امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی
کہ اُسے چوپایوں اور پرندوں کی بولی سکھا دیں۔ آپ نے اُسے منع کیا کہ یہ
بات خطرناک ہے۔وہ اس سے باز رہے۔ اُس نے اسرار کیا تو حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے اُسے کتے اور مرغے کی بولی سکھا دی۔ صبح کے وقت اُس کی خادمہ نے
دسترخوان جھاڑا تو باسی روٹی کا ٹکڑا گرا مرغ نے اُس ٹکڑے کو اُٹھا لیا۔
کتا مرغ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ مرغ تو دانا بھی چگ سکتا ہے اور کتا
دانا کھانے سے عاجز ہے لہٰذا مرغ و ہ روٹی کا ٹکڑا اُسے دے دے۔مرغ نے کتے
سے کہا کہ چُپ ہو جا غم نہ کر آقا کا گھوڑا کل مر جائے گا۔تجھے اللہ پیٹ
بھر کر کھانا کھلائے گا۔ مالک اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے گھوڑا فروخت
کر دیا اور اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیا۔دوسرے دن بھی مرغ روٹی لے اُڑا اور
گھوڑا نہ مرا تو کتے نے مرغ سے شکایت کی کہ وہ جھوٹا ہے اور کتے کو بھوک سے
دو چار کر دیا ہے۔ مرغ نے کتے کو تسلی دی کہ گھوڑا مرا تو ہے لیکن دوسرے
گھر میں ۔ فکر نہ کر کل مالک کا خچر مر جائے گا اور اُسے صرف کتے ہی کھا
سکیں گے۔مالک جو اُن کی بولی سمجھ رہا تھا اُس نے خچر بھی فروخت کر دیا اور
دوسرے نقصان سے بھی خود کو بچا لیا۔دوسرے دن خچر کے مرنے کا واقعہ نہ ہوا
تو کتے نے مرغ سے سخت شکایت کی کہ تجھے آئندہ کی کوئی خبر نہیں ہوتی ،
ڈینگیں مارتا رہتا ہے تو جھوٹا ہے۔مرغ نے کہا کہ ایسا نہیں خچر دوسری جگہ
جا کر مر گیا ہے۔ کل اس کا غلام بیمار پڑے گا اور جب وہ مرے گا تو یہ کتوں
اور مانگنے والوں کو روٹیاں کھلائے گا۔ مالک نے یہ سنا اور غلام فروخت کر
دیا اور دل میں بڑا خوش ہوا کہ اُس نے کتے اور مرغے کی بولی سیکھ کر بڑی
دانائی اور حکمت سے کام لیا ہے اور کس طرح تین نقصان اپنی دانائی سے ٹال
دیئے۔
تیسرے دن اُس محروم کتے نے مرغ سے شدید شکایت کی، اُسے جھوٹا ، فریبی اور
دغا باز کہا۔ مرغ نے کہا کہ میں اور میری قوم جھوٹ سے سخت دور ہیں۔ ہم صبح
اذان دیتے ہیں تو لوگ نماز پڑھتے ہیں اگر بے وقت اذان دینے کی عادت ڈال لیں
تو ہم ذبح کر دیئے جاتے ہیں۔وہ غلام بھی فوت ہو چکا ہے ہمارے مالک نے اپنا
مالی نقصان تو بچا لیا ہے مگر اپنی جان پر بوجھ لاد لیا ہے۔ مرغ نے اگلے دن
مالک کے مرنے کی خبر دی اور بتایا کہ اس واقع پر اُس کے ورثہ گائے ذبح کریں
گے اور کھانا تقسیم کریں گے۔
یہ سن کر وہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھاگا اور سارا واقعہ سنایا
اور بتایا کہ میں ڈرا ہوا ہوں کہ کتے اور مرغ کی پہلی تینوں باتیں سچی تھیں
اب جبکہ اُنہوں نے اس کے مرنے کی خبر دے دی ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام
ہی اُسے پناہ دے سکتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُس شخص سے کہا کہ فطرت کا
اصول ہے کہ جب اُس کی کمان سے تیر نکل جائے تو موسیٰ علیہ السلام بھی اُسے
واپس نہیں کر سکتے۔ ہاں میں تیرے لیے سلامتی ایمان کی دعا کر سکتا ہوں۔تیری
طرف قضا نے تین دفعہ نقصان کے لیے ہاتھ بڑھایا جو تو نے اپنی تدبیر سے لوٹا
دیا اگر تو ایسا نہ کرتا تو قضا تیرے مالی نقصان سے پلٹ جاتی اور یہ بڑی
مصیبت اس قدر جلدی تیرے سامنے نہ آکھڑی ہوتی۔اب اس سے راہِ فرار نہیں ہے۔
قارئین! امام رومی ؒ کی اس حکایت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ 1947ءمیں
قیام پاکستان اور آزادی کشمیر سے لے کر اب تک درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں
حادثوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ اور مسلمانانِ برصغیر کے لیے
بقاء کی صورتیں پیدا کی ہیں۔آزادکشمیر اور پاکستان کا ہمسایہ وہ ملک بنا
ہوا ہے جو ان کا سب سے بڑا دشمن اور ہر وقت ان کو تباہ وبرباد کرنے کے
منصوبے بناتا رہتا ہے۔اور انہی منصوبوں اور خطروں کے پیشِ نظر آج پاکستان
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔انہی خطروں کی پیش بندی اور نمٹنے کے
لیے آج پاکستان دنیا کے چند ترقی یافتہ ترین میزائل ٹیکنالوجی رکھنے والے
ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔امتِ مسلمہ اور پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کے
ساتھ ہندوﺅں کے ساتھ دوسرا اتحاد کرنے والی قوت اسرائیل اور یہودی لابی
ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نیوکلیئر دھماکوں سے پہلے
بھی فضائی حملے کر کے تباہ کرنے کی عملی کوششیں کرتے رہے ہیں اور کشمیری
مجاہدین کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے اسرائیلی کمانڈوز نہ صرف بھارتی افواج
کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں عملی طور پر کاروائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں بلکہ
BSFاور انڈین کمانڈوز کو اسرائیل ٹریننگ بھی دیتا رہتا ہے۔اسرائیل کا
مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مجبوراً اس میدان میں بھی کام کرنا پڑا اور
اس وقت اسرائیل ہی کا یہ کہنا ہے کہ امریکن حکومت کو اپنی ترجیحات از سرِ
نوتشکیل دینا ہوں گی اور ڈکلیئر کرنا ہو گا کہ القاعدہ ، افغانستان اور
ایران و عراق کی نسبت دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان ہے ۔باوجود
اس کے کہ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“نامی سلوگن کی امریکی سازش میں ملوث ہو کر
پاکستانی حکومت افواجِ پاکستان کو ایک دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
افواجِ پاکستان اور اُن کے عظیم سپہ سالار جنرل اشفاق کیانی نے امریکی
انتظامیہ اور پوری دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ ہم اپنے قبائلی بھائیوں کے
ساتھ ہیں اور اُن کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے افواجِ پاکستان سیسہ پلائی
ہوئی دیوار کی طرح ہر حملے کا سامنا کریں گی اور امریکہ پُر امن قبائلی
شہریوں پر آئندہ حملہ کرنے سے باز رہے ورنہ منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
اس سب صورتحال میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ قدرت پاکستان سے کوئی عظیم کام
لینا چاہتی ہے۔ پاکستانی قوم جو اٹھارہ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس وقت پوری
دنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر سخت ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں،
کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر زندگی کی ہر ضرورت کے لیے پاکستانیوں کو مشقت
کی ایک چکی میں پسنا پڑتا ہے اور مشقت کی یہ چکی پاکستانیوں اور کشمیریوں
کو سخت جان انسانوں میں تبدیل کرتی جارہی ہے۔پاکستانی سیاستدانوں سے لے کر
بیورو کریٹس تک اور پبلک سرونٹس سے لے کر ہر شعبے کے لوگوں نے ہماری قوم کا
امتحان لیا ہے اور 63سالہ اس امتحان کے بعد اب قوم جھوٹ، سچ ، بُرے ، بھلے
کی پہچان کرنے میں ماہر ہو گئی ہے اور جس طرح پاکستان میں طبلہ والی سرکار
سے لے کر جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے ‘نے عوام کو سبق سکھایا ہے اُس سے
اب عوام نئی قیادت اور انقلاب کے لیے کمربستہ ہو چکے ہیں ۔ پاکستان میں دو
سال بعد آنے والے الیکشن ایک نئی قیادت اور انقلاب کا پیغام لے کر آئیں گے
اور دنیا اس انقلاب کا نظارہ دیکھے گی۔
قارئین! اس وقت آزادکشمیر میں الیکشن 2011ءکا طبل بج چکا ہے اور لوگ دیکھ
رہے ہیں کہ 63سال سے آزادکشمیر پر حکومت کرنے والی سوادِ اعظم جماعت مسلم
کانفرنس اس وقت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے اور اس وقت مغلیہ سلطنت کے آخری ادوارِ
حکومت کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اس سیاسی تنظیم کو سیاسی پنڈت اب ماضی کی
ایک کہانی قرار دے رہے ہیں۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی میں دو سابق
وزرائے اعظم کی شمولیت کے بعد لینڈ سلائیڈ وکٹری کے دعوے تو کیے جارہے
ہیں۔لیکن دیکھنے والی نگاہیں اور سننے والے پانچ بڑوں اور وزارتِ عظمیٰ کے
اُمیدواروں کے آپس میں اختلافات اور جنگ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور سُن بھی
رہے ہیں اور اگر ٹانگیں کھینچنے کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان پیپلز
پارٹی کو اس کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اپنی
حکومت کے باوجود اچھی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہے کہ وفاقی حکومت ریمنڈ
ڈیوس،ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ڈرون حملوں اور امریکی ایجنٹ ہونے کا واضح ثبوت دے
چکی ہے اور خارجی و داخلی معاملات، مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور
بےروزگاری پر قابو نہ پانے کی کارکردگی لیے ہوئے ہے اور عوام میں شدید ترین
عدم مقبولیت رکھتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی باوجود بیرسٹر سلطان محمود
چوہدری اور سردار یعقوب کی شمولیت کے اس وقت انتہائی مشکل کا شکار ہے۔
قارئین اس وقت آزادکشمیرمیں ایک نئی آواز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نام سے
بلند ہو چکی ہے اور یہ آواز روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ، بلند سے بلند
ترین ہوتی چلی جارہی ہے جس کی وجہ ایک تو میاں محمد نواز شریف کا پاکستان
سیاست میں اصولی مؤقف رکھنا ہے اور دوسری وجہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ریمنڈ
ڈیوس کے معاملہ پرامریکی دباﺅ کو مسترد کرنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اس
وقت پاکستان اور آزادکشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذو
الفقار علی بھٹو شہید کی ترجمان بن کر سامنے آئی ہے۔ ذو الفقار علی بھٹو
شہید کے سیاسی وارث اُن کے مشن پر عمل نہیں کر رہے اور پاکستان پیپلز پارٹی
کے سیاسی حریف اس وقت بھٹو شہید کے فلسفہ خود مختاری وغیرت پر عمل پیرا ہیں۔
دیکھنے والی نگاہیں سننے والے کان اور سمجھنے والے دل و دماغ اس سب پر
حیران ہیں۔
قارئین! آزادکشمیر کے عوام اس وقت برادری ازم، علاقائیت اور دیگر تعصبات سے
نکل چکے ہیں اور الیکشن 2011ء کا نتیجہ ماضی کے سب نتائج سے مختلف ہو
گا۔بڑے بڑے برج بھی اُلٹی گے ، ماضی کے سوادِ اعظم ایک تاریخ بھی بن سکتے
ہیں اور لینڈ سلائیڈ وکٹری کے دعوے کرنے والے اگر اسی طرح آپس میں لڑتے
جھگڑتے رہے تو اُن کا انجام بھی افسوس ناک ہو سکتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن)
سالارِ جمہوریت سردار سکندر حیات خان، سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان،
سابق سپیکر شاہ غلام قادر اور دیگر کی قیادت میں آزادکشمیر کی ایک نئی
انقلابی آواز بن کر سامنے آئی ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ پردہ کب اُٹھتا ہے اور
کیا سامنے آتا ہے۔قارئین آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
”مشہور دانشور سگمنڈ فرائیڈ سے کسی نے پوچھا ”دنیا میں کتنی عورتیں شادی
کرنے کی خواہش مند ہوتی ہیں“ فرائیڈ نے جواب دیا۔”99فیصد“
پوچھنے والے نے دوسرا سوال کر دیا”اور باقی ایک فیصد کے بارے میں آپ کی کیا
رائے ہے“
فرائیڈ نے مسکرا کر کہا۔”وہ جھوٹ بولتی ہیں“
قارئین! سیاسی تنظیموں اور سیاسی رہنماﺅں کو چاہیے ہ الیکشن2011ءمیں جھوٹ
بولنے اور غلط دعوے کرنے سے پرہیز کریں اور سچائی ، ایمانداری اور راہبری
کے سچے اصولوں کو فروغ دیں ورنہ یاد رکھا جائے کہ پہلے بھی کئی آئے اور کئی
گئے۔جو بھی آیا خالی ہاتھ آیا اور جو بھی گیا خالی ہاتھ گیا.... |