر کرتار پور راہداری کا راستہ کھولنے کا
فیصلہ ہوا۔ حکومتِ پاکستان سکھ کارڈ کھیل رہی ہے جس کے نتائج کے بارے کچھ
نہیں کہا جا سکتا؟بھارتی وزیرِ اعظم اپنی سفاکیت کے لئے پوری دنیا میں شہرت
رکھتے ہیں ۔گجرات کے قصائی سے کسی قسم کے رحم کی امید رکھنا احمقوں کی جنت
میں بسنے کے مترادف ہے۔وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت میں جس کسی نے
بھی بغاوت کی راہ اپنانے کی کوشش کی اس کا انجام بڑا دردناک ہو ا۔یہ سچ ہے
کہ کرتار پور راہداری سے پاکستان کا امیج ایک پر امن ملک کے طور پر دنیا کے
سامنے آیا ہے لیکن کیا اس سے خالصتان تحریک میں جان پڑ جائیگی کیونکہ ایک
دفعہ جو تحریک دم توڑ جائے اس میں جان ڈالنے کے لئے کئی دہائیاں انتظار
کرنا پرتا ہے ۔ تاریخ ہمیں یہی بتا تی ہے کہ تحر یکیں ایک دفعہ بے جان ہو
جائیں تو پھر نھیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ مردہ تحریک کی جگہ
کوئی نئی تحریک جنم لے لیتی ہے اور یوں وقت کا دھارا نئے پیکروں میں متشکل
ہونے لگتا ہے۔ وقت نئے نعروں اور سوچ کو خود بخود جنم دیتا ہے اور نئی
قیادت منظرِ عام پر آ جاتی ہے۔خالصتان تحریک کرتار پور راہداری سے جنم نہیں
لے سکتی کیونکہ اس کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے
اور اس کی ریاستی رٹ کے سامنے علیحدیگی پسند تحریکوں کا ابھرنافی الحال
ممکن نہیں ہے۔ہما رے سامنے کشمیر کی تحریکِ آزادی ہے جس میں بھارت نے پچھلے
سو دنو ں سے کرفیو نافذ کیا ہو اہے۔ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے
مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے جس میں بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔پوری
دنیا کی رائے کے باوجود بھارت کشمیر کو اس کا حقِ خود ارادیت دینے کے لئے
تیار نہیں ہے۔وہ سنگینوں کے زور پر کشمیر کو غلام بنائے ہو ئے ہے۔سو دنوں
کا کرفیو شائد انسانی تاریخ میں ایک انہونا واقعہ ہے۔نریندر مودی کے دل پر
معصوم بچوں کی آہوں اور گریہ زاری کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔وہ اپنی سفاکیت
میں ساری حدود پھلانگتا جا رہا ہے کیونکہ اسے عالمی راہنماؤں کی اشیر واد
حاصل ہے۔دنیا کی واحد سپر پاور اس کی پشت پر کھڑی ہے۔وہ نریندر مودی کو
تھپکی دے رہی ہے کہ وہ اپنی تر جیحات کے مطابق کشمیر کو بھارت کا اٹو ٹ انگ
بنا لے ۔ بھارتی آئین سے ۳۷۰ کی شق کا خاتمہ اسی تھپکی کا شاخسانہ ہے۔ میری
ذاتی رائے ہے کہ پاکستان کو خا لصتان کی بجائے کشمیر کی آزادی پر ساری توجہ
مبذول کرنی ہو گی کیونکہ کشمیری مظلوم ہیں اور ان کے ساتھ ظلم روا رکھا جا
رہا ہے۔ایک متنازعہ علاقے کو اہنی ریاستی عمل داری میں شامل کرنے والا ملک
اپنے کسی غیر متنازعہ علاقے کو علیحدگی کی سند کیسے عطا کرے گا ؟خالصتان
جیسی علیحدگی پسند سوچ کی مہم جوئی میں دنیا پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے
بھارت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرے گی کیونکہ ان کے مفادات بھارت کے ساتھ جڑے
ہوئے ہیں۔بابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا لہذا
پاکستانی قوم کا دل کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے۔پوری قوم کشمیر کی خاطر دل و
جان فدا کرنے کو تیار ہے۔کشمیریوں کی سسکیاں اور آہیں قوم کا بچہ بچہ اپنے
دل میں محسوس کرتا ہے کیونکہ کشمیری ان کے دل میں بستے ہیں ۔شائد یہی وجہ
ہے کہ قوم کی ترجیح خالصتان نہیں بلکہ کشمیر ہے کیونکہ خالصتان کے
دعویداروں سے مسلم قوم نے جو زخم کھائے ہیں وہ آسانی سے مندمل نہیں ہو سکتے
۔سکھہ شاہی راج اور ۱۹۴۷ کے بلوے پاکستانی کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ان
واقعات کو یاد کرنے سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن حکومت کو کچھ نطر
نہیں آ رہا کیونکہ اس نے اپنی آنکھیوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ۔ قوم کا مسئلہ
کرتار پور اہداری نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی ہے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان
نامکمل ہے۔ سکھوں کی محبت کی بجائے کشمیریو ں کیہ محبت کو دنیا میں اجاگر
کیا جائے تاکہ ان کی آزاسادی کا سفر جلد مکمل ہو سکے۔
حکومت کو اپنے ظاہر وباطن میں یکسوئی پیدا کرنی ہو گی کیونکہ قومیں یکسوئی
سے ہی مقامِ بلند حا صل کرتی ہیں ۔ کشمیریوں کی زنجیریں عمل کی شمشیر سے
کٹیں گی لیکن حکومت ایسی ہر شمشیر سے محروم ہے۔
|