عمران خان سلیکٹڈ ہیں ! یہ جملہ حزب اختلاف کی جانب سے
بلاناغہ روزانہ کی بنیاد پر دہرایا جاتا ہے ، سلیکٹرز سے مراد کون ہیں ؟
عام سی سوچ رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ انکا اشارہ کس ادارے کی جانب ہے
۔ ارض پاک میں ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی اور اکثریت کا احترام
نہ کرنے کا الزام لگا یا گیا ہے ان دھاندلی کے الزامات کی بنیاد کیا ہے ؟
اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا واقعی میں جس ادارے پر الزام لگتا ہے اسکا اتنا
ہی قصور ہے ؟ ہماری سیاسی جماعتیں واقعی میں ایسا دھاندلی اور ووٹ چوری
روکنے میں سنجیدہ ہیں ؟ کیا واقعی میں ہمارا نظام انتخاب عوام کے مسائل حل
کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے ؟ اگر یہ نظام انتخاب عوامی مسائل حل کرنے
کی اہلیت رکھتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ نظام اب تک کامیاب نہیں ہوسکا اور
عوام اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت نظام انتخاب سے خوش نہیں ؟ ان تمام
سوالوں کے جواب ہم ذیل میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
پہلے تو ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دھاندلی ہے کیا ؟ دھاندلی کو ہم
بنیادی طور پر دو حصو ں میں تقسیم کرتے ہیں ایک کو قبل از انتخاب دھاندلی
اور دوسرے کو بعد از انتخاب دھاندلی ، قبل از انتخاب دھاندلی میں عام طور
پر حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ترقیاتی فنڈز جاری کردیتی ہے
اور معاشرے کے منظم اور اہم طبقات کی ریاستی وسائل کے استعمال سے حمایت
حاصل کر لیتی ہے معاشرے کے بااختیار افراد برادریوں اور گروہوں کے سربراہوں
کو اپنے اپنے ڈیروں پر بلا کر کسی بھی طریقے سے قسمیں اٹھوا لیتے ہیں کہ
ووٹ ہمارے علاوہ کسی کو نہیں دیں گے بعد از انتخاب دھاندلی میں انتخابی
نتائج تبدیل کرنا چاہے وہ زبردستی ووٹ ڈلوائے جاتے ہوں یا پھر ووٹ ڈالنے کے
بعد انتخابی نتائج میں تبدیلی کی جاتی ہو ۔ بعد ازا نتخاب دھاندلی کا رونا
ہماری سیاسی جماعتیں بہت روتی ہیں ۔ حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اگر انکا
پولنگ ایجنٹ اگر تربیت یافتہ ہو تو پریزائڈنگ افسر نتیجہ میں گڑ بڑ کر سکے
اور پریزائڈنگ افسر کے نتیجے کی تصدیق شدہ کاپی لینے کے بعد وہی کاپی اپنے
امیدوار کو پہنچائے اور امیدوار پوری تیاری کے ساتھ ریٹرننگ افسر کے پاس
پہنچے تو ممکن ہی نہیں کہ نتائج میں ردو بدل کیا جاسکے ۔ہاں اگر امیدوار یا
اسکے پولنگ ایجنٹ اگر کمزور ہوں تو ظاہر ہے جس کو بھی موقع ملے گا وہ اس سے
بھرپور فائدہ اٹھائے گا چاہے وہ معاشرے کا کوئی گروہ ہو یا کوئی بھی ریاستی
ادارہ ، ہاں یہ ضرور ہے کہ الیکشن ٹریبونلز کو اپنے فیصلے جلدی دینے چاہئیں
لیکن اسکے بعد جسکی بھی حکومت آتی ہے وہ سیاسی جماعت اپنے چند لوگوں اور
نشستوں کو بچانے کے لئے پورے کے پورے نظام کی شفافیت اور کریڈبلیٹی کو داؤ
پہ لگا دیتی ہے جس سے سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعاون متاثر ہوتا ہے اور
بدگمانی کا داغ مزید گہرا ہوجاتا ہے میری نظر میں دھاندلی ہونے اور کروانے
میں سیاسی جماعتیں زیادہ قصوروار ہیں قارئین کس کو قصور وار سمجھتے ہیں اس
کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتیں قبل از انتخاب اور بعد
ازانتخاب دھاندلی روکنے میں سنجیدہ ہیں ؟ اسکا جواب ہم سیاسی جماعتوں کے
رویوں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں انتخابی دھاندلی کا الزام ہمیشہ سے سیاسی
جماعتوں کو اس وقت یاد آتا ہے جب وہ حزب اختلاف میں ہوتی ہیں لیکن جب
اقتدار میں ہوتی ہیں تو اس کے لیے کسی بھی قسم کی قانون سازی نہیں کی جاتی
آپ ہماری سیاسی جماعتوں کی اہلیت اور سنجیدگی کا اندازہ کریں کہ سمندرپار
پاکستانی جو کہ اس ملک کا اثاثہ ہیں اور اگر وہ اپنے پیسے ملک میں نہی
بھیجیں تو ملک دیوالیہ ہوجائے لیکن انکو ووٹ کا حق دینے کے لئے سپریم کورٹ
کو ایکشن لینا پڑ ا تھا لیکن سیاسی جماعتیں اس حوالے سے نہ تو قانون سازی
کرنے میں سنجیدہ تھیں اور نہ ہی انھوں نے سمندرپار پاکستانیوں کے ووٹ کے
حصول کے لئے کوئی پروگرام دیا ۔ انتخابی اصلاحات ہی کے ذریعے ہم عام آدمی
کا اعتماد ملکی سیاست اور سیاسی اداروں پر بحال کرسکتے ہیں کیوں کہ جب تک
عام مگر اپنے اپنے شعبوں کے بہترین لوگ اسمبلیوں میں نہیں پہنچے گے تب تک
عوام کے مسائل حل کرنے کی امید کرنا سراب کے پیچھے بھاگنا ہے۔ سیاسی
جماعتیں اگر سنجیدہ ہوں تو انتخابی ضابطہ اخلاق بنانا اور اس پر عملدرآمد
کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کو بااختیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ بطور
ایک سیاسی کارکن میری تمام تر ہمدردیاں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں لیکن
بطور سیاسی کارکن میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ ہم قوم کو یہ باور کروانے
میں ناکام ہیں کہ ہم آپکے مسائل حل کرنے میں سنجید ہ ہیں ۔ میری ناقص رائے
میں ہماری سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کرنے میں سنجیدہ نہیں ۔ قارئین کی
کیا سمجھتے ہیں اسکا فیصلہ ان پر چھوڑتاہوں ۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ کیا یہ نظام انتخاب اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کے
ذریعے منتخب ہونے والے ممبران اور حکومت عوامی مسائل کا حقیقی ادراک کرسکے
اور انکے حل کے لئے جدوجہد کرسکے اور کیا یہ نظام انتخاب عوام کا اعتماد
حاصل کرنے اور انکے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوا ؟ اسکا جواب بھی ہم
سیاسی جماعتوں کے سٹرکچر اور اسمبلی کے منتخب ممبران کے طبقے سے جاننے کی
کوشش کرتے ہیں جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آنا چاہتی ہے اسکے لئے یہ
ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ ’ ’ الیکٹیبلز‘‘ کو اپنے ساتھ ملائے بغیر اقتدار
میں آجائے جسکی وجہ سے اقدار کے بجائے اقتدار کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا وہ
شخص جو 1 سال پہلے تک کسی ایک جماعت اور اسکی قیادت کے قصیدے پڑھ رہا ہوتا
ہے موقع ملتے ہیں دوسری سیاسی جماعت میں چلاجاتا ہے اور چند ہی دنوں میں
دوسری سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے اپنی پہلے والی سیاسی جماعت اسکی قیادت
اور طرز سیاست کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے چوں کہ یہ تمام الیکٹبلز
اپنے اپنے حلقے میں کسی بھی سیاسی تنظیم کو پنپنے ہی نہیں دیتے اس لیے انکے
جماعت چھوڑتے ہی وہ سیاسی جماعت اس حلقے میں لاوارث سی ہوجاتی ہے اور پھر
دوسری سیاسی جماعت وہی غلطی دہراتی ہے جو اس سے پہلے والی جماعت دہرا چکی
ہوتی ہے ، میں خلوص نیت سے یہ سمجھتا ہوں کہ باوجود سیاسی اختلاف کے تمام
کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن اقتدار
کے بھوکے یہ ’’ الیکٹیبلز ‘‘ ان جماعتوں کو اور انکی قیادت کو بلیک میل
کرتے رہتے ہیں چوں کہ یہ اس نظام کے پرانے کھلاڑی ہیں اور نسل درنسل سے
اقتدار میں چلے آرہے ہیں اس لیے انھوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا بیوروکریسی
اور ٹھیکیداروں کو بھی کرپشن کے ذریعے اپنا گرویدہ کرلیا اور نظام کو آلودہ
کرلیا چوں کہ انکی اکثریت جاگیردارانہ سوچ اور طبقہ سے ہے تو یہ کسی بھی
صورت یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ کوئی پروفیشنل شخص محنت کے بل بوتے پر
انکے سامنے کھڑا ہوجائے یا ان سے آگے بڑھ جائے اس لیے یہ علاقے کے لوگوں کو
تھانہ اور کچہری کلچر میں پھنسا کر رکھتے ہیں اور اپنے کوٹے کی نوکریوں میں
اپنے بندے بھرتی کروا کر اپنے ووٹ بنک کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دیتے انکے
علاقوں میں ریاستی رٹ کہیں بھی نہیں نظر آئے گی آپکو یہی وڈیرے پولیس
اورعدالت دونوں کا کردار ادا کرتے ہوئے ملیں گے ۔ بدقسمتی سے اسمبلی ممبران
کی غالب اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور میری نظر میں جب تک موجودہ
نظام انتخاب رہے گا تب تک سیاست میں انکی گرفت سیاسی جماعتوں سے زیادہ رہے
گی اور یہ کسی بھی قسم کی اصلاحات نہیں ہونے دیں گے اور اپنے اپنے وفادار
افسران کے ذریعے بہترین سے بہترین حکمت عملی اور پالیسی کو فلاپ کروا دیں
گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظام انتخاب عوام کے مسائل کو حل
کرنے میں ناکام رہا ہے تو پھر ایسا کونسا نظام انتخاب ہو جس میں سیاسی
جماعتیں درجہ بدرجہ اپنی گرفت مضبوط کرتی جائیں صدارتی نظام تو یہ طبقہ کسی
صورت بھی نافذ نہیں ہونے دے گا کیوں کہ صدارتی نظام کا نافذ ہونا اس طبقہ
کی سیاسی موت ہوگا اور میرے خیال میں یہ طبقہ اسکی ناکامی کے لئے دن رات
ایک کردے گا لہٰذا اگر متناسب نمائندگی نظام انتخاب کو پاکستان میں رائج
کیا جائے تو اس سے بہت زیادہ بہتر نتائج ملنے کی امید ہے اور بہت تیزی کے
ساتھ عام آدمی بھی اسمبلی کے ایوانوں میں اپنی تعداد کو بڑھا لے گا اور
کارکنان کے اسمبلی کے فلور پر جانے سے مثبت بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگا اور
سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے مناسب موقع بھی مل سکے
گا |